امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایکمسافر بردار جہاز اور فوجی ہیلی کاپٹر کے تصادم میں کم از کم 30 افراد کی ہلاکت کے بعد لوگوں کی جانب سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ حادثہ پیش کیسے آیا اور کیا اس سے بچا جا سکتا تھا۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایکمسافر بردار جہاز اور فوجی ہیلی کاپٹر کے تصادم میں کم از کم 28 افراد کی ہلاکت کے بعد لوگوں کی جانب سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ حادثہ پیش کیسے آیا اور کیا اس سے بچا جا سکتا تھا۔
ایسے سوالات اُٹھانے والوں میں خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں جنھوں نے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک بُری صورتحال ہے اور ایسا لگتا ہے اس سے بچا جا سکتا تھا۔‘
خیال رہے اس مسافر بردار طیارے میں عملے سمیت 64 افراد سوار تھے اور یہ طیارہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کے ساتھ تصادم کے بعد دریائے پوٹومیک میں جا گرا تھا۔
ریسکیو حکام نے تصدیق کی ہے کہ فضائی تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 28 افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں اور ریسکیو کا عمل تاحال جاری ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں کسی کے زندہ بچنے کے امکانات نہیں ہیں۔
فضائی تصادم سے قبل کیا ہوا تھا؟
تقریباً 12 ہزار ہوائی اڈوں پر ایئر ٹریفک کمیونیکیشن کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹ ’لائیو اے ٹی سی‘ نے ایک ایئر ٹریفک کنٹرولر اور بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کے درمیان گفتگو کی ایک کلپ جاری کی ہے۔
اس آڈیو کلپ میں ایئر ٹریفک کنٹرولر کو ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے کہتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے کہ کیا امریکن ایئر لاِئنز کا مسافر طیارہ انھیں ’نظر آ رہا ہے۔‘
سی این این پر نشر کی گئی اس آڈیو کلپ میں سُنا جا سکتا ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرولر نے ہیلی کاپٹر کو ایک اوور وارننگ جاری کی اور پھر چند ہی سیکنڈز بعد فضا میں تصادم ہو گیا۔
فضائی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ایسا واقعہ ہونا ایک غیرمعمولی بات ہے کیونکہ ملک کے فضائی نظام کو دنیا کا سب سے محفوظ سسٹم کہا جا سکتا ہے۔
ایوی ایشن کنسلٹنٹ جیوفری تھامس نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کے پاس دنیا کا محفوظ ترین ایئر لائن سسٹم ہے اور ’امریکہ میں ایسی چیزیں اب نہیں ہوتیں۔‘
تھامس کہتے ہیں فضا میں تصادم کو اب ماضی کا قصہ ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ نیو ٹیکنالوجی نے طیاروں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ الیکٹرانک سگنلز کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنی موجودگی کا احساس دلا دیتے ہیں اور پائلٹس کو بھی کسی بھی تصادم سے بچنے کے لیے وارننگ جاری کر دیتے ہیں۔
اس سسٹم کو ٹریفک کولیژن اوائیڈنس سسٹم (ٹی سی اے سی) کہتے ہیں اور تھامس کے مطابق اس سسٹم کے تحت گذشتہ دہائیوں میں لاکھوں انسانی جانیں بچائی گئی ہیں۔
ماہرِ فضائی امور کہتے ہیں کہ اب تمام ہی کمرشل اور زیادہ تر فوجی جہازوں میں یہ ٹیکنالوجی نصب ہوتی ہے۔
’تکینکی اعتبار سے یہ فضائی تصادم ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘
دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ دو طیاروں یا جہازوں کا انتہائی قریب فضا میں ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔
برطانوی رائل ایئر فورس کے سابق پائلٹ جارج بیکن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں بطور فوجی پائلٹ امریکہ میں اُڑان بھر چکا ہوں اور مجھے واشنگٹن ڈی سی کے اطراف کے ہوائی راستوں سے بھی آگاہ ہوں۔ وہ یہ بہت تنگ راستے ہیں لیکن یہاں سویلین اور عسکری ایئر ٹریفک کو ایک ہی ریڈیو فریکوئنسی پر رکھا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سویلین جہازوں کو ایک متعین کردہ فلائٹ پاتھ پر سفر کرنا پڑتا ہے لیکن فوجی طیاروں کے پائلٹس کے پاس یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ ضرورت کے وقت اپنی سمت تبدیل کر سکیں۔
’فوجی ہیلی کاپٹرز کا کمرشل جہازوں کے اتنا قریب ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ تفتیش کار اب یہ معلوم کریں گے کہ آخر ہوا کیا تھا اور اس سے کیا اسباق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘
ٹریفک کولیژن اوائیڈنس سسٹم کیا ہے؟
امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کے مطابق ٹریفک کولیژن اوائیڈنس سسٹم کو فضا میں ہوائی جہازوں کے آپس میں ٹکرانے کے خطرات کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور یہ زمین پر تعینات ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم سے ہٹ کر آزادانہ طور پر کرتا ہے۔
ایف اے اے کے مطابق یہ سسٹم جہاز میں پائلٹس کو کسی بھی خطرے کا الرٹ جاری کرتا ہے اور آس پاس موجود فضائی ٹریفک بھی دکھا رہا ہوتا ہے۔
برسٹل گراؤنڈ سکول کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق ٹریفک کولیژن اوائیڈنس سسٹم اپنے قریب موجود دیگر طیاروں کو برقی ریکویسٹ بھیجتا ہے اور یہ طیارے پلٹ کر اس کا جواب دیتے ہیں اور اسی طرح کسی بھی جہاز میں نصب اس نظام کو دیگر طیاروں کی آس پاس موجودگی کے بارے میں پتا چلتا ہے۔
اگر ٹریفک کولیژن اوائیڈنس سسٹم کو یہ خطرہ لاحق ہو کہ آگے تو طیارے آپس میں ٹکرا سکتے ہیں تو وہ فوراً پائلٹس کو ان خطرات سے آگاہ کرتا ہے۔
حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
ہیلی کاپٹر سے ٹکرانے والا مسافر طیارہ بمارڈیئر سی آر جے700 جیٹ تھا جسے امریکن ایئرلائنز سے منسلک کمپنی پی ایس اے ایئر لائنز چلاتی ہے۔
بمبارڈیئر کا پُرانا نام کینیڈیئر تھا اور کینیڈا کی یہ کمپنی بزنس ایئرکرافٹس بناتی ہے۔
دوسری جانب مسافر طیارے سے ٹکرانے والا ہیلی کاپٹر سکورسکی ایچ 60 بلیک ہاک تھا۔
امریکن ایئر لائنز کی ویب سائٹ کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے میں 65 لوگوں کی گنجائش تھی۔
دوسری جانب امریکی فوج کے زیرِ استعمال ایچ 60 بلیک ہاک ہیلی کاپٹر سکورسکی ایئرکرافٹ کمپنی نے بنایا تھا جو کہ دفاعی ساز و سامان بنانے والی کمپنی لوک ہیڈ مارٹن کا حصہ ہے۔
لوک ہیڈ مارٹن کے مطابق سکورسکی کمپنی اب تک 36 ممالک کے لیے پانچ ہزار سے زیادہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز بنا چکی ہے۔
فضائی تصادم کے بڑے واقعات
امریکہ کو فضائی حادثات کے حوالے سے ایک محفوط ملک سمجھا جاتا ہے اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں پیش آنے والا واقعہ 2009 کے بعد کسی بھی امریکی کمرشل ایئر لائن کو پیش آنے والا پہلا بڑا واقعہ ہے۔
اس سے قبل کسی امریکی کمرشل ایئر لائن کو آخری بڑا حادثہ فروری 2009 میں اس وقت پیش آیا تھا جب نیو جرسی کے شہر نیو آرک سے پرواز کرنے والا کولگن ایئر کا طیارہ نیو یارک کے بفیلو ایئرپورٹ پر اترتے وقت ایک گھر سے ٹکرا گیا تھا۔۔
اسی طرح امریکن ایئرلائنز کے کسی بھی مسافر طیارے کو آخری مرتبہ کوئی حادثہ نومبر 2001 میں پیش آیا تھا جب اس کا ایک جہاز جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ کے قریب کریش ہو گیا تھا۔
اس حادثے میں 257 افراد مارے گئے تھے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں ایسے متعدد واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
نومبر سنہ 1996 میں انڈیا کے شہر چرخی ددری میں سعودی ایئرلائنز کا طیارہ قزاقستان کے ایک مسافر طیارے سے ٹکرا گیا تھا جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 349 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دسمبر 1992 میں لبیا کے دارالحکومت طرابلس میں ایک لیبین عرب مسافر طیارہ ایک مِگ 23 لڑاکا طیارے سے ٹکرا گیا تھا۔ اس فضائی حادثے میں 157 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسی طرح سنہ 1993 کے فروری میں ایران ایئر ٹورز کی فلائٹ 962 ایرانی ایئر فورس کے سخوئی طیارے سے ٹکرا گئی تھی۔ اس حادثے میں 133 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ستمبر 2006 میں برازیل میں ایک مسافر طیارے ایک بزنس جیٹ سے ٹکرا گیا تھا۔ اس حادثے کے تنیجے میں 15 مسافر ہلاک ہوئے تھے۔