یو ایس ایڈ: دنیا بھر میں امداد فراہم کرنے والے ادارے کو ٹرمپ بند کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

امریکہ کی سب سے بڑی بین الاقوامی امدادی ایجنسی یو ایس ایڈ کا مستقبل خطرے میں ہے۔ فی الحال اس ادارے کے ملازمین بھی اس کے سسٹمز تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے۔
یو ایس ایڈ
Reuters

امریکہ کی سب سے بڑی بین الاقوامی امدادی ایجنسی یو ایس ایڈ کا مستقبل خطرے میں ہے۔ فی الحال اس ادارے کے ملازمین بھی اس کے سسٹمز تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے۔

ٹرمپ انتظامیہ اسے امریکی وزارتِ خارجہ میں ضم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر سی بی ایس نیوز کے مطابق یو ایس ایڈ امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک برانچ کے طور پر کام کرے گی تاہم انتظامیہ اس کی فنڈنگ اور کام کرنے والے افراد کی تعداد میں واضح کمی لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

سوموار کے روز امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے یو ایس ایڈ کی قیادت پر حکم عدولی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب اس ادارے کے عبوری سربراہ ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مشیروں میں سے ایک ایلون مسک اس ادارے کے بہت بڑے ناقد رہے ہیں۔

تاہم یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے فیصلے کا دنیا بھر میں انسانی امداد پر گہرا اثر پڑے گا۔

یو ایس ایڈ
Getty Images

یو ایس ایڈ کیا ہے اور یہ کرتی کیا ہے؟

یو ایس ایڈ پروگرام کی بنیاد 1960 کی دہائی میں رکھی گئی۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد امریکی حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں چلائے جانے والے انسانی ہمدردی کے پروگراموں کا انتظام چلانا تھا۔

دس ہزار سے زیادہ افراد یو ایس ایڈ کے لیے کام کرتے ہیں جن میں سے دو تہائی امریکہ سے باہر ہیں۔

اس ادارے کے 60 ممالک میں دفاتر موجود ہیں۔ ان کے علاوہ درجنوں دیگر ممالک میں بھی یہ تنظیم کام کرتی ہے۔ تاہم یو ایس ایڈ کا بیشتر کام دیگر تنظیمیں کانکٹریکٹ کی بنیاد پر انجام دیتی ہیں۔ یو ایس ایڈ ان نظیموں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔

یو ایس ایڈ مختلف کام سر انجام دیتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ نہ صرف خوراک کی کمی کے شکار ممالک میں خوراک فراہم کرتی ہے بلکہ قحط سالی کا پتا لگانے کا سسٹم بھی چلاتی ہے تاکہ ان ممکنہ علاقوں کی نشاندہی کی جا سکے جہاں مستقبل میں خوراک کی کمی پیش آ سکتی ہے۔

یو ایس ایڈ کا زیادہ تر بجٹ صحت سے متعلق پروگراموں پر خرچ ہوتا ہے جن میں انسدادِ پولیو مہمات بھی شامل ہیں۔

بی بی سی کی بین الاقوامی خیراتی تنظیم بی بی سی میڈیا ایکشن جو بیرونی گرانٹس اور لوگوں کی مدد سے چلتی ہے۔اس کو بھی یو ایس ایڈ سے فنڈنگ ملتی رہی ہے۔ سال 2024 کی رپورٹ کے مطابق، یو ایس ایڈ اس سال 32 لاکھ ڈالرز کے ساتھ بی بی سی میڈیا ایکشن کا دوسرا سب سے بڑا ڈونر تھا۔

یو ایس ایڈ
Getty Images

یو ایس ایڈ پاکستان میں کیا کرتی ہے؟

مالی سال 2024 کے دوران یو ایس ایڈ کی جانب سے پاکستان میں لوگوں کی مختلف منصوبوں میں ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کی۔

اس امداد کا مقصد، قدرتی آفات سے متاثر افراد کی بحالی اور انھیں مستقبل میں ان آفات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات سے بچنے میں مدد فراہم کرنا اور انھیں مویشیوں کی دیکھ بھال کی ٹریننگ فراہم کرنا شامل ہے۔

اس کے علاوہ یو ایس ایڈ نے اپنے پارٹنر تنظیم سیسوی (CESVI) کے ذریعے خواتین کو نقد گرانٹ اور ٹریننگ کے علاوہ انھیں چھوٹے پیمانے پر کاروبار میں مدد فراہم کی۔

مالی سال 2023 کے دوران یو ایس ایڈ کی جانب سے چار کروڑ 30 لاکھ امریکی ڈالرز سے زائد کی امداد فراہم کی گئی تھی جس میں تین کروڑ 64 لاکھ ڈالرز ایمرجنسی فنڈنگ کے تحت تھی۔

اس کے علاوہ ماضی میں یو ایس ایڈ کی جانب سے صاف پانی کی فراہمی، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، سیلاب اور زلزلے میں تباہ ہو جانے والے سکولوں کی تعمیرِ نو، ڈگری کالجوں کے قیام، خاندانی منصوبہ بندی، پیدائش کے دوران اموات میں کمی اور خواتین کو با اختیار بنانے کے پروگراموں سمیت متعدد منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرتا آیا ہے۔

یو ایس ایڈ پر امریکی حکومت کا کتنا خرچ آتا ہے؟

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں امریکہ نے بین الاقوامی امداد پر 68 ارب ڈالرز خرچ کیے۔

اس میں سے یو ایس ایڈ کا حصہ تقریباً 40 ارب ڈالرز کے قریب تھا جس کا بیشتر حصہ ایشیا، افریقہ کے صحرائے صحارا کے جنوب میں واقع ممالک اور یوکرین میں خرچ ہوا۔

امریکہ بین الاقوامی ترقی پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔

ٹرمپ اور ایلون مسک یو ایس ایڈ

ٹرمپ ایک عرصے سے بین الاقوامی اخراجات کے ناقد رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا جائز استعمال نہیں ہے۔

انھوں نے خاص طور پر یو ایس ایڈ کو سخت تنقید نشانہ بناتے ہوئے ادارے کے سینیئر حکام کو 'بنیاد پرست پاگل' قرار دیا تھا۔

اگر وہ یو ایس ایڈ بند کر دیتے ہیں تو اس سے ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔

ماضی میں کیے جانے والے سرویز میں امریکی عوام نے بین الاقوامی امداد میں کمی حمایت کی ہے۔

شکاگو کونسل برائے گلوبل افیئرز کے مطابق 1970 کی دہائی سے لوگ امداد میں کمی کے حق میں ہیں۔

صدارت کا منصوبہ سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو حکمنامہ جاری کرتے ہوئے ہر طرح کی بین الاقوامی امداد پر 90 روز کے لیے پابندی عائد کر دی۔

اس کے بعد محکمہ خارجہ کی طرف سے ایک میمو جاری کیا گیا جس کے بعد پہلے سے جاری زیادہ تر کاموں کو روک دیا گیا۔ بعد میں انسانی ہمدردی کے پروگراموں کے لیے چھوٹ دے دی گئی تاہم اس اعلان نے بین الاقوامی امدادی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

ٹرمپ، ایلون مسک
EPA

اس حکم نامے کے نتیجے میں دنیا کے غریب ترین افراد کو مہیا کی جانے والی ادویات اور صاف پانی کی سہولیات کے پروگرام سمیت انسانی ہمدردی کے متعدد منصوبے راتوں رات بند ہو گئے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک انسانی ہمدردی کے کارکن نے بتایا کہ امداد کی فراہمی کو منجمد کرنا ایسا تھا جیسے ’پوری دنیا کے امداد کے شعبے میں زلزلہ آ گیا ہو۔‘

وائٹ ہاؤس اور یو ایس ایڈ کے مابین گذشتہ ہفتے اس وقت تنازع شدت اختیار کر گیا تھا جب ایلون مسک کے لیے کام کرنے والوں کو یو ایس ایڈ ہیڈ کواٹر کے مالیاتی ڈیٹا تک رسائی نہیں دی گئی۔ ایلون مسک کو ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی بجٹ میں کٹوتیوں کی نشاندہی کی ذمہ داری سونپی ہوئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس واقعے کے بعد دو سینیئر سکیورٹی اہلکاروں کو رخصت پر بھیج دیا گیا۔

پیر کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بات کرتے ہوئے ایلون مسک کا کہنا تھا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کے ہمراہ یو ایس ایڈ کے پروگرامز کا جائزہ لیا ہے اور امریکی صدر اس بات سے متفق ہیں کہ اس ادارے کو بند کر دینا چاہیے۔

یو ایس ایڈ کی ویب سائٹ آف لائن ہے اور اس کے ملازمین کو گھر پر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

بعد ازاں مارک روبیو نے یو ایس ایڈ کے حکام پر حکم عدولی کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ یو ایس ایڈ کے عبوری سربراہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ادارے کی جانب سے انجام دی جانے والی بہت سی خدمات جاری رہیں گی تاہم اس کے اخراجات کو قومی مفاد کے مطابق ہونا چاہیے۔

کیا ڈونلڈ ٹرمپ یو ایس ایڈ کو بند کر سکتے ہیں؟

یہ تو واضح ہے کہ وائٹ ہاؤس کا یو ایس ایڈ پر کافی اثر و رسوخہے تاہم یہ طاقت لامحدود نہیں۔

یو ایس ایڈ امریکی کانگریس کی جانب سے 1961 میں فارن اسسٹنس ایکٹ منظور کیے جانے کے بعد وجود میں آئی۔

اس قانون کے تحت ایک ایسے ادارے کا قیام ضروری تھا جو بیرون ملک اخراجات پر نظر رکھے۔

قانون بننے کے کچھ ہی عرصے بعد اس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی نے ایک ایگزیکٹیو حکمنامے کے ذریعے یو ایس ایڈ قائم کی۔

سنہ 1998 میں ایک اور قانون منظور ہوا جس کے بعد یہ ایک ایگزیکٹیو ایجنسی بن گئی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے اس ادارے کو تحلیل نہیں کر سکتے اور اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو اسے عدالتوں اور کانگریس میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

یو ایس ایڈ
Reuters

یو ایس ایڈ کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری کی ضرورت پڑے گی۔ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو دونوں ایوانوں میں معمولی برتری حاصل ہے۔

اطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ یو ایس ایڈ کو وزارتِ خارجہ کے ایک برانچ میں تبدیل کرنے کے بارے سوچ رہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی ملک میں ایسا کیا جا رہا ہو۔

سنہ 2020 میں اس وقت کے برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن نے بین الاقوامی امداد کے محکمے کو محکمہ خارجہ میں ضم کر دیا تھا۔

وزرا کا کہنا تھا کہ اس سے برطانیہ کے بین الاقوامی اخراجات کو برطانیہ کے خارجہ پالیسیوں کے تحت لانے میں مدد ملے گی۔

تاہم ناقدین کا کہنا تھا اس سے امدادی شعبے میں مہارت میں کمی آئے گی اور برطانیہ کی بیرون ملک اثر و رسوخ کو نقصان پہنچے گا۔

یو ایس ایڈ کے بند ہونے سے کیا نقصان ہو گا؟

امریکہ کی جانب سے دی جانے والی امدادی رقم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ تو واضح ہے کہ اس میں کسی بھی طرح کے ردوبدل کا اثر پوری دنیا میں محسوس کیا جائے گا۔

یو ایس ایڈ یوکرین میں زخمی ہونے والے سپاہیوں کو مصنوعی ٹانگ مہیا کرنے سے بارودی سرنگوں کی صفائی اور افریقہ میں ایبولا کی روک تھام تک میں مدد فراہم کرتی ہے۔

نوے روز کے لیے ہر طرح کی امداد پر پابندی کے اعلان کے بعد مارک روبیو کا کہنا تھا خرچ ہونے والے ہر ڈالر کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس سے امریکہ محفوظ، مظبوط اور ترقی یافتہ بنانے میں مدد ملے گی۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان ان اقدامات کو غیر قانونی اور امریکی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔

وہ ان خبروں کا حوالہ دیتے ہیں جس میں بتایا گیا تھا کہ امریکی امداد روکے جانے کے اعلان کے بعد شام میں اس جیل کے مسلح محافظ اپنا کام چھوڑ کر چلے گئے جہاں نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجو بند ہیں۔

ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ امریکہ کے بیرونِ ملک اخراجات کو ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی پالیسی کے تحت لانا چاہتے ہیں اور امدادی شعبے کو اس کے مزید منفی اثرات کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

ایلون مسک کی جانب سے وفاقی اخراجات میں اربوں ڈالرز کی کمی لانے کی کوششوں کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنے والے سالوں میں امریکہ بیرون ملک کتنی رقوم خرچ کرے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.