ٹرمپ 2.0 کے عالمی معیشت پر ممکنہ اثرات: گاڑیوں سمیت چینی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ

عالمی شرحنمو کے لیے سب سے بڑی مشکل غیر یقینی کی صورتحال ہے اور غیر یقینی کی یہ صورتحال امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد بڑھی ہے کیونکہ یہ علم نہیں کہ وہ کیا اقدامات کر سکتے ہیں۔
A vast container ship being loaded at a port in Shanghai
Getty Images
اگر نو منتحب امریکی صدر ٹرمپ نے ٹیرف میں اضافہ کیا تو و چینی مصنوعات امریکی صارفین کے لیے مزید مہنگی ہو سکتی ہیں

تو ہم سب کے لیے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟

کرسمس سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل لاکھوں امریکی قرض دہندگان کے لیے شرح سود میں مسلسل تیسری بار کمیایک خوش آئند تحفہ تھا-

تاہم عالمی سٹاک مارکیٹوں میں تیزی سے گراوٹ دیکھنے میں آئی کیونکہ دنیا کے سب سے طاقتور مرکزی بینکر اور امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول نے واضح کیا کہ مہنگائی کے خلاف جنگ جاری ہے مگر 2025 میں شرح سود میں مزید گراوٹ کی توقع نہیں کرنی چاہیے جتنی کہ انھوں نے پہلے امید کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ 'اب ایک نیا مرحلہ شروع ہوا ہے اور ہم مزید کٹوتیوں کے بارے میں محتاط ہونےجا رہے ہیں۔'

حالیہ برسوں کے دوران کووِڈ وبا اور یوکرین میں جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ قیمتیں اب بھی بڑھ رہی ہیں لیکن ان کے بڑھنے کی شرح میں واضح طور پر کمی ہوئی ہے۔

اس کے باوجود نومبر میں امریکہ، یورو زون اور برطانیہ میں افراط زر کی شرح بالترتیب 2.7 فیصد، 2.2 فیصد اور 2.6 فیصد تک بڑھی ہے۔ یہ ان مشکلات کو نمایاں کرتا ہے جن کا سامنا بہت سے ممالک کے مرکزی بینکوں کو افراط زر کے خلاف اپنی جنگ کے 'آخری مرحلے' میں کرنا پڑتا ہے۔ ان بینکوں کا مہنگائی کی شرح بڑھنے کا ہدف دو فیصد رکھا گیا ہے اور اگر عالمی معیشیتیں ترقی کرتی رہیں تو اس ہدف کو حاصل کرنا آسان ہو سکتا ہے۔

تاہمسرمایہ کاری بینک جے پی مورگن میں عالمی میکرو ریسرچ کے سربراہ لوئس اوگنیس کہتے ہیں کہ 'عالمی شرحنمو کے لیے سب سے بڑی مشکل غیر یقینی کی صورتحال ہے اور غیر یقینی کی یہ صورتحال امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد بڑھی ہے کیونکہ یہ علم نہیں کہ وہ کیا اقدامات کر سکتے ہیں۔'

میکسیکو کی ایک فیکٹری میں خاتون مزدور
Getty Images
امریکی ٹیرف میں اضافہ میکسیکو کے ساتھ تجارت کو بھی متاثر کر سکتا ہے

گذشتہ برس نومبر کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد سے وہ امریکی تجارتی شراکت داروں، چین، کینیڈا اور میکسیکو کے خلاف نئے ٹیرف ریٹس کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

اوگنیس کہتے ہیں کہ 'امریکہ مزید الگ تھلگ پالیسی کا موقف اپنا رہا ہے، ٹیرف میں اضافہ کر رہا ہے، امریکی مینوفیکچرنگ (مصنوعات بنانے والے افراد یا کمپنی) کو زیادہ موثر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'اگرچہ یہ کم از کم مختصر مدت کے لیے امریکی معیشیت کی ترقی میں مدد فراہم کرے گا مگر دوسری طرف یقینی طور پر اس سے بہت سے ممالک کو نقصان پہنچے گا جو امریکہ کے ساتھ تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔'

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سابق چیف اکانومسٹ اور صدر اوبامہ کے سابقہ ​​اقتصادی مشیر موریس اوبسٹ فیلڈ کہتے ہیں کہ نئے ٹیرف خاص کر میکسیکو اور کینیڈا کے لیے ’تباہ کن‘ ہو سکتے ہیں لیکن یہ امریکہ کے لیے بھی ’نقصان دہ‘ ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کار مینوفیکچرنگ کی صنعت کی مثال دی جو ’اس سپلائی چین پر انحصار کرتی ہے جو ان تینوں ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگر آپ اس سپلائی چین میں خلل ڈالتے ہیں تو آپ کو آٹو مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہو گا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس میں قیمتوں کو بڑھانے، مصنوعات کی طلب کم کرنے اور کمپنیوں کے منافع کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری بھی کم ہو سکتی ہے۔

اوبسٹ فیلڈ اب پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’اس قسم کے ٹیرف کو ایک ایسی دنیا میں متعارف کرانا جو تجارت پر بہت زیادہ منحصر ہے، ترقی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور دنیا کو کساد بازاری کا شکار بنا سکتا ہے۔‘

ٹیرف کی دھمکیوں نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے میں بھی کردار ادا کیا ہے ۔

اگرچہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی اشیا پر ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں ہی ٹیرف میں اضافہ کیا گیا تھااور اب نئے ٹیرف کا خطرہ رواں سال میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔

اپنے سالِ نو کے خطاب میں صدر شی جن پنگ نے 'بیرونی دنیا میں غیر یقینی صورتحال کے چیلنجز' کو تسلیم کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ معیشت 'بہتری کی جانب گامزن' ہے۔

چین کے کارخانوں سے سستے اشیا کی برآمدات ملکی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ٹیرف قیمتوں میں اضافہ اور طلب میں کمی چین کے لیے بہت سی مشکلات کو بڑھا دے گا،جن میں صارفین کی کم قوت خرید اور کاروبار میں سرمایہ کاری شامل ہے جن سے چینی حکومت نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق چینی حکومت کی ان کوششوں سے اس کی معیشت کو مدد مل رہی ہے اور گذشتہ برس دسمبر کے آخر میں چین نے سال 2025 کے لیے ترقی کی شرح کو 4.1 فیصد سے بڑھا کر 4.5 فیصد کر دیا ہے۔

بیجنگ نے ابھی تک سال 2025 کے لیے ترقی کا ہدف مقرر نہیں کیا ہے، لیکن اس کا خیال ہے کہ یہ پچھلے سال کے مقابلے میں پانچ فیصد تک ہے۔

چین کے لیے عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر مارا واروک کے مطابق 'پراپرٹی کے شعبے میں چیلنجوں سے نمٹنا، سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط کرنا، اور مقامی حکومت کےمالیات کو بہتر بنانا مستقل معاشی بحالی کے لیے ضروری ہو گا۔'

چین میں امریکن چیمبر آف کامرس کے صدر مائیکل ہارٹ کے مطابق ان مقامی یا داخلیجدوجہد کا مطلب ہے کہ چینی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کا 'خیر مقدم' کر رہی ہے۔

امریکی صدر بائیڈن کے دور صدارت میں امریکہ اور چین کے درمیان تناؤ اور ٹیرف ریٹسمیں اضافہ ہوا ہے، یعنی کچھ کمپنیوں نے اپنی پیداوار کو چین سے باہر کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچا ہے۔

تاہم مائیکل ہارٹ کہتے ہیں کہ 'چین کو ایک مضبوط سپلائر مینوفیکچرر کے طور پر ابھرنے میں 30 سے 40 سال لگے' جب کہ 'ان میں سے کچھ کمپنیوں نے ان خطرات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ مگر اب کوئی بھی چین کو مکمل طور پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔'

Trump and Xi Jinping pictured together back in 2017
Getty Images
ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ

ایک صنعت جو ممکنہ طور پر عالمی تجارتی لڑائیوں کا مرکز رہے گی وہ ہے الیکٹرک گاڑیاں۔ پچھلے سال چین میں 10 ملین سے زیادہالیکٹرک گاڑیاں تیار کی گئیں اور اس غلبے کی وجہ سے امریکہ، کینیڈا اور یورپی یونین نے ان پر زیادہ ٹیرف عائد کیے تھے۔

بیجنگ کا کہنا ہے کہ 'وہ ٹیرف ریٹ غیر منصفانہ ہیں اور وہ انھیں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چیلنج کر رہا ہے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے کے امکان نے یورپی یونین کو بھی تشویش میں ڈال رکھا ہے۔

یورپی مرکزی بینک کی صدر کرسٹین لیگارڈ نے گذشتہ ماہ کہاتھا کہ 'تجارت پر پابندیاں، حفاطتی اقدامات، ترقی کے لیے سازگار نہیں ہیں اور بالآخر ان اقدامات کا اثر افراطِ زر پر ہوگا جو بڑی حد تک غیر یقینی ہے۔'

جرمنی اور فرانس یورپ کی اقتصادی ترقی کے روایتی مرکز ہیں۔ لیکن پچھلے سال کے دوران سیاسی عدم استحکام کے باعث ان کی خراب کارکردگی کا مطلب یہ ہے کہ ترقی میں حالیہ اضافے کے باوجود، یورو زون کو آنے والے سال میں ترقی کی رفتار کھونے کا خطرہ ہے۔

یعنی جب تک کہ صارفین زیادہ خرچ نہ کریں اور کاروبار اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کریں۔

ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں ٹیکس اور اجرت میں اضافے کے نتیجے میں قیمتیں بھی مزید بڑھ سکتی ہیں۔

یورو زون کی شرح سود کو کم کرنے میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ گھریلو افراط زر، جو ان اشیا کی قیمتوں پر مرکوز ہے جن کا بیرونی عوامل سے متاثر ہونے کا کم خطرہ ہیں، 4.2 فیصد پر برقرار ہے۔

یہ مجموعی افراط زر کے ہدف سے دوگنا سے زیادہ ہے اور اجرت میں اضافے کا دباؤ اسے مزید نیچے لانے میں رکاوٹ ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی بھرتیاں کرنے والی فرم رینڈسٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو سانڈر وانٹ نورڈنڈے کے مطابق امریکہ میں بھی ایسا ہی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں 2024 میں [اجرت کی افراط زر] اب بھی تقریباً چار فیصد رہنے والی ہے۔ بعض مغربی یورپی ممالک میں یہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'میرے خیال میں اس کے دو عوامل ہیں۔ ایک ہنر کی کمی ہے، لیکن یقیناً مہنگائی بھی ہے اور لوگ اپنے کام کے لیے زیادہ سے زیادہ اجرت حاصل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ بہت سی کمپنیاں یہ اضافی اخراجات اپنے صارفین پر ڈال رہی ہیں، جس سے عام افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر ملازمتوں میں سست روی کمپنیوں کی طرف سے 'متحرک ہونے' کی کمی کی عکاسی کرتی ہے اور اقتصادی ترقی اس کو تبدیل کرنے کی کنجی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'اگر معیشت اچھی طرح سے چل رہی ہو، کاروبار بڑھ رہے ہوں تو کمپنیاں ملازمتیں دینا شروع کرتی ہیں۔بہتر مواقع کی تلاش میں آپ کو ملازمین کا ایک کمپنی سے دوسری کمپنی جانے والا ٹریڈ بھی نظر آتا ہے۔'

Electric vehicles being assembled at a factory in China
Getty Images
الیکٹرک کاریں

سال 2025 میں ایک شخص ایک نیا کردار شروع کرنے جا رہے ہیں وہ ہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔۔۔ اور ان کے ٹیکس میں کٹوتیوں اور ڈی ریگولیشن سمیت دیگر معاشی منصوبے امریکی معیشت کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

جے پی مورگن کے اوگنیس کہتے ہیں وہ (ٹرمپ) 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف لینے سے پہلے بہت کچھ ظاہر نہیں کریں گے۔ تاہم'ہر چیز اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ کیسے ہمیشہ سے باقی دنیا کو ہر چیز کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے مگر امریکہ کو اس سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔'

وہ پرامید ہیں کہ پوری دنیا میں افراط زر اور شرح سود میں کمی آنا جاری رہ سکتی ہے، لیکن انھوں نے خبردار کیا کہ 'اس کا بہت انحصار اس بات پر ہوگا کہ امریکہ کی طرف سے کون سی پالیسیاں لاگو ہوتی ہیں۔'

Read more global business stories


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.