’وہ اب بھی پُرعزم، منظّم اور ٹرمپ ہی ہیں‘، امریکی صدر کا پہلا ہفتہ کیسا رہا؟

image
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کے منصب پر فائز ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو ہے لیکن ان سات دنوں میں ہی کچھ ایسے سگنلز ملے ہیں جن سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کی حکمرانی میں آئندہ چار سالہ دور کیسا ہوگا۔

خبر رساں ایجسنی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حلف اُٹھانے کے چند ہی گھنٹوں بعد کیپیٹل ہل پر حملے میں ملوث 1500 سے زائد افراد کے لیے معافی کا اعلان کر دیا تھا۔ ان میں وہ افراد بھی شامل تھے جنہوں نے اس دن پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

ریپبلکن صدر کا فیصلہ ان کے نومنتخب نائب صدر جے ڈی وینس اور دیگر سینیئر معاونین کے اُن بیانات سے متصادم تھا کہ ٹرمپ صرف ان افراد کو معاف کریں گے جو تشدد میں ملوث نہیں تھے۔

معافی کا اعلان اُن کے پہلے ہفتے کیے گئے اقدامات میں سے پہلا تھا جو انہوں نے اپنے حامیوں کو نوازنے اور مخالفین کو سزا دینے کے لیے اُٹھایا تھا۔

ٹرمپ نے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن، سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور کورونا وائرس کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی سے حکومتی سکیورٹی واپس لے لی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ان شخصیات کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر وفاق کی جانب سے فراہم کردہ سکیورٹی میں باقاعدگی سے توسیع کی جاتی رہی ہے۔

اس بار پہلے سے زیادہ منظمڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دفتر میں شروع کے دنوں میں یہ ظاہر کیا ہے کہ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے وائٹ ہاؤس میں چار ہنگامہ خیز برسوں اور اقتدار سے دور رہنے کے چار سالوں سے کتنا سیکھا ہے۔

ایک صدر کے لیے تمام وسائل میں سے وقت سب سے اہم ہوتا ہے اور ٹرمپ نے اپنے ابتدائی گھنٹوں میں ہی ایگزیکٹو آرڈرز، پالیسی میمورینڈم اور حکومتی عملے میں تبدیلیاں کر کے اپنی شناخت بنائی ہے۔

چند ہی دنوں میں انہوں نے جو بائیڈن کے دورِ اقتدار میں جاری کردہ کئی حکم ناموں کو منسوخ کر دیا۔ انہوں نے میکسیکو سرحد پر فوجی تعینات کیے جبکہ مصنوعی ذہانت اور کرپٹو کرنسی پالیسی کے حوالے سے جو بائیڈن کا ایگزیکٹیو آردڑ منسوخ کر دیا۔

ٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدار میں بہت سے ابتدائی ایگزیکٹیو آرڈرز نمائشی تھے جنہیں وفاقی عدالتوں کی جانب سے روک دیا گیا تھا۔

چند ہی دنوں میں انہوں نے جو بائیڈن کے دورِ اقتدار میں جاری کردہ کئی حکم ناموں کو منسوخ کر دیا (فوٹو: روئٹرز)

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی آئینی حد بندیوں کو چینلنج کر رہے ہیں لیکن اس بار وہ ان سے نمٹنے میں کہیں زیادہ ماہر دکھائی دے رہے ہیں۔

ٹرمپ اب بھی ٹرمپ ہیںکیپیٹل روٹونڈا میں نسبتاً پُرامن افتتاحی خطاب کے بعد کیپیٹل وزیٹر سینٹر کے ایمنسیپیشن ہال میں گورنرز اور سیاسی حامیوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے جو بائیڈن، محکمہ انصاف اور دیگر حریفوں پر تنقید کی۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اور پہلے کی طرح اب بھی وہ خبروں کا محور بننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تیل معاشی مسائل کا ’حل‘امریکی صدر شرطیہ کہہ رہے ہیں کہ تیل معیشت کو سنبھالا دے سکتا ہے اور ’سب کچھ ٹھیک کر سکتا ہے۔‘ وہ تیل کو ’مائع سونا‘ کہتے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ امریکہ کی طرف سے تیل کی زیادہ پیداوار، اوپیک قیمتوں میں کمی لائے گی۔ اس سے مجموعی افراطِ زر کم ہوگا اور تیل سے حاصل ہونے والی آمدن میں بھی کمی آئے گی جسے روس یوکرین میں اپنی جنگ میں استعمال کر رہا ہے۔

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے باوجود فوسل فیول کی پیداوار بڑھانے میں ہی ’مستقبل ہے۔

انہوں نے جمعرات کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’امریکہ کے پاس کسی بھی ملک کے مقابلے میں تیل اور گیس کی سب سے زیادہ مقدار ہے اور ہم اسے استعمال کرنے جا رہے ہیں۔ یہ اقدام ناصرف عملی طور پر تمام اشیاء کی لاگت گھٹائے گی بلکہ امریکہ کو ایک مینوفیکچرنگ سپرپاور، مصنوعی ذہانت اور کرپٹو کا عالمی دارالحکومت بنا دے گا۔‘

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امیر ترین ٹیک شخصیات کی آپس کی چپقلش میں پھنس چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی، روئٹرز)

ارب پتی شخصیات بہترین دوست یا حریف؟پیر کو جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اُٹھایا تو دنیا کی امیر ترین شخصیات ان کے پیچھے ڈائس پر موجود تھے۔

ٹیسلا کے ایلون مسک، ایمیزون کے جیف بیزوس، میٹا کے مارک زکربرگ اور ایل وی ایم ایچ کے برنارڈ ارنولٹ سب وہاں موجود تھے۔

سافٹ بینک کے ارب پتی ماسایوشی سان بھی حاضرین میں شامل تھے۔ ہفتے کے آخر میں انہوں نے اوپن اے آئی کمپنی کے سیم آلٹمین اور اوریکل کمپنی کے ہمراہ مصنوعی ذہانت میں 500 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔

ایلون مسک نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’سافٹ بینک کے پاس رقم نہیں ہے۔‘ جس پر سیم آلٹمین نے جواب دیا کہ فنڈنگ موجود ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امیر ترین ٹیک شخصیات کی آپس کی چپقلش میں پھنس چکے ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو کہا کہ ’معاہدے میں شامل بہت سے افراد بہت ہوشیار ہیں۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.