نئی تجارتی جنگ کا خدشہ: ٹرمپ کی جانب سے درآمدات پر عائد ٹیکس امریکہ کی معیشت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟

امریکہ کی طرف سے کینیڈا، میکسیکو اور چین کی مصنوعات پر نئے محصولات عائد کیے جانے کے بعد عالمی سطح پر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا اس اقدام سے خود امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔ ٹیرف یا درآمدات پر ٹیکس کیا ہے اور ماضی میں امریکہ کی جانب سے اس نوعیت کا ٹیکس عائد کرنے کے کیا نتائج نکلے تھے؟
ٹرمپ
Reuters

امریکہ کی طرف سے کینیڈا، میکسیکو اور چین کی مصنوعات پر نئے محصولات عائد کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا اس اقدام سے خود امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔

بیرون ممالک سے امریکہ میں درآمد ہونے والی اشیا پر ٹیکس کا نفاذ ٹرمپ کے معاشی وژن کا ایک مرکزی حصہ ہے۔ صدر ٹرمپ ٹیکس کے اس نفاذ کو امریکی معیشت کو فروغ دینے، امریکی شہریوں کی ملازمتوں کے تحفظ اور ٹیکس کے ذریعے امریکہ کی آمدن بڑھانے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے امریکی شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس ٹیکس کی قیمت آپ کو نہیں بلکہ دوسرے ملک کو ادا کرنی ہو گی۔‘

تاہم عالمی سطح پر لگ بھگ تمام معاشی ماہرین نے اسے (ٹیکس کے ذریعے معیشت کو فروغ دینے جیسے دعوؤں کو) گمراہ کن قرار دیا تھا۔

امریکہ نے کن ممالک پر ٹیرف لگائے اور ان کا ردعمل کیا ہے؟

ٹرمپ انتظامیہ نے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف (ٹیکس) عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں کینیڈا نے بھی اسی شرح سے امریکی اشیا پر ٹیکس عائد کر دیا ہے۔

کینیڈا کی جانب سے جوابی کارروائی کے طور پر 106 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی امریکی مصنوعات پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کے اس فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر کینیڈا نے جوابی کارروائی کی تو وہ کینیڈا کی مصنوعات پر عائد ٹیرف میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں کینیڈا کے لوگ بہت پسند ہیں لیکن کینیڈا کی لیڈرشپ سے ان کے اختلافات ہیں۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کی میکسیکو سے ’مثبت بات چیت‘ ہوئی ہے۔

تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ اگر میکسیکو سے امریکہ میں منشیات اور تارکینِ وطن کی آمد بند نہ ہوئی تو ٹیرف میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیکس عائد کرنے پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک طرح کی جوابی کارروائی ہے۔ میکسیکو اور کینیڈا کے ذریعے لاکھوں لوگ ہمارے ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ اور ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘

میکسیکو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ میکسیکو کی حکومت منشیات کے سمگلروں کو ’محفوظ پناہ گاہیں‘ فراہم کرتی ہے۔

ادھر چین نے امریکہ کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں مقدمہ دائر کرنے اور جوابی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ٹیرف کے خلاف ہے اور چین اب اپنے جائز دفاع کے حق اور مفادات کے تحفظ کے لیے اس اقدام کا جواب دے گا۔

چین کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’تجاتی اور ٹیرف کی جنگ میں کسی کی فتح نہیں ہوتی۔‘

ٹیرف یا درآمدات پر ٹیکس کیا ہے؟

ٹیرف ایک اندورن ملک عائد کیے جانے والاٹیکس ہے جو بیرون ممالک سے امریکہ پہنچنے والے سامان تجارت پر عائد کیا جاتا ہے۔ اور اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔

لہذا 50 ہزار ڈالر کی قیمت والی ایک گاڑی کو امریکہ درآمد کرتے ہی اس پر 25 فیصد ٹیرف کے حساب سے چارج ہو گا، یعنی ایسی گاڑی کو 12،500 ڈالر چارج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ رقمملک میں موجود اُس کمپنی کو ادا کرنا ہوتا ہے جو یہ سامان بیرون ممالک سے درآمد کرتی ہے نہ کہ وہ غیر ملکی کمپنی جو اس سامان کو برآمد یا ایکسپورٹ کرتی ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے، یہ ایک ڈائریکٹ ٹیکس ہے جو مقامی امریکی کمپنیوں کی جانب سے امریکی حکومت کو ادا کیا جاتا ہے۔

سنہ 2023 کے دوران امریکہ نے دنیا بھر سے لگ بھگ 3.1 کھرب ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں جو امریکی جی ڈی پی کے تقریباً 11 فیصد کے مساوی ہے۔ اور ان درآمدات پر عائد محصولات کی مد میں امریکی حکومت نے اس دورانیے میں 80 ارب ڈالر کمائے، جو کل امریکی ٹیکس محصولات کا تقریبا دو فیصد ہے۔

امریکہ
Getty Images

تو یہ سوال اہم ہے کہ اس نوعیت کے ٹیکس یا ٹیرف کا حتمی ’معاشی‘ بوجھ کہاں پڑتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔

اگر بیرون ممالک سے سامان درآمد کرنے والی کمپنیاں ٹیکس کی صورت میں عائد ہونے والی نئی قیمت کا اطلاق اُن صارفین پر کرتی ہیں جو یہ مصنوعات خریدتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سب کا بوجھ امریکی صارفین کو ہی سہنا پڑے گا۔

اور اگر امریکی درآمدی کمپنیاں یہ نیا اضافی ٹیکس خود برداشت کرتی ہیں تو اس کا نتیجہ کمپنیوں کو کم منافع کی صورت میں نکلے گا۔

ایک تیسری صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ غیرملکی برآمد گنندگان اپنے امریکی گاہکوں کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی اشیا کی قیمتیں کم کرتے ہیں تو اس صورتحال میں برآمدات کرنے والی فرم کو کم منافع کی شکل میں اس ٹیکس کا معاشی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔

یہ تینوں منظر نامے ممکن ہیں۔ٹرمپ کے سابقہ دور حکومت میں سنہ 2017 سے سنہ 2020 کے درمیان برآمدی اشیا پر عائد کیے گئے اضافی ٹیکس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں زیادہ تر معاشی بوجھ بالآخر امریکی صارفین یعنی عام امریکی شہری کو ہی برداشت کرنا پڑا۔

ستمبر 2024 میں شکاگو یونیورسٹی کے ایک سروے میں ماہرین اقتصادیات کے ایک گروپ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ اس بیان سے متفق ہیں کہ ’محصولات یا اضافی ٹیکس عائد کرنے کے نتیجے میں پڑنے والے معاشی بوجھ کا ایک بڑا حصہ امریکہ کے عام صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے، جو قیمتوں میں اضافے کی شکل میں یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔‘

98 فیصد ماہرین اقتصادیات اس خیال سے متفق تھے جبکہ صرف دو فیصد نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

کن مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے؟

تصویر
Getty Images

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے امپورٹ ٹیرف عائد ہونے اور جوابی اقدامات کے بعد گاڑیوں، لکڑی، سٹیل، خوراک، شراب اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔

آئیے ایک واضح مثال کے ذریعے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ٹرمپ نے اپنے سابقہ دور حکومت کے دوران سنہ 2018 میں واشنگ مشینوں کی امریکہ میں درآمد پر 50 فیصد ٹیرف یا ٹیکس عائد کیا تھا۔

محققین کا اندازہ ہے کہ اس اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ میں واشنگ مشینوں کی قیمت میں براہ راست تقریباً 12 فیصد اضافہ ہوا اور امریکی صارفین نے واشنگ مشینوں کی خریداری پر مجموعی طور پر سالانہ تقریبا 1.5 ارب ڈالر اضافی ادا کیے۔

اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ مستقبل کی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے درآمدات پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے کے نتائج واشنگ مشینوں والی مثال سے کچھ مختلف ہوں۔

پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کا اندازہ ہے کہ ٹرمپ کی نئی مجوزہ محصولات سے امریکیوں کی آمدن میں کمی آئے گی۔ اس کا اندازہ ہے کہ امریکہ میں اوسط آمدن کمانے والے گھرانوں کو سالانہ 1700 ڈالر کا نقصان ہوگا۔

تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پروگریس نے ایک مختلف طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ایک متوسط آمدنی والے خاندان کو 2500 سے 3900 ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے۔

محققین نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے محصولات کے ایک اور بڑے دور سے ملک میں افراط زر میں ایک اور اضافے کا خطرہ ہے۔

ٹرمپ کا ’نئی نوکریاں‘ پیدا کرنے کا جواز درست ہے؟

اس کے باوجود ٹرمپ نے محصولات عائد کرنے کے اپنے اقدام کے لیے ایک اور معاشی جواز کا استعمال کیا ہے اور وہ یہ کہ وہ امریکہ میں نوکریوں کا تحفظکریں گے اور مزید نوکریوں کے مواقع پیدا کریں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’میرے منصوبے کے تحت امریکی ورکرز کو اب بیرون ی ممالک میں اپنی ملازمتیں کھونے کی فکر نہیں رہے گی بلکہ غیر ملکی ورکرز کو امریکہ میں اپنی ملازمتیں کھونے کی فکر ہو گی۔‘

امریکہ میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ ملک میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کی نوکریاں ختم ہو رہی ہیں اور اس کا فائدہ سستے لیبر والے ممالک کو ہو رہا ہے، خاص کر امریکہ اور میکسیکو کے درمیان 1994 کے فری ٹریڈ معاہدے (نافٹا) اور 2001 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں انٹری کے بعد سے۔ یہ ٹرمپ کی نئی محصولات کا سیاسی پس منظر بھی ہے۔

جنوری 1994 میں جب نافٹا نافذ ہوا تو امریکہ میں مینوفیکچرنگ کی ملازمتوں کی تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ تھی۔ 2016 تک یہ تعداد گھٹ کر ایک کروڑ 20 لاکھ رہ گئی۔

تاہم ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس کمی کو تجارت سے منسوب کرنا گمراہ کن ہے۔ ان کی رائے ہے کہ اس کمی میں آٹومیشن نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔

امریکہ
Getty Images

محققین، جنھوں نے ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران محصولات کے اثرات کا مطالعہ کیا، کے مطابق اِن محصولات سے امریکی صنعت کے اِن شعبوں میں نئی نوکریاں پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس مثبت اثرات نہیں پڑے تھے جنھیں تحفظ حاصل ہوا تھا۔

ٹرمپ نے امریکی پروڈیوسروں کے تحفظ کے لیے سنہ 2018 میں درآمد شدہ سٹیل پر 25 فیصد محصولات عائد کیے تھے۔ سنہ 2020 تک امریکی سٹیل سیکٹر میں کل روزگار 80 ہزار تھا جو سنہ 2018 کے 84 ہزار کے مقابلے میں اب بھی کم ہے۔

نظریاتی طور پر یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ کی سٹیل ٹیرف کے بغیر روزگار میں مزید کمی واقع ہو سکتی تھی لیکن امریکی سٹیل پر ان کے اثرات کے تفصیلی معاشی مطالعے نے ابھی بھی روزگار کےحوالے سے مثبت اثرات ظاہر نہیں کیے ہیں۔

ماہرین اقتصادیات کو اس بات کے ثبوت بھی ملے ہیں کہ چونکہ محصولات عائد ہونے کے بعد سٹیل کی مقامی قیمت میں اضافہ ہوا تھا، اس لیے کچھ دیگر امریکی مینوفیکچرنگ سیکٹرز میں روزگار، جو زرعی مشینری بنانے والی کمپنی ڈیئر اینڈ کمپنی سمیت سٹیل پر انحصار کرتے تھے، اس سے کم تھے۔

کیا اس اقدام سے تجارتی خسارہ بڑھے گا؟

ٹرمپ نے امریکہ کے تجارتی خسارے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ ملک کی درآمد کردہ تمام چیزوں کی قیمت اور ایک سال میں اس کی برآمدات کی قیمت کے درمیان فرق ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’تجارتی خسارے نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔‘

سنہ 2016 میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل اشیا اور سروسزکا خسارہ 480 ارب ڈالر تھا جو امریکی جی ڈی پی کا تقریبا 2.5 فیصد ہے۔ 2020 تک یہ بڑھ کر 653 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو جی ڈی پی کا تقریباً تین فیصد ہے۔

ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس کی ایک وضاحت یہ ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ محصولات نے امریکی ڈالر کی عالمی قدر میں اضافہ کیا (یعنی عالمی تجارت میں غیر ملکی کرنسیوں کی طلب کو خود بخود کم کر کے) اور اس سے امریکی ایکسپورٹرز کی مصنوعات عالمی سطح پر کم مسابقتی بن گئیں۔

تجارتی خسارے کو ختم کرنے میں اس ناکامی کے پیچھے ایک اور عنصر یہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ عالمی معیشت میں ٹیرف کو کبھی کبھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹرمپ انتظامیہ نے سنہ 2018 میں چین سے درآمد شدہ سولر پینلز پر 30 فیصد محصولات عائد کیے تھے۔

امریکی محکمہ تجارت نے سنہ 2023 میں اس بات کے ثبوت پیش کیے تھے کہ چینی سولر پینل مینوفیکچررز نے اپنے اسمبلی آپریشنز کو ملائیشیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویتنام جیسے ممالک میں منتقل کیا تھا اور پھر ان ممالک سے تیار شدہ مصنوعات کو امریکہ بھیجا تھا۔

کچھ ماہرین اقتصادیات امریکی صنعت کو فروغ دینے کے اقدام کے طور پر ٹرمپ کے محصولات کے منصوبوں کی حمایت کرتے ہیں جیسے لابی گروپ ’کولیشن فار اے پراسپرس امریکہ‘ سے منسلک جیف فیری۔ لیکن حمایت کرنے والے اقلیت میں ہیں۔

قدامت پسند تھینک ٹینک ’امریکن کمپس‘ کے ڈائریکٹر اورین کاس کا کہنا ہے کہ محصولات سے امریکی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے کہ وہ امریکہ میں ہی مینوفیکچرنگ کریں۔ اس سے قومی دفاع اور ترسیل میں تحفظ جیسے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

بائیڈن اور ہیرس انتظامیہ نے ٹرمپ کی جانب سے محصولات میں مجوزہ توسیع پر شدید تنقید کی تھی مگر ان کی طرف سے عائد کردہ محصولات کو برقرار رکھا تھا۔

اس نے چین کی الیکٹرک گاڑیوں پر نئے ٹیرف عائد کیے تھے اور اس کی وجہ قومی سلامتی، امریکی صنعتی پالیسی اور بیجنگ کی طرف سے چینی کمپنیوں کے لیے سبسڈی بتائی تھیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.