جو ریکارڈ فتح اس ویسٹ انڈین ٹیم کو پاکستانی سرزمین پر درکار ہے، یقیناً وہ بھی براتھویٹ کا مقدر ہو سکتی ہے اگر کل ملتان میں وہ اپنی الیون کے تعین اور اپنی اپروچ کی جارحیت میں بھی وہ درستی لا سکیں کہ حکمتِ عملی کا کوئی ابہام باقی نہ رہے۔
کیریبئین کپتان کریگ براتھویٹ اپنے بلے بازوں سے اس بہادری کی توقع کر رہے ہیں جو وہ پہلے میچ میں دکھانےسے قاصر رہے۔ اُن کے مطابق اگرچہ مقابلہ مجموعی طور پر مسابقتی رہا تھا مگر ویسٹ انڈین بلے باز اپنے بولرز کے کارناموں کی تائید نہ کر پائے۔
براتھویٹ کا یہ تجزیہ غلط نہیں ہے کہ ملتان کے پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران، دونوں ٹیموں میں واضح فرق بیٹنگ اپروچ کا رہا اور جس ٹیم نے زیادہ خطرات مول لیے، وہی بالآخر حتمی نتیجہ اپنے نام کر پائی۔
دوسری جانب پاکستانی کپتان شان مسعود پچز کے اس رویے سے ذرا شاکی نہیں جو دو دن سے بھی کم وقت میں 40 وکٹوں کے حصول اور میچ کا فیصلہ طے کرنے میں معاون رہا ہے۔ بطور کپتان پہلے روز سے اُن کا اصرار رہا ہے کہ جیت کے لیے 20 وکٹیں پانے کی سبیل کرنا لازم ہے۔
ایسے میں کیریبئین ٹیم کا معمہ الگ ہے کہ اُن سے پہلے جب انگلش ٹیم ملتان کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں اُتری تھی تو بین سٹوکس کے بلے بازوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ ملتان کی استعمال شدہ پچ اُن سے کیا برتاؤ کرے گی۔
مگر ویسٹ انڈین ٹیم تو پاکستان کی پرواز بھرنے سے پہلے ہی شناسا تھی کہ انھیں کیسی کنڈیشنز دستیاب ہوں گی۔
جہاں ’بیز بال‘ کے رسیا انگلش بلے بازوں کا سپن کے خلاف انہدام بالکل متوقع اور یقینی تھا، ویسے ہی یہ بھی متوقع تھا کہ ویسٹ انڈین بلے باز بہرحال انگلش ٹیم سے بہتر ثابت ہوں گے کہ بالآخر کیریبئین کنڈیشنز میں دستیاب سپن بھی انگلش پچز سے کہیں بہتر ہوتی ہے اور کیریبئین بلے باز بھی اس کا کچھ زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔
مگر ساڑھے تین دہائیوں بعد پاکستانی ساحلوں پر فتح کھوجتی براتھویٹ کی ٹیم بھی سپن کے مقابلے میں اتنی ہی ہمت جٹا پائی، جو گئے وقتوں میں ویسٹ انڈیز کے عظیم بلے باز کر پایا کرتے تھے۔
حالانکہ مہمان ٹیم کو اگر اپنے سپن وسائل کے حوالے سے کوئی معمولی خدشہ درپیش تھا بھی، تو پہلے ٹیسٹ میچ میں جومیل واریکن کی کریئر بیسٹ بولنگ نے وہ خدشہ دور کر دیا کہ اپنی انگلیوں کے بل پر انھوں نے پاکستانی بیٹنگ کارڈ کو قریب ایک ہی سیشن کا مہمان ثابت کر ڈالا۔
مگر بطور قائد سپنر، انھیں بھی دوسرے کنارے سے کچھ تو تائید درکار ہے جو اگر وکٹیں نہ بھی لے پائے تو کم از کم رنز کے بہاؤ پر تو بند باندھ ہی لے۔ لیکن حالیہ ویسٹ انڈین سکواڈ میں تجربے کی وہ مقدار بھی موجود نہیں جو واریکن کی پریشانیاں کچھ کم کر سکے۔
اگرچہ اپنے بلے بازوں سے جرات آموزی کے تقاضے میں براتھویٹ کے خیالات بے جا نہیں ہیں مگر اپنی ٹیم سلیکشن میں خود انھیں بھی ویسی ہی جرات آموزی دکھانے کی ضرورت ہو گی۔
گو، جیڈن سیلز نے میچ میں کچھ اہم لمحات مہمان ٹیم کے نام کیے تاہم کیریبئین تھنک ٹینک کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس پچ پر دونوں اننگز کے اطراف، میزبان ٹیم کو پیس کا فقط ایک ہی اوور کافی رہا، وہاں الیون میں ایک باقاعدہ پیسر کھلانا ضروری کیونکر ہوا؟
پیس کے یہ اوورز بھی مہمان ٹیم کے لیے مکمل سہولت کا سبب نہیں رہے کہ وکٹیں گرنے کے باوجود، انہی کے دوران نہ صرف پاکستانی بیٹنگ کی رفتار بڑھی بلکہ یہیں پیس کی بدولت گیند کی تازہ سیم بھی ماند پڑی جس کے نتیجے میں سپنرز نئی گیند کے مؤثر استعمال سے قاصر رہے۔
یہ امر بھی مہمان کپتان براتھویٹ کی نظر سے اوجھل نہیں رہنا چاہیے کہ میچ کے آخری نتیجے میں دونوں ٹیموں کے مابین واحد فرق صرف ایک ساجھے داری کا تھا جو محمد رضوان اور سعود شکیل نے جمائی۔
اگرچہ دونوں پاکستانی بلے بازوں نے قدموں کا استعمال کرتے ہوئے ویسٹ انڈین سپنرز کے ڈسپلن کو چیلنج کیا مگر یہاں مہمان کپتان کی مدافعانہ حکمت عملی اور سپنرز کے ضبط کی بے ربطگی بھی پاکستانی بلے بازوں کی تائید ثابت ہوئیں۔
گو ویسٹ انڈین کرکٹ کے حالیہ چند برس تابناک نہیں رہے مگر جہاں جہاں اس ٹیسٹ ٹیم کو فتوحات حاصل ہوئی ہیں، وہاں کپتان براتھویٹ کا بلا اور ان کی قائدانہ صلاحیتیں نمایاں رہی ہیں۔
جو ریکارڈ فتح اس ویسٹ انڈین ٹیم کو پاکستانی سرزمین پر درکار ہے، یقیناً وہ بھی براتھویٹ کا مقدر ہو سکتی ہے اگر کل ملتان میں وہ اپنی الیون کے تعین اور اپنی اپروچ کی جارحیت میں بھی وہ درستی لا سکیں کہ حکمتِ عملی کا کوئی ابہام باقی نہ رہے۔