سٹیفن ملر: امریکہ میں ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسی کے ماسٹر مائنڈ کون ہیں؟

امریکی صدر نے جس روز اپنی دوسری مدت کے لیے عہدہ سنبھالا تو انھوں نے ایسے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن کا سہرا ملر کے سر ہے، جس میں تارکینِ وطن کے لیے پیدائشی حقِ شہریت کو ختم کرنا یا جنوبی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنا شامل ہے۔
سٹیفن ملر
Getty Images

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے پیچھے اگر کوئی ماسٹر مائنڈ ہے تو وہ سٹیفن ملر ہیں۔

39 سال کی عمر میں انتہائی قدامت پسند نظریے کے حامل ان رپبلکن رکن، جنھوں نے پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ کے کچھ انتہائی اقدامات کو ڈیزائن کیا تھا، اب پالیسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ پانے کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ کر لیا ہے۔

امریکی صدر نے جس روز اپنی دوسری مدت کے لیے عہدہ سنبھالا تو انھوں نے ایسے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن کا سہرا ملر کے سر ہے، جس میں تارکینِ وطن کے لیے پیدائشی حقِ شہریت کو ختم کرنا یا جنوبی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنا شامل ہے۔

سٹیفن ملر نے بدھ کو فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم صدر ٹرمپ کے حکم اور ہدایت کے تحت اس ملک کو اس قبضے سے بچانے کے لیے وفاقی افواج کی پوری طاقت استعمال کریں گے۔‘

سٹیفن ملر کون ہیں؟ جنھیں وائٹ ہاؤس میں سب سے زیادہ بنیاد پرست اور بااثر شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

سٹیفن ملر
Getty Images

اختیارات اور طاقت میں اضافہ

1985 میں سانتا مونیکا (کیلیفورنیا) کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے ملر نے بہت چھوٹی عمر سے ہی سیاست میں نمایاں دلچسپی ظاہر کی، قدامت پسند عہدوں کی حامل شخصیات اور میڈیا سے متاثر ہوئے۔

16 سال کی عمر میں انھوں نے اپنے ہائی سکول میں حب الوطنی کی کمی پر تنقید کرتے ہوئے ایک مقامی اخبار کو خط لکھا، جس میں انھوں نے خود کو ایک قدامت پسند کارکن کے طور پر پیش کیا گیا، اس خط میں انھوں نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ لاطینی طلبا کو کلاس میں صرف انگریزی بولنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

ڈیوک یونیورسٹی میں ان کی سیاسی تربیت مزید نکھر کر سامنے آئی، جہاں انھوں نے سنہ 2007 میں پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا۔

فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے رپبلکن کانگریس ارکان کے لیے کمیونیکیشن ایڈوائزر کے طور پر کام کیا اور 2009 میں اس وقت کے سینیٹر جیف سیشنزکے لیے کام کیا جو امیگریشن پر اپنے سخت گیر موقف کے لیے جانے جاتے ہیں۔

ملر
Getty Images
سٹیفن ملر اپنی اہلیہ کے ساتھ

جیف سیشنز کے ماتحت کام کرتے ہوئے ملر نے سنہ 2013 میں دو طرفہ امیگریشن ریفارم بل کی مخالفت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جس سے سرحدی پالیسیوں کے ناقد کے طور پر ان کیساکھ کو تقویت ملی۔

سنہ 2016 میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم میں بطور پالیسی مشیر اور سپیچ رائٹر یعنی تقاریر لکھنے والے کی حیثیت سے شامل ہوئے۔

ملر کو ٹرمپ کی تقریروں کے قوم پرست اور امیگریشن مخالف لہجے کا سہرا دیا جاتا ہے۔

اخبار پولیٹیکو کے مطابق ٹرمپ کے وژن کی تشریح اور اس کو وسعت دینے کی وجہ سے ملر کو سنہ 2017 اور 2021 کے درمیان پہلی ٹرمپ انتظامیہ میں ایک ناگزیر شخصیت کے طور شامل کیا گیا۔

اس کے بعد سے ملر امیگریشن کے بارے میں اپنے بنیاد پرست نقطہ نظر اور انتہائی خیالات کو ٹھوس پالیسیوں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کے لیے جانے جاتے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق رپبلکن مشیر نے رازداری کے ساتھ کام کرتے ہوئے اور اندرونی مخالفت سے گریز کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی کو مکمل کیا، جس کی وجہ سے وہ ’ٹرمپ ازم‘ کے کچھ انتہائی بنیاد پرست اقدامات کو کامیابی کے ساتھ لاگو کر سکے ہیں۔

سٹیفن ملر
Getty Images

ان کی حکمت عملی

اپنی دوسری مدت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے سٹیفن ملر کو امیگریشن ایجنڈے پر وسیع تر اختیارات سونپے ہیں۔

ڈپٹی پالیسی ڈائریکٹر اور قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر اپنے عہدے سے ملر نے ٹرمپ کے امیگریشن ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈرز کے مسودے کی قیادت کی جس میں غیر قانونی تارکین وطن کے بہاؤ کو ختم کرنے اور امریکی سرزمین پر پہلے سے موجود لوگوں کو ملک بدر کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ان احکامات میں سے ایک پیدائشی حقِ شہریت کو ختم کرنا تھا، ایک ایسا اقدام جو آئین میں 14ویں ترمیم کے ذریعے ضمانت یافتہ تاریخی حق سے انکار کرتا ہے اور اسے پہلے ہی عدالت میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔

انھوں نے ٹائٹل 42 کو بھی بحال کیا جو میکسیکو کے ساتھ سرحد کو صحت عامہ کے نام پر بند کرنے کی اجازت دیتا ہے اور ماہرین کے مطابق ملک بدری کی کارروائیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے انھوں نے جنوبی سرحد پر قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا۔

انھوں نے زیر التوا سیاسی پناہ کی درخواستوں کو بھی منسوخ کر دیا اور مزید پناہ گزینوں کے ملک میں داخلے سے انکار کر دیا اور منشیات کے کارٹلز کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا گیا۔

ملر کو ’سیچوریشن سٹریٹیجی‘ کا بھی ماسٹر مائنڈ کہا جا رہا ہے، یہ مسلسل انتظامی کارروائیوں اور اقدامات کی بھرمار کے ساتھ اپوزیشن اور میڈیا کے ردعمل کی صلاحیت کو مغلوب کرنے کا عمل ہے۔

پولیٹیکو اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ ملر نے اپنی حیثیت میں معمول کے مطابق محکمہ انصاف کا سہارا لیے بغیر بیرونی وکلا کے ساتھ کام کیا تاکہ نئی پالیسیوں کا دفاع کیا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ انھیں کم سے کم قانونی رکاوٹوں کے ساتھ عملی جامہ پہنایا جائے۔

ملر نے حکومت سے باہر کی بااثر شخصیات کے ساتھبھی سٹریٹجک تعلقات قائم کیے ہیں جیسا کہ ایلون مسک، جنھوں نے حال ہی میں امیگریشن پر اپنا موقف سخت دیا۔

ٹرمپ کے نئے قومی سلامتی کے مشیر نے قدامت پسند قانونی تنظیم ’امریکہ فرسٹ لیگل‘ بھی بنائی جو ان اداروں اور تنظیموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور میڈیا مہم کو فروغ دیتی ہے جن پر وہ غیر قانونی امیگریشن کی حمایت یا فروغ کا الزام لگاتے ہیں۔

سٹیفن ملر
Getty Images

ٹرمپ کے ساتھ مکمل وفاداری

سنہ 2016 کی صدارتی مہم کے آغاز کے بعد سے سٹیفن ملر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ غیر متزلزل وفاداری کا مظاہرہ کیا اور ان کے قریبی اور انتہائی غیر مشروط اتحادیوں میں سے ایک بن گئے ہیں۔

ملر نے ٹرمپ کی ٹیم میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب وہ وائٹ ہاؤس کے لیے ایک غیر متوقع شخصیت سمجھے جاتے تھے اور ٹرمپ کی پہلی تقریروں میں سے کچھ کا مسودہ تیار کیا، جس نے کامیابی کے ساتھ ان کے قوم پرست لہجے کو تشکیل اور بڑھاوا دیا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ کی پہلی مدت میں ملر نے وائٹ ہاؤس کو داغدار کرنے والے اندرونی تنازعات میں ملوث ہونے سے گریز کیا، حکومت کے اعتدال پسند اور زیادہ بنیاد پرست عناصر دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے۔

تاہم انھوں نے کبھی بھی کسی ایسے حلیف کا دفاع نہیں کیا جو ٹرمپ کے حامی نہیں رہے جیسے کہ سینیٹ میں ان کے سابق باس جیف سیشنز کا معاملہ تھا۔

جب سیشنز نے سنہ 2017 میں اس وقت کے صدر کی حمایت سے محروم ہونے کے بعد اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تو ملر نے ٹرمپ کے ساتھ اپنی وفاداری کو ترجیح دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

ٹرمپ کے احکامات پر بغیر کوئی سوال کیے ان کی پیروی کرنے کی رضامندی سے بھی ان کی وفاداری ظاہر ہوتی ہے۔

پولیٹیکو کے مطابق 39 سالہ ملر کبھی بھی صدر سے متصادم نہیں ہوتے، یہاں تک کہ نجی ملاقاتوں میں بھی اور ٹرمپ کے کسی بھی فیصلے کے ساتھ خود کو جلدی سے ہم آہنگ کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ پہلی انتظامیہ کے دوران کابینہ میں ہونے والی متعدد تبدیلیوں اور پارٹی میں اندرونی جھڑپوں سے بچ پائے۔

سٹیفن ملر
Getty Images

تقسیم کرنے والی شخصیت

ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی اور دوسری مدت میں سٹیفن ملر کی تیار کردہ پالیسیاں امریکی سیاست اور معاشرے میں تقسیم پیدا کرتی ہیں۔

ڈیموکریٹک قانون سازوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت اس کے مخالفوں کے لیے ان کا ایجنڈا امریکہ کے بانی اصولوں اور اس کی سب سے زیادہ کمزور کمیونٹیز پر براہ راست حملہ کرتا ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ملر کی طرف سے پروموٹ کی گئی پالیسیاں امریکہ کے امیگریشن کے انتظام کے طریقہ کار کو تبدیل کر سکتی ہیں اور تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں کے لیے تاریخی طور پر کھلے دروازے بند کر سکتی ہیں۔

ناقدین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ممکنہ ملک بدری اور سرحد کی بندش پڑوسی ممالک جیسے میکسیکو کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ کر سکتی ہے اور نئے انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔

لاکھوں تارکین وطن پہلے ہی کسی نہ کسی طریقے سے ملر کی تیار کردہ اور فروغ دی گئی پالیسیوں کے اثرات کو محسوس کر رہے ہیں، جو اگلے 4 سال میں تنازعات کا موضوع بننے نظر آتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.