ہرشد مہتا، ’انڈین سٹاک مارکیٹ کا امیتابھ بچن‘ جس نے حصص بازار کا رخ بدل دیا

image
آپ نے ہالی وڈ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم ’دی وولف آف وال سٹریٹ‘ کا نام سنا ہو گا یا اسے دیکھا ہو گا۔ یہ فلم ایک شخص جارڈن بیلفورٹ کی حقیقی کہانی پر مبنی ہے جو سٹاک مارکیٹ میں فراڈ کرتا ہے اور کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچتا ہے لیکن آخر اسے اس کے کیے کی سزا ملتی ہے۔

اسی طرح انڈیا میں صدی کے عظیم اداکار امیتابھ بچن کے بیٹے ابھیشیک بچن کی ایک فلم ’دی بِگ بُل‘ سنہ 2021 میں ریلیز ہوئی جو 1980 کی آخری اور 1990 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں انڈین سٹاک مارکیٹ میں آج تک کی سب سے بڑی گڑبڑ کرنے والے سٹاک بروکر ہرشد مہتا کی زندگی پر مبنی ہے۔

ہرشد مہتا کا سنہ 1992 کا سکیورٹی فراڈ سٹاک مارکیٹ میں آج تک کا انڈیا کا سب سے بڑا سکیم ہے جس میں تقریباً 30 ہزار کروڑ انڈین روپے کی ہیرا پھیری کی گئی تھی۔ آج کی تاریخ میں یہ تقریباً تین کروڑ امریکی ڈالر کا فراڈ تھا جبکہ ایک اندازے کے مطابق یہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تھا اور اسے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر بھی بتایا گیا ہے۔

ہرشد مہتا کے خلاف 27 مجرمانہ الزامات لگائے گئے لیکن اس میں سے صرف چار میں انہیں مجرم قرار دیا گیا جبکہ ابھی ان پر بعض مقدمے چل ہی رہے تھے کہ 31 دسمبر سنہ 2001 کو 47 سال کی عمر میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہو گئی۔

ہرشد مہتا کوئی معمولی کاروباری شخص نہیں تھے بلکہ ان کی پرتعیش زندگی تھی اور اپنے عروج کے زمانے میں وہ انڈیا کے گنے چنے امیروں میں شامل تھے جبکہ ان کے پاس درجن بھر لگژری کاروں کا کارواں تھا۔

صحافی نوپور سینی اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’آپ اسے ماہر سٹاک شناسا کہیں یا پھر ایک بے راہ روی کا شکار جینیئس یا پھر انڈین سٹاک مارکیٹ کی خامیوں کا فائدہ اٹھانے والا لیکن انڈیا کے حصص بازار کی تاریخ میں اس سے زیادہ مقبول کوئی دوسرا سٹاک بروکر نہیں ہوا۔‘

ہرشد مہتا کو ان کے قد اور ان کی کامیابیوں کی وجہ سے ’بِگ بُل‘ کے نام سے پکارا گيا۔ اسی نام سے آنے والی فلم سے ایک سال قبل ان پر ایک ویب سیریز بھی منظر عام پر آئی جس کا نام ’سکیم 1992‘ تھا۔

ہرشد شانتی لال مہتا گجرات کے راج کوٹ میں جولائی 1954 میں پیدا ہوئے۔ گجرات میں ان کی زندگی بہت سادہ تھی لیکن پھر اس کے بعد وہ ’سپنوں کے شہر‘ ممبئی پہنچے جہاں انہوں نے سیلز کے شعبے میں کئی کمپنیوں میں قسمت آزمائی کی، اور نیو انڈیا انشورنس لمیٹڈ میں ملازم ہو گئے جہاں انہوں نے سٹاک مارکیٹ کی باریکیوں کو دیکھا اور سیکھا۔ پھر وہ ملازمت ترک کر کے سٹاک مارکیٹ کے شعبے میں آ گئے۔ ان کی راتوں رات ترقی نے انہیں ’بگ بل‘ اور ’انڈین سٹاک مارکیٹ کا امیتابھ بچن‘ کا خطاب دلایا۔

ہرشد مہتا کو ان کے قد اور ان کی کامیابیوں کی وجہ سے ’بِگ بُل‘ کے نام سے پکارا گيا۔ (فوٹو: ٹریڈ برینز)

لیکن 23 اپریل 1992 کو صحافی سوچیتا دلال نے معروف انگریزی روزنامے ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کے ایک کالم میں ہرشد مہتا کے غیرقانونی طریقوں کو بے نقاب کیا۔

انہوں نے لکھا کہ کس طرح ہرشد مہتا اپنی خریداری کی مالی اعانت کے لیے غیرقانونی طور پر بینکنگ سسٹم میں سیند لگا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل تک انڈیا میں بینکوں کو ایکویٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی اجازت نہیں تھی لیکن ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ منافع کمائيں اور حکومت کے مقررہ سود والے بانڈز میں اپنے اثاثوں کا ایک خاص تناسب برقرار رکھیں۔

مہتا نے بڑی چالاکی سے بینکوں کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بینکنگ سسٹم سے سرمائے کو نچوڑنا شروع کیا اور ان سے لی گئی رقم کو اپنی جانب سے شیئر مارکیٹ میں ڈالنا شروع کر دیا۔ ہرشد مہتا نے بینکوں سے سود کی بلند شرحوں کا وعدہ کیا، جبکہ ان سے رقم اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرائی تاکہ وہ اس طرح دوسرے بینکوں سے ان کے لیے سیکیورٹیز خرید سکیں۔

یاد رہے کہ اس وقت ایک بینک کو دوسرے بینکوں سے سیکیورٹیز اور فارورڈ بانڈز خریدنے کے لیے بروکرز کا سہارا لینا پڑتا تھا اور اس طرح مہتا بینکوں کی منتقل کی ہوئی رقم کو اپنے اکاؤنٹ میں عارضی طور پر شیئرز خریدنے کے لیے استعمال کرتے اور اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی خاص کمپنی کے شیئر کی قیمت کو اتنا بڑھاتے کہ لوگ اسے خریدنے لگتے اور وہ اس کمپنی کے شیئر کو فروخت کر کے وہاں سے نکل جاتے۔

23 اپریل 1992 کو صحافی سوچیتا دلال نے ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کے ایک کالم میں ہرشد مہتا کے غیرقانونی طریقوں کو بے نقاب کیا۔ (فائل فوٹو: بِز بز)

اس کی ایک مثال سیمنٹ کمپنی ’اے سی سی‘ کے شیئرز ہیں جسے اس نے صرف تین مہینے کے اندر 200 انڈین روپے فی شیئر سے 9000 انڈین روپے تک پہنچا دیا، اور جس دن اس نے اپنے شیئر فروخت کر دیے اس دن انڈین سٹاک مارکیٹ آسمان سے زمین پر آ گری جس کے بعد حکومت کو نئے قوانین متعارف کرانے پڑے۔

اس کے علاوہ ہرشد مہتا نے بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی بینک کی رسیدوں (بی آر یا بینک ریسپٹ) کا استعمال بھی کیا۔ انہوں نے ضرورت مند بینکوں کی جعلی رسیدوں سے دوسرے بینک سے پیسے اٹھائے اور ان کا اپنے لیے بے دریغ استعمال کیا، جبکہ جعلی رسیدوں پر پیسے دینے والے بینک اس اعتماد پر ہرشد مہتا کو رقم دے رہے تھے کہ ان رسیدوں کی بنیاد پر ان کی رقم محفوظ ہے۔

مہتا اپنی کامیابیوں کے دور میں میڈیا میں آئے دن نظر آتے تھے۔ ان کے انٹرویوز اور ان کی پرتعیش زندگی بہت سے لوگوں کے لیے قابل تقلید راستہ تھا۔

یہاں تک کہ معروف بزنس میگزین بزنس ٹوڈے سمیت متعدد میگزن کے کور پیج کی وہ زینت بن رہے تھے۔ بزنس ٹوڈے میں ان پر ’ریجنگ بل‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی شائع کیا گیا تھا۔

ممبئی شہر جو اس وقت بمبئی ہوا کرتا تھا وہ آج بھی اتنا ہی مہنگا ہے جتنا اس وقت ہوا کرتا تھا۔ لیکن بمبئی کے پرتعیش علاقے ورلی کے ٹونی ایریا میں ان کا ایک 15 ہزار مربع فٹ پر مبنی پینٹ ہاؤس تھا جو ساحل سمندر پر کھلتا تھا۔

ان کی زندگی کسی کے لیے بھی قابل رشک تھی۔ ان کے اس بنگلے کے ساتھ ایک منی گولف کورس اور سوئمنگ پول بھی تھا۔

ہرشد مہتا پر ایک ویب سیریز بھی منظر عام پر آئی جس کا نام ’سکیم 1992‘ تھا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ان کے کاروں کے قافلے میں ٹویوٹا کرولا، لیکسس ایل ایس 400، اور ٹویوٹا سیئرا جیسی پرتعیش گاڑیاں تھیں جو اس وقت انڈیا میں کم ہی لوگوں کے پاس تھیں۔ لیکسس رکھنے والے وہ اس وقت انڈیا میں واحد شخص تھے۔

لیکن جب ان کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ منہ کے بل آ گری اور ان کی سچائی سامنے آئی تو حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کی اور انہیں قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کی موت کے بعد ان کی ورلی کی جائیداد سنہ 2009 میں تقریباً 33 کروڑ میں نیلام کر دی گئی۔

ان کی تمام کامیابیوں اور ناکامیوں کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہرشد مہتا نے ایک عرصے تک انڈیا کی سٹاک مارکیٹ کی سمت و رفتار کو طے کیا یہاں تک کہ اس کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.