کیپ ٹاؤن میں پاکستان ایسے منجدھار میں گھر چکا ہے جہاں سے نکلنے کو اسے ایک نہیں، اوپر تلے دو تین معجزے درکار ہوں گے اور جو رویہ اس پچ نے پہلے دو دن دکھایا ہے اس کے تناظر میں یہ معجزے خارج از امکان ہرگز نہیں۔
آج سے عین ایک برس پہلے یہی کیپ ٹاؤن تھا اور یہی نیولینڈز کی وکٹ جہاں جنوبی افریقی کپتان ڈین ایلگر اپنا الوداعی ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے۔ تب کیوریٹرز نے جو پچ یہاں اپنے کپتان کے الوداعی میچ کے لیے سجائی تھی، اس نے اپنی ہی طرح کی 'تاریخ' رقم کر دی تھی۔
پانچ روزہ میچ کے پہلے ہی دن میچ کی تین اننگز کا بیشتر حصہ کھیل لیا گیا تھا۔ 26 بلے بازوں نے یہاں قسمت آزمائی کی مگر صرف چار ہی ایسے خوش بخت نکلے جودوہرے ہندسوں کو چھو پائے۔ پہلی اننگز میں جنوبی افریقہ نے انڈیا کے خلاف اپنا کم ترین سکور ریکارڈ کیا تھا۔
اسی میچ کی پہلی اننگز میں انڈیا نے یہ 'ریکارڈ' بھی اپنے نام کیا کہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں صفر رنز کے عوض اپنی آخری چھ وکٹیں گنوانے والی پہلی ٹیم بنی۔ میچ کی پہلی اننگز میں محمد سراج اور تیسری اننگز میں جسپریت بمراہ کی چھ، چھ وکٹیں بالآخر یہاں انڈیا کی تاریخی فتح کا سبب بنیں۔
جب شان مسعود کے تھنک ٹینک نے میچ سے پہلے آخری شام تک اپنی الیون کے اعلان سے گریز کیا تو اس کا سبب واضح تھا کہ وہ نیولینڈز کی اس پچ کے بارے کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر تھے۔
جہاں ڈیٹا انہیں کیپ ٹاؤن میں بولرز کی جنت دکھلا رہا تھا، وہیں موجودہ پچ کے ظاہری حلیے میں کہیں کہیں گھاس کے قطعوں کے بیچ خشک ٹکڑے انہیں کچھ اور سوچنے پہ مجبور کر رہے تھے۔ اور پھر جب باووما نے اپنی الیون میں کیشو مہاراج کی واپسی کا اعلان کر دیا تو پاکستانی کیمپ کا مخمصہ مزید بڑھ گیا۔
مگر میچ کی صبح پاکستان نے سبھی ظاہری اشارے نظر انداز کرتے ہوئے تاریخ اور ڈیٹا کی رہنمائی میں چلنے کا ہی فیصلہ کرتے ہوئے چار سیمرز کے ہمراہ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں انہیں ویسی ہی پچ کی توقع تھی جس پہ بمراہ اور سراج نے چھ، چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں دنیا بھر کی پلئینگ کنڈیشنز کا موازنہ کرنے پر جنوبی افریقہ وہ نمایاں ترین سر زمین نظر آتی ہے جہاں گیند اور بلے کے مابین توازن کبھی بھی منصفانہ نہیں رہا ہے۔
سابق کپتان فاف ڈو پلیسی برملا اپنے کیوریٹرز سے 'مصالحے دار' پچز کی فرمائشیں داغا کرتے تھے۔ ڈین ایلگر بھی اگرچہ میڈیا پہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی ہوم کنڈیشنز انکے اپنے بلے بازوں کے اعدادوشمار مجروح کر رہی تھیں مگر ان کے نزدیک جیت ان سب عوامل سے زیادہ اہم تھی۔
لیکن اس بار نیولینڈز میں اچانک جنوبی افریقہ نے اپنی روایتی پالیسی سے پلٹ کر ایسی پچ تیار کی ہے جو بولرز کے اعتماد کے لیے اتنی مفید نہیں جتنی وہ بلے بازوں کے اعدادوشمار کے لئے ہے۔
اول تو جو قطعہ اراضی اس میچ کے لئے مختص کیا گیا ہے وہاں کوئی ایسی زندہ گھاس میسر نہ تھی کہ سیم موومنٹ میں اضافہ کر پاتی۔ پھر جس قدر سر سبز آؤٹ فیلڈ یہاں دستیاب ہے اس پہ گیند کی چمک بھی اتنی ماند نہیں ہو پاتی کہ ریورس سوئنگ کا ہی کوئی امکان اٹھے۔
ایسی پچز پہ دو ہی ہتھیار کسی بولنگ اٹیک کے لئے سودمند ہو سکتے تھے اور پاکستان ان دونوں سے یکسر محروم تھا۔
ڈیٹا اور تاریخ کے خمار سے سرشار شان مسعود چار سیمرز کے ہمراہ میدان میں اتر کر ٹاس ہارنے پہ بھی پریشان نہ تھے کیونکہ وہ پہلے بولنگ ہی کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ ایسی خواہشات کے بار آور ہونے کو یہاں نہ تو انہیں کوئی باقاعدہ سپنر دستیاب تھا اور نہ ہی کوئی ایسا پیسر جو خود کو میچ پہ مسلط کر سکتا۔
یہاں پارٹنرشپس توڑنے کے لئے باقاعدہ سپن کی جو مقدار درکار تھی پاکستان اسے سلمان آغا اور صائم ایوب کی بدولت پورا کرنا چاہتا تھا۔ مگر صائم کی انجری جہاں پاکستانی ٹیم کو ہی ادھورا کر گئی، وہیں باقاعدہ سپنر کا عدم انتخاب پاکستانی عزائم کو منہ کے بل گرا گیا۔
اور جو ہلکی پھلکی سیم موومنٹ کہیں کہیں دستیاب ہو پائی، پاکستانی اٹیک اپنی پیس میں کمی کے سبب اس کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا۔ قسمت کی مہربانی سے اگر خدا، خدا کر کے کچھ مواقع پیدا بھی ہوئے تو فیلڈ میں کوتاہیوں کی نذر ہو گئے۔
اس کے بعد یہ محض قسمت کی ستم ظریفی ہی کہلائے گی کہ راین ریکلٹن دس گھنٹے سے زیادہ پاکستانی اعصاب پہ سوار رہنے کے باوجود ٹرپل سینچری کے طلسماتی ہدف سے پیچھے رہ گئے۔
کیپ ٹاؤن میں پاکستان ایسے منجدھار میں پھنس چکا ہے جہاں سے نکلنے کو اسے ایک نہیں، اوپر تلے دو تین معجزے درکار ہوں گے اور جو رویہ اس پچ نے پہلے دو دن دکھایا ہے اس کے تناظر میں یہ معجزے خارج از امکان ہرگز نہیں۔
لیکن جنوبی افریقی اٹیک میں نہ صرف پیس اور قد و قامت کا تغیر ہے بلکہ انہیں کیشو مہاراج کی شکل میں ایسا ورلڈ کلاس سپنر بھی دستیاب ہے جو چوتھے پانچویں دن کی پچز پہ تباہی مچا سکتا ہے۔