اب بھلا ایسا کہاں ہوتا ہے کہ قومی نمائندگی کا قضیہ درپیش ہو اور قومی ٹیم کا اعلان کردہ سکواڈ فقط گیارہ ہی کھلاڑیوں پہ مشتمل ہو؟
![ٹیمبا باووما](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/7e96/live/acca9ea0-e527-11ef-9c07-6136f1d571ba.jpg)
ایک وقت تھا کہ جب کرکٹ میں یوں پیسے کی ریل پیل نہ تھی، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ بھی ابھی ایجاد نہ ہوئی تھی اور ’سینٹرل کنٹریکٹ‘ جیسی اصطلاحات بھی بیشتر کرکٹرز کے لیے نامانوس تھیں۔ ان تمام توجیہات کے باوجود بھی اگر تب کوئی کھلاڑی کاؤنٹی کرکٹ کو قومی نمائندگی پر ترجیح دیتا تو اسے ترچھی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔
مگر اب نہ صرف کرکٹ میں کھلے پیسے کی گنگا بہہ رہی ہے بلکہ کھیلنے کو دستیاب مواقع بھی اس قدر فراواں ہیں کہ اکثر اوقات ’لیگیں‘ زیادہ پڑ جاتی ہیں اور کھیلنے والے کم پڑ جاتے ہیں۔
اس بدلے ہوئے منظر نامے میں کرکٹ بورڈز کی صورتحال بھی خاصی دلچسپ ہے جو پہلے کبھی قومی نمائندگی چھوڑ کر کاؤنٹی کھیلنے جانے والوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے مگر اب اپنی ہی لیگ کرکٹ کو قومی نمائندگی پر ترجیح دینا بورڈز کے اپنے مالی مفادات کا تقاضا ہے۔
اب بھلا ایسا کہاں ہوتا ہے کہ قومی نمائندگی کا قضیہ درپیش ہو اور قومی ٹیم کا اعلان کردہ سکواڈ فقط گیارہ ہی کھلاڑیوں پہ مشتمل ہو؟ دو روز پہلے جنوبی افریقہ نے پاکستان و نیوزی لینڈ کے خلاف ٹرائی سیریز کے لیے جس سکواڈ کا اعلان کیا اس میں فقط گیارہ ہی کھلاڑی شامل تھے (جن میں سے چھ کھلاڑی اپنا پہلا ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے کے منتظر ہیں)۔
تاہم اس کے ساتھ ہی جنوبی افریقی کوچ راب والٹر نے شائقین کو دلاسہ بھی دیا کہ 6 فروری کی شام ’ایس اے 20‘ کے ایلیمینیٹر کے بعد، بشرطِ دستیابی، مزید کھلاڑی بھی اس سکواڈ میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ ’ایس اے 20‘ جنوبی افریقی بورڈ کی اپنی ٹی ٹوئنٹی لیگ ہے جو فی الوقت جاری ہے اور اسی کے سبب جنوبی افریقہ کا قومی سکواڈ بھی کم مائیگی سے دوچار ہے۔
جنوبی افریقہ کے فاسٹ بولر جیرالڈ کوٹزی انجری کے باعث سکواڈ سے باہر ہوگئےمگر اس حقیقت کی افسردگی اپنی جگہ لاچار ہے کہ کل سہہ پہر سے شروع ہوتی ٹرائی سیریز میں جنوبی افریقہ کو کگیسو ربادا، ڈیوڈ ملر، ایڈن مارکرم، وین ڈر ڈوسن، مارکو یئنسن، رایان ریکلٹن اور ٹرسٹن سٹبس بالکل دستیاب نہ ہوں گے بلکہ یہ سبھی گھاگ کھلاڑی چیمپیئنز ٹرافی کے آغاز پر ہی اپنی قومی ٹیم کو دستیاب ہوں گے۔
یہ بجائے خود ستم ظریفی ہے کہ جس مقصد کو یہ مختصر ٹرائی سیریز طے کی گئی تھی، وہ چیمپیئنز ٹرافی ہی کی تیاری اور پاکستانی پچز سے ہم آہنگی تھا جبکہ اس تیاری اور ہم آہنگی کو وہ سات کلیدی کھلاڑی دستیاب ہی نہ ہوں گے جو چیمپیئنز ٹرافی میں جنوبی افریقی امیدوں کا بیشتر بوجھ نمٹا رہے ہوں گے۔
اس احوال میں دیکھا جائے تو کہنے کو بھلے یہ ٹرائی سیریز ہی سہی مگر درحقیقت یہ پاکستان و نیوزی لینڈ کے مابین دو طرفہ سیریز سے بڑھ کر نہ رہے گی کہ بالآخر یہی دونوں ٹیمیں اپنی پوری قوت سے میدان میں اتر کر زور آزما رہی ہوں گی۔
اگرچہ نوجوان جنوبی افریقی کرکٹرز صلاحیت میں کسی سے پیچھے نہیں اور اپنے ٹیلنٹ سے حیرتیں برپا کرنے کے بھی قابل ہیں مگر یوں تجربے سے یکسر عاری سکواڈ منتخب کر کے جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ نے اپنے عزائم کی ماندگی کا ثبوت دیا۔
نیوزی لینڈ کی کپتانی مچل سینٹنر کر رہے ہیںجبکہ پی سی بی وقت کے خلاف بہاؤ بہہ کر اپنے سٹیڈیمز کی تعمیرِ نو مکمل کر کے ان کی نقاب کشائی کو بے تاب ہے، اس ٹرائی سیریز کی محدود معنویت بھی مسابقت کی بحث میں کھوئے جا رہی ہے کہ اس میں ہار جیت بالآخر چیمپیئنز ٹرافی کے امکانات میں کچھ خاص وزن نہیں رکھے گی۔
پاکستان نے اپنے سکواڈ میں فہیم اشرف اور خوشدل شاہ کو شامل کر کے ایک ایسا باب کھول دیا ہے کہ جس پر کئی ’صحافی‘، ’مبصر‘ اور ’پنڈت‘ کئی شاموں سے نوحہ کناں ہیں اور 12 فروری کی ’کٹ آف‘ ڈیٹ سے پہلے چیمپیئنز ٹرافی سکواڈ میں اپنے چنیدہ کھلاڑیوں کی واپسی کو مہم جوئی کر رہے ہیں۔
گو پاکستان کا مجموعی سکواڈ اس سیریز اور چیمپیئنز ٹرافی کے تناظر میں متوازن اور مستحکم ہے مگر یہ پہلو بہرحال حیران کن ہے کہ وسائل کی دستیابی کے باوجود پاکستان نے کسی ’لیفٹ آرم لیگ سپنر‘ کو شامل کیوں نہیں کیا۔
جدید ون ڈے کرکٹ میں لیفٹ آرم لیگ سپن کا کردار ناقابلِ تردید ہو چکا ہے۔ سوا سال پہلے انڈیا میں کھیلے گئے ون ڈے ورلڈ کپ کے ہنگام بھی پاکستان کا یہی خلا تشنگی کا سبب رہا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہو گا کہ عاقب جاوید اور علیم ڈار کی سلیکشن کمیٹی نے یہ فیصلہ اپنی ہوم پچز کے اسرار کی معرفت میں کیا یا یہ محض ایک جذباتی ہوا کا جھونکا ہی تھا۔