نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں باصلاحیت ملازمین کے لیے ایک ویزا پروگرام کے تنازع پر بظاہر ایلون مسک اور ویویک راماسوامی کی حمایت کر رہے ہیں۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں باصلاحیت ملازمین کے لیے ایک ویزا پروگرام کے تنازع پر بظاہر ایلون مسک اور ویویک راماسوامی کی حمایت کر رہے ہیں۔
امریکی ویزا پروگرام 'ایچ ون بی' کے معاملے پر ٹرمپ نے اخبار نیو یارک پوسٹ کو بتایا کہ انھیں یہ ویزا 'ہمیشہ پسند' رہا ہے اور اس سکیم کے تحت وہ بھی غیر ملکی ملازمین کو بھرتی کیا کرتے تھے۔ ماضی میں ٹرمپ ایچ ون بی پروگرام کے ناقد رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ کے بعض مشیر اس معاملے پر اُن رپبلکن رہنماؤں سے اختلاف رکھتے ہیں جو ہر قسم کے پناہ گزین کے خلاف سخت امیگریشن پالیسی پر بضد ہیں۔
یہ تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب ٹرمپ کے حامی راماسوامی اور مسک نے حکومتی اخراجات پر تنقید کرتے ہوئے امریکی کلچر کو قصوروار ٹھہرایا جس کے تحت امریکی کمپنیاں دوسرے ملکوں سے باصلاحیت ملازمین کو بھرتی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
راماسوامی نے ایکس پر لکھا کہ 'ہمارے امریکی کلچر میں بہترین کی بجائے اوسط کو ترجیح دی جا رہی ہے۔' انھوں نے کہا کہ غیر ملکی ملازمین درحقیقت امریکی معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ثقافت میں 'میتھ اولمپیاڈ چیمپیئن کی بجائے پروم کوین کو سراہا جاتا ہے۔ کلاس کے ٹاپر کی بجائے ایک کھلاڑی کو داد دی جاتی ہے۔ یہ کلچر بہترین انجینیئر پیدا نہیں کر سکتا۔'
مگر اس پیغام پر ٹرمپ کے ان حامیوں نے تنقید کی جو امیگریشن کے خلاف ہیں۔ راماسوامی نے وضاحت دی کہ ان کا خیال ہے کہ 'ایچ ون بی سسٹم بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔'
یہ معاملہ کئی روز تک آن لائن بحث کا موضوع رہا۔ پھر ٹرمپ نے نیو یارک پوسٹ کو بتایا کہ 'مجھے ہمیشہ سے ویزے پسند رہے ہیں۔ میں ہمیشہ سے ویزے کے حق میں رہا ہوں۔ ہم اسی لیے انھیں جاری کرتے ہیں۔'
'میری پراپرٹیز پر کئی لوگوں کے پاس ایچ ون بی ویزے ہیں۔ مجھے ایچ ون بی ویزا سسٹم پر اعتبار ہے۔ میں نے انھیں کئی بار استعمال کیا۔ یہ بہترین پروگرام ہے۔'
اپنے پہلے دورِ اقتدار کے دوران ٹرمپ نے ایچ ون بی ویزا پروگرام کو محدود کیا تھا۔
ماضی میں ٹرمپ اور ان کے نومنتخب نائب صدر جے ڈی وانس ویزوں کے مخالف رہے ہیں۔ وانس کے ٹیکنالوجی کی دنیا سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ وہ وینچر کیپیٹلسٹ کے طور پر کام کیا کرتے تھے اور ایسے سٹارٹ اپس کی فنڈنگ کرتے تھے جن کے ملازمین ایچ ون بی ویزوں پر امریکہ آتے تھے۔
امریکہ میں کرسمس کی چھٹیوں کے دوران راماسوامی کے پیغام نے آن لائن بحث چھیڑ دی ہے۔ کئی رپبلکنز، انتہائی دائیں بازو کے انفلوئنسرز اور ٹرمپ کے قریبی حلقے میں موجود امیر شخصیات نے ان پر تنقید کی ہے۔
ٹرمپ کے حامی سٹیو بینن نے کہا کہ ایچ ون بی ویزا پروگرام کی رپبلکن حمایت کا دعویٰ 'جعلسازی ہے'۔
تاہم ایلون مسک نے راماسوامی کے خیالات کی حمایت کی۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، سپیس ایکس اور ٹیسلا کے سربراہ نے کہا کہ ایچ ون بی پروگرام کے ذریعے دنیا بھر سے بہترین انجینیئرنگ ٹیلنٹ کو امریکہ آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
ناقدین نے آن لائن مسک کی کمپنیوں کی طرف سے نوکریوں کے اشتہارات کے سکرین شاٹ شیئر کیے۔ ان نوکریوں میں ایچ ون بی ویزوں کے ذریعے لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور دو لاکھ ڈالر یا اس سے کم تنخواہ کی پیشکش کی جاتی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایسے لوگوں کو بھرتی نہیں کیا جا رہا جو بہترین انجینیئرنگ ٹیلنٹ ہو بلکہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ملازمین کی حق تلفی کی جا رہی ہے اور انھیں کم تنخواہ دی جا رہی ہے۔
تاہم مسک نے جواباً رپبلکن پارٹی میں موجود 'نفرت پھیلانے والے نسل پرستوں' کا حوالہ دیا اور انھیں احمق کہا۔ 'یہ لوگ رپبلکن پارٹی کے زوال کی وجہ بنیں گے اگر انھیں نکالا نہ گیا۔'
انھوں نے کہا کہ وہ اس ویزا پروگرام کے دفاع کے لیے 'جنگ چھیڑ دیں گے۔'
دوسری طرف ٹرمپ کے دور میں اقوام متحدہ کی سابق سفیر اور ماضی میں صدارتی امیدوار رہنے والی نِکی ہیلی نے راماسوامی اور مسک سے اختلاف کیا۔
انھوں نے کہا کہ 'امریکی ملازمین یا کلچر میں کوئی برانی نہیں۔ آپ کو صرف سرحد پر دیکھنا ہے اور یہ سوال کرنا ہے کہ کتنے لوگ وہ چاہتے ہیں جو ہمارے پاس ہے۔ ہمیں امریکیوں پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور انھیں ترجیح دینی چاہیے، غیر ملکی ملازمین کو نہیں۔'
نِکی ہیلی اور راماسوامی دونوں کے والدین کا تعلق انڈیا سے ہے۔ تاہم نکی ہیلی نے ایچ ون بی ویزا پروگرام کے خلاف انتہائی دائیں بازو کا موقف اپنایا ہے۔
اسلام مخالف کارکن لارا لومر، جو سازشی نظریات پھیلانے اور ٹرمپ کی حمایت کے لیے جانی جاتی ہے، نے بھی اس سلسلے میں کئی پیغامات دیے جن پر لاکھوں ویوز آئے۔
ٹرمپ نے انڈین نژاد کاروباری شخصیت سریرام کرشنن کو وائٹ ہاؤس میں مصنوعی ذہانت کا مشیر نامزد کیا تو لومر نے اس پر تنقید کی۔ لومر نے کہا کہ کرشنن ساری زندگی بائیں بازو کے حامی رہے ہیں اور یہ ٹرمپ کے 'امریکہ فرسٹ ایجنڈے کے خلاف ہے۔'
انھوں نے انڈیا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین کو 'حملہ آور' کہا اور کرشنن کے لیے نسل پرستانہ القاب استعمال کیے۔
لومر نے پھر مسک پر الزام لگایا کہ ایکس پر ان کی پوسٹوں کو محدود کیا جا رہا ہے اور انھیں پیڈ پریمیئم پروگرام سے نکالا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'صدر مسک کا خیال اب حقیقت لگنے لگا ہے۔۔۔ اظہار رائے کی آزادی ایک دکھاوا ہے۔'
امریکہ میں سالانہ 65 ہزار ایچ ون بی ویزے جاری کرنے کی حد ہے جبکہ 20 ہزار اضافی لوگوں کو یہ ویزے دیے جاتے ہیں جو امریکی تعلیمی اداروں سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔
امیگریشن پر تحقیق کرنے والی تنظیم باؤنڈلیس کے مطابق قریب 73 فیصد ایچ ون بی ویزے انڈین شہریوں کو جاری کیے جاتے ہیں جبکہ 12 فیصد چینی شہریوں کو ملتے ہیں۔
ٹرمپ نے دعدہ کیا ہے کہ ان کی طرف سے عہدہ سنبھالتے ہی غیر قانونی پناہ گزین کو وسیع پیمانے پر ڈیپورٹ کرنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔
حالیہ دنوں میں نومنتخب صدر نے اس تاثر کی تردید کی کہ ان پر مسک اور دیگر ارب پتی شخصیات کا دباؤ ہے جنھوں نے ان کی صدارتی مہم کی مالی معاونت کی تھی۔
اتوار کو ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ مسک کے انگوٹھے تلے نہیں۔ انھوں نے کہا کہ مسک 'صدر نہیں بنیں گے۔'