میچ دیکھنے کے ساتھ ساتھ قذافی سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کا معائنہ کرنے آئے تماشائیوں نے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
لاہور کی غالب مارکیٹ میں حجام عثمان اپنی دکان پر سنیچر کی دوپہر گذشہ رات قذافی سٹیڈیم کی رونمائی کی تقریب کا قصہ سنا رہے تھے۔
'لگ رہا تھا کسی غیر ملک میں ہیں، اپنا ملک نہیں لگ رہا تھا، سیٹوں پر بیٹھ کر یہی خیال آ رہا تھا کہ ہم کسی اچھی جگہ بیٹھے ہیں۔'
عثمان ان سینکڑوں افراد میں شامل تھے جنھوں نے جمعے کی شام قذافی سٹیڈیم میں گزاری اور خوب محظوظ ہوئے۔ 'شاہین، بابر کو ہم بہت قریب سے دیکھے پا رہے تھے۔'
بات ابھی سیاست کی جانب بڑھی ہی کہ ایک دھماکے نے دکان میں سب کو چونکا دیا۔ گلی کے کسی شرارتی بچے نے عثمان کی دکان میں پٹاخہ پھینکا تھا۔ یہ شاید صرف لاہور میں ہی ہو سکتا تھا۔
دکان میں ہی موجود ایک ادھیڑ عمر شخص نے موقع دیکھ کر کہا کہ 'ہم لاہوری تھوڑے شوقین مزاج ہوتے ہیں، کرکٹ کا جنون ہے تو پھر ہے۔'
یہی جنون صرف لاہور ہی نہیں بلکہ سیالکوٹ سے خصوصی طور پر پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ دیکھنے آئے حمزہ حسن اور علی کے بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
یہ تینوں میچ کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی شرٹس پہن کر آئے ہوئے تھے۔ حمزہ نے لبرٹی کے قریب ہی بی بی سی کو بتایا کہ 'میچ سے متعلق زیادہ پُرجوش ہیں لیکن اس مرتبہ یہ تجسس بھی ہے کہ دیکھیں ہماری حکومت نے کیا بنایا ہے۔'

گنجائش بڑھانے اور شائقین کی تفریح بڑھانے کی کوشش
تجسس کی اسی بیماری کے باعث میچ شروع ہونے سے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ قبل قذافی سٹیڈیم کے باہر قطاریں لگنا شروع ہو چکی تھیں۔
لبرٹی چوک پر صبح 10 بجے پھول لگانے کا کام ہو رہا تھا اور آر ڈبلیو ایم سی کے اہلکار سڑکیں صاف کرنے میں مشغول نظر آئے۔
فروری لاہور میں کئی دہائیوں سے ایک تہوار کی آمد کی نوید لاتا تھا، کئی سالوں کے بعد اب شاید بسنت کی غیر موجودگی میں بین الاقوامی کرکٹ ہی شہر کے باسیوں کے لیے جشنِ بہاراں منانے کا واحدذریعہ بچا ہے
میچ دیکھنے کے ساتھ ساتھ قذافی سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کا معائنہ کرنے آئے تماشائیوں نے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
قذافی سٹیڈیم جو پہلے لاہور سٹیڈیم کے نام سے جانا جاتا تھا کو جب 1959 میں بنایا گیا تو یہ ملٹی پرپس گراؤنڈ تھا جہاں گراؤنڈ میں کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے ساتھ گھڑ دوڑ کے لیے ٹریک بھی مختص کیا گیا تھا۔

تاہم وقت کے ساتھ یہ مکمل طور پر ایک کرکٹ سٹیڈیم تو بن گیا لیکن اس کے سٹینڈز میں موجود شائقین ایکشن سے خاصے دور ہی رہے اور میچ دیکھنے میں ان کی مشکلات کے بارے میں پاکستان سپر لیگ کے دوران زور و شور سے بات ہونے لگی۔
ویسے تو قذافی سٹیڈیم میں توڑ پھوڑ گذستہ سال اگست میں ہی شروع ہو گئی تھی مگر (پاکستان کرکٹ بورڈ) پی سی بی کے مطابق سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کا کام 117 دنوں کے ریکارڈ وقت میں مکمل کیا گیا ہے۔
پی سی بی نے لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے سٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کے لیے 12.8 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی تھی اور چیمپیئنز ٹرافی سے قبل یہ کام کرنے کے لیے مزدوروں نے تین شفٹوں میں کام کیا۔
لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پی سی بی کے بقول سٹینڈز کو 20 فٹ قریب لایا گیا ہے اور سٹینڈز کے اینگل میں 22 سے بڑھا کر 29 ڈگری کر دیا گیا ہے جس سے گراؤنڈ کے مختلف انکلوژرز میں بیٹھے افراد کو میچ ایک ہی جیسا دکھائی دیتا ہے۔

اگر آپ راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں میچ دیکھ چکے ہیں تو قذافی سٹیڈیم میں داخل ہوتے ہی پہلی چیز جو آپ کو محسوس وہ اس کی راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے تجربے سے مماثلت ہے۔
پی سی بی کے مطابق سٹیڈیم کی سیٹوں میں 10 ہزار کے لگ بھگ اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اب یہ تعداد 34 ہزار کے قریب جا پہنچی ہے اور سنیچر کی شام جب بابر اعظم اور فخر زمان نیوزی لینڈ کے 321 رنز کے ہدف کے تعاقب کے لیے کریز پر پہنچے تو لگ بھگ تمام ہی سٹینڈز کھچا کھچ بھر چکے تھے۔
’قذافی سٹیڈیم تو بہت اچھا ہوگیا لیکن پاکستانی ٹیم کا کوئی حال نہیں‘
گنجائش میں اضافے اور سٹینڈز کو قریب لانے کے باعث سٹیڈیم کا ماحول ہی مختلف ہو چکا ہے اور یہاں جب تماشائی ’میکسیکن ویوز‘ چلاتے ہیں تو کان پڑی سنائی نہیں دیتی۔
سٹینڈز قریب آنے کے باعث گلین فلپس اور فخر زمان کے چھکے تماشائیوں میں گرے جو یہاں میچ دیکھنے والوں کے لیے ایک بالکل نئی بات ہے۔ گیند جب بھی کسی سٹینڈ میں گرتی تو اسے پکڑنے والا شخص اور اس کے ساتھی اس موقع سے محظوظ ہو کر اطمینان سے اسے واپس گراؤنڈ میں پھینکتے دکھائی دیے۔
یہ لمحات یقیناً آنے والے دنوں میں قذافی سٹیڈیم میں کئی بار دیکھنے کو ملیں گے۔
اس گراؤنڈ کی تعمیرِ نو کے دوران بننے والی ہائپ میں جہاں انڈین مداحوں کی اس میں دلچسپی کا عمل دخل ہے وہیں اُن ان گنت یوٹیوب اور ٹک ٹاک چینلز کا بھی جن پر گراؤنڈ کی اپ ڈیٹس نہ صرف صحافیوں بلکہ مزدوروں کی جانب سے بھی لمحہ بہ لمحہ فراہم کی جا رہی تھیں۔

سٹینڈ میں ہی موجود عدنان بھلی اور ان کی اہلیہ اسوہ سعید ویسے تو کئی مرتبہ یہاں میچ دیکھنے آ چکے ہیں لیکن اس مرتبہ انھیں بھی نئے سٹیڈیم میں پہلا میچ دیکھنے کا تجسس تھا۔
عدنان بتاتے ہیں کہ ’پہلے مختلف سٹینڈز سے دیکھنے کا تجربہ مختلف ہوتا تھا، سکرینز اور بورڈز تماشائیوں اور میچ کے درمیان رکاوٹ تھے۔
’پی سی بی نے اسے تبدیل کرنے میں بہترین کام کیا ہے، اور وہ تعریف کے مستحق ہیں۔ شاید ایک چیز جس کا اضافہ آگے جا کر کیا جا سکتا ہے وہ سٹینڈز کی چھتیں ہیں کیونکہ پاکستان میں آٹھ ماہ گرمی کے ہوتے ہیں۔‘
عدنان کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلے صفائی کے انتظامات خاص نہیں ہوتے تھے، اور پلاسٹک کی سیٹیں پرانی ہو چکی تھی، لیکن اب سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔'
اسوہ، جو خود بھی ایک آرکیٹیکٹ ہیں، بتاتی ہیں کہ پہلے کھلاڑی بہت دور سے نظر آتے تھے لیکن اب انھیں پہچان سکتے ہیں۔
گراؤنڈ میں موجود عبداللہ خان کو گراؤنڈ میں داخل ہوتے ہی پہلے ایسے لگا جیسے گراؤنڈ چھوٹا کر دیا گیا ہے، تاہم کچھ دیر بعد انھیں ان کے دوستوں نے تسلی دی کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اب اس کی کیپیسٹی بڑھ گئی ہے۔
عبداللہ پاکستان سپر لیگ کے علاوہ بھی متعدد میچ قذافی سٹیڈیم میں دیکھ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’گراؤنڈ تک پہنچنے کی صورتحال تو ویسی ہی ہے جیسے پہلے تھی لیکن اب اگر آپ اکانومی کا ٹکٹ بھی خریدیں تو آپ کو ویو فرسٹ کلاس والا ملے گا۔‘
میچ کے دوران تماشائی خاصے مگن دکھائی دیے، ابرار احمد کو اچھا سپیل کروانے پر باؤنڈری کے قریب جانے پر پذیرائی ملی۔ شاہین، بابر اور خاص طور پر فخر زمان کو لوگوں نے خوب سراہا، جبکہ مخالف ٹیم کے گلین فلپس کی سنچری پر انھیں خوب داد ملی۔

اسی طرح جب پاکستان کی اننگز کے دوران نیوزی لینڈ کے کھلاڑی رچن رویندرا کے سر پر گیند لگی اور ان کا خون بہنے لگا تو میدان میں تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا گئی اور لوگ ایک دوسرے کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔
جب رویندرا کو واپس لے جایا گیا تو سٹیڈیم میں موجود شائقین نے انھیں تالیاں بجا کر داد دی۔
پاکستانی بولرز کی ڈیتھ اوورز میں ناقص بولنگ اور فخر زمان کے علاوہ کسی بھی بلے باز کا ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرنے کے باعث نئے تعمیر کیے گئے سٹیڈیم کے جشن منانے کے لیے آنے والے تماشائی افسردہ گھروں کو لوٹے۔
جب میچ ختم ہونے کے بعد ایک تماشائی سے گراؤنڈ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: ’گراؤنڈ تو بہت اچھا (ہو گیا) ہے لیکن اس ٹیم کا کوئی حال نہیں ہے۔‘