ندیم لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں دن کا زیادہ تر حصہ گزارتے ہیں۔ شاید ہی ہم میں سے کسی نے باہر کوڑا پھینکنے سے پہلے یہ سوچا ہو کہ شیشے کے ٹکڑے، کاغذ یا بوتلوں کو الگ الگ کر کے پھینکا جائے تاکہ اس کو اٹھا کر کے لے جانے والوں کو کچرا کنڈیوں تک اسے پہنچانے میں آسانی ہو اور ری سائیکلنگ کرنے میں بھی مدد ملے۔
ہاتھ میں بانس کا جھاڑو، سر پر لال ٹوپی اور جنوری کی سخت سردی میں ندیم صبح، صبح لاہور کی گلیوں میں اپنے کام پر نکل جاتے ہیں۔
گلی میں واقع ایک، ایک گھر کی گھنٹی بجا کر کوڑے کی ٹوکری لے کر ندیم یہ کچرا اپنے رکشے میں جمع کرتے ہیں اور پھر ہر ٹوکری سے نکلنے والے کوڑے میں سے بوتلیں، کاغذ اور لوہا الگ کرتے ہیں۔
ندیم لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں دن کا زیادہ تر حصہ گزارتے ہیں۔
شاید ہی ہم میں سے کسی نے کوڑا پھینکنے سے پہلے یہ سوچا ہو کہ شیشے کے ٹکڑے، کاغذ یا بوتلوں کو الگ الگ کر کے پھینکا جائے تاکہ اس کو اٹھا کر لے جانے والوں کو آسانی ہو اور ری سائیکلنگ کرنے میں بھی مدد ملے۔
شاید یہ بات آپ کے لیے حیران کن ہو کہ آپ کے گھر سے نکلنے والا کچرا جس میں پلاسٹک بڑی مقدار میں ہوتا ہے کو ری سائیکل کر کے بوتلیں، فرنیچر اور پولیسٹر فائبر تیار کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر پلاسٹک کی پرانی بوتلوں سے ڈیکوریشن پیس یا پھول اگانے کے لیے انھیں گملوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے کاغذ کو ری سائیکل کر کے گتا جبکہ پلاسٹک کو ری سائیکل کر کے مختلف اشیا تیار کی جا رہی ہیں۔
ری سائیکلنگ کے دوران پلاسٹک کی ان بوتلوں کو کرش کر کے واش کیا جاتا ہے، جس کے بعد اس پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔
مگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں ری سئیکلنگ بڑے پیمانے پر نہیں کی جا رہی اور جو اس وقت کی جا رہی ہے اُس میں یہ خاکروب بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان کے مسائل ایسے ہیں کہ انھیں اگر اس انتہائی کٹھن کام کے دوران کچھ نہ بھی ہو تو معاشرتی رویے انھیں جینے نہیں دیتے۔
یہ کہانی لاہور کو صاف رکھنے اور کچرے کی ری سائیکلنگ میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے خاکروبوں کی ہے، جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
’گند میں ہاتھ مارتے وقت کئی بار میرا ہاتھ کٹا‘
محمد ندیم کو یہ کام کرتے ہوئے دس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اتنے سال میں مجھے بے انتہا تکلیفوں سے گزرنا پڑا۔ کوڑے کو الگ الگ کرنے کے لیے ہم گند میں ہاتھ مارتے ہیں جس کی وجہ سے کئی بار میرا ہاتھ بھی کٹا۔‘
جس کوڑے کو پھینکنے کے بعد ہم ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کرتے یہ خاکروب اُسی کوڑے میں ہاتھ مار کر بوتل، کاغذ، لوہا وغیرہ الگ کرتے ہیں تاکہ اس کو کباڑ میں بیچ کر چند پیسے کما سکیں۔
پورا دن محنت کرنے کے بعد یہ خاکروب کباڑ میں کوڑ ا بیچ کر حاصل کی گئی اشیا کو 300 سے 400 روپے کے عوض بیچ دیتے ہیں جو ماہانہ 12 ہزار بنتے ہیں جو اس مہنگائی کے دور میں انتہائی کم ہیں۔
یہ سب کرنے میں اُن کو کئی جراثیم بھی لگ جاتے ہیں، جس سے نا صرف وہ بلکہ اُن کے گھر کے افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ندیم نے بتایا کہ ’ایک بار مجھے کوڑے سے ایسے جرایثم لگے کہ میں بہت بیمار ہو گیا اور کچھ دن بستر پر رہا اور اس کے بعد مجھ سے وہ جراثیم میرے بچوں کو بھی منتقل ہوئے جس کی وجہ سے اُن کی ادویات اور علاج پر مجھے لوگوں سے اُدھار لے کر گزارہ کرنا پڑا۔‘
محمد ندیم کی طرح کیف علی بھی گذشتہ دس سال سے لاہور میں کوڑا اُٹھانے کا کام کر رہے ہیں۔
کیف کا کہنا ہے کہ کوڑے میں ہاتھ مارنے کی وجہ سے اُن کے ہاتھ کی کوئی انگلی ایسی نہیں جو زخمی نہ ہوئی ہو۔
’ہمیں پتا ہے کہ کام گندا ہے مگر ہم کیا کریں پیٹ کی خاطر ہمیں یہ کرنا پڑتا ہے۔‘
’لوگ ہمیں انسان نہیں سمجھتے‘
کیف نے بتایا کہ لوگ گھروں میں جب کوڑا جمع کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اگر اُس کو الگ الگ کر کے رکھیں تو اُن کا کام آسان ہو سکتا ہے۔
لوگوں کے منفی راویے سے متعلق بھی کیف اور ندیم نے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اُنھیں ’انسان نہیں سمجھتے۔‘
کیف نے اپنے ساتھ پیش آنے والے رویے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے ایک بار کسی سے کھانے کے لیے مانگا تو اُنھوں نے مجھے کہا کہ کوڑا لے کر چلے جاؤ اور گھر کا دروازہ بند کر دیا۔‘
ندیم کہتے ہیں کہ ’ہم وہ کام کرتے ہیں جو یہ بڑے گھروں میں رہنے والے افراد خود کرنا پسند نہیں کرتے، کبھی ان سے اگر چند پیسے مزید مانگ لیں تو وہ ہمیں ہمارا سٹیٹس یاد کرواتے ہیں۔‘
کیف کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اُن کی جو ذمہ داری ہے وہ ہم لوگ ادا کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ری سائیکلنگ میں بھی حکومت کی کسی نہ کسی طرح مدد کر رہے ہیں۔‘
اُن خاکروبوں کو بغیر دستانوں اور ماسک کے کام کرتے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نجی حیثیت میں کام کرنے والے ان خاکروبوں کے پاس حفاظتی سازوسامان نہ ہونے کے برابر ہے۔
ندیم نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے انھیں کوئی چیز فراہم نہیں کی جاتی۔ ’ہم جو جھاڑو سڑکوں کو صاف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ بھی ہم اپنے پیسوں سے خرید کر استعمال کرتے ہیں۔‘
بی بی سی نے اسی بارے میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں آپریشنز مینیجر چوہدری اسلم سے بات کی۔
انھوں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اُن لوگوں کو حفاظتی اشیا فراہم کی جاتی ہیں اور مستقبل میں بھی فراہم کی جائیں گی۔
انھوں نے بتایا کہ اُن کے ادارے نے پرائیویٹ طو پر کام کرنے والے ان خاکروبوں کے لیے جگہ جگہ کوڑے کے ڈرم رکھے ہیں تاکہ وہ کوڑے کو منظم طریقے سے اکھٹا کر سکیں۔
اُن کی صحت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان کو اپنے سسٹم میں شامل کرنے کا پلان کر رہے ہیں، جس کے بعد اُن کو باقاعدگی سے تمام حفاظتی سازوسامان فراہم کیا جائے گا۔‘
چوہدری اسلم کا کہنا ہے کہ مقامی حکومت نے ان کے لیے پرائیوٹ کنٹریکٹر رکھے جو اُن کو آگاہی فراہم کریں گے تاکہ جو سہولیات ان کو دی جائیں گی وہ اس کا مناسب استعمال کر سکیں۔