آپ کے موبائل فون میں موجود وہ قیمتی دھات جو ایک ملک میں جنگ کا باعث بنی ہوئی ہے

یہ بات شاید اپ کے لیے حیرانی کا باعث ہو لیکن اس بات کے کا قوی امکانات ہیں کہ آپ کے موبائل فون میں ایک ایسی دھات بھی موجود ہو جو جمہوریہ کانگو کی شدید جنگ زدہ زمین سے نکل کر آپ کے فون بنانے کے استعمال میں لائی گئی ہو۔ اور اس دھات کا تعلق شاید براہ راست ایم ٹو تھری (23) نامی باغی گروہ سے بھی رہا ہو جو اس ہفتے عالمی خبروں میں نمایاں رہا ہے۔
تصویر
Getty Images

آپ کو شاید یہ بات عجیب لگے لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون کو بنانے میں ایک ایسی دھات کا استعمال کیا ہو گا جو ایک ملک، جمہوریہ کانگو، میں خانہ جنگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔

اور اس دھات کا تعلق شاید براہ راست ’ایم ٹو تھری‘ (M23) نامی اُس باغی گروہ سے بھی ہو جو رواں ہفتے عالمی خبروں میں نمایاں رہا ہے۔

آپ کے فون میں موجود اس دھات ’ٹینٹالم‘ کی مقدار ایک مٹر کے دانے کے وزن سے بھی کم ہو گی لیکن سمارٹ فونز سمیت تقریباً تمام دیگر جدید الیکٹرانک آلات کے مؤثر کام کے لیے یہ دھات انتہائی ضروری ہے۔

نیلے اور سرمئی رنگ کی اس چمکدار نایاب دھات کی منفرد خصوصیات یہ ہیں کہ یہ اپنے سائز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ چارج رکھنے کی صلاحیت رکھی ہے اور شدید درجہ حرارت پر ڈیوائس کو فعال رکھتی ہے۔ اسی لیے یہ دھات اُن چھوٹے کیپیسٹرز کو بنانے کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے جو موبائل فون سمیت ڈیجیٹل آلات میں عارضی طور پر توانائی محفوظ کرتے ہیں۔

اس قیمتی دھات کی کان کنی روانڈا، برازیل اور نائیجیریا میں بھی کی جاتی ہے لیکن دنیا بھر میں اس دھات کی کم از کم 40 فیصد سے زیادہ مقدار کانگو سے آتی ہے اور اس وقت کانگو کے کچھ علاقے جہاں سے یہ دھات نکالی جاتی ہے باغی گروہ M23 کے قبضے میں ہیں۔

جمہوریہ کانگو میں حالیہ لڑائی کئی مہینوں سے جاری ہے تاہم باغیوں نے اتوار کے روز خطے کے اہم تجارتی اور نقل و حمل کے مرکز ’گومہ‘ پر حملہ کر دیا ہے۔

سرحد سے متصل یہ علاقہ کان کنی کے کاروبار کا اہم علاقائی مرکز ہے۔

مسلح باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے کئی دلخراش مناظر سامنے آئے ہیں جن میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد کی لاشیں سڑکوں پر پڑی دیکھی جا سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’گومہ‘ میں حالیہ ہنگاموں کا آغاز باغی گروہ M23 کی جانب سے ’منزنزے‘ نامی جیل پر حملے اور اس کے نتیجے میں جیل سے ہزاروں قیدیوں کے فرار کے بعد ہوا ہے۔ جیل توڑنے کے بعد قیدیوں نے جیل میں موجود 100 سے زائد خواتین قیدیوں کا نہ صرف ریپ کیا بلکہ بعد میں جیل کو آگ لگا کر انھیں زندہ جلا دیا۔

گذشتہ سال کے دوران اس گروہ نے معدنیات سے مالا مال مشرقی جمہوریہ کانگو میں تیزی سے اپنے قدم جمائے ہیں اور ان علاقوں پر قابض ہو گئے ہیں جہاں کولٹن ( وہ معدنیات جس سے ٹینٹلم نکالا جاتا ہے) کی کان کنی کی جاتی ہے۔

ایم 23 گروہ سنہ 2012 میں وجود میں آیا تھا۔ ایم 23 نے شروعات خطرے کا شکار سمجھے جانے والے نسلی گروہ کے حقوق کے دفاع سے کی۔ تاہم جیسے جیسے وہ اپنا دائرہ کار بڑھاتے گئے، جنگجوؤں کے اخراجات اور ہتھیاروں کی ادائیگی کے لیے کان کنی سے ملنے والی رقم اُن کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بن گئی۔

M23 پر شبہ ہے کہ وہ مائنز کو کنٹرول کرنے سے جمع ہونے والی رقم کو اپنے جنگجؤوں کو ادائیگی کرنے اور اپنے ہتھیاروں کی مالی اعانت کے لیے استعمال کرتا ہے
EPA
ایم 23 نامی گروہ پر الزام ہے کہ وہ معدنیات کی فروخت سے جمع ہونے والی رقم سے اپنے جنگجؤوں کو ادائیگی کرتے ہیں اور ہتھیار خریدتے ہیں

اقوام متحدہ اور راونلا جیسے دیگر انٹرنیشنل اداروں کے مطابق ایم 23 عسکریت پسندوں کی سرپرستی کرتا ہے، انھیں تربیت فراہم کرتا ہے اور جدید ترین ہتھیاروں سے زمین پر موجود اپنے کارکنوں کی مدد بھی کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے امن فوج کے سربراہ جین پیئر لاکروکس کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ گومہ میں رواندا کے فوجی ایم 23 کی حمایت کر رہے ہیں۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ سال اپریل میں ایم 23 نے ملک کی معدنیات کی صنعت (کولٹن انڈسٹری) کے مرکز میں واقع شہر روبایا پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس خطے میں معدنیات کو زمین سے نکالنے کا کام جدید سہولیات سے آرستہ بین الاقوامی کمپنیاں نہیں کر رہیں بلکہ یہاں ہزاروں لوگ غیرمحفوظ حالات میں گہری کانوں میں کام کرتے ہیں۔ زمین پر پھیلی یا زیر زمین ان کانوں کا ماحول کان کنوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ اور تکلیف دہ قرار دیا جاتا ہے۔

2014 میں روبایا میں معدنیاتسے لبریز کانوں کا فضائی منظر
Monusco
روبایا میں معدنیات سے لبریز کانوں کا فضائی منظر۔ یہ تصویر 2014 میں لی گئی تھی

اس خطے میں کان کنی کا طریقہ کار کافی پیچیدہ اور غیر رسمی ہے جس میں بیلچوں کی مدد سے پتھر نکال کر زمین کی سطح پر لائے جاتے ہیں، پھر انھیں توڑا جاتا ہے۔ اس کے بعد صاف کرنے کے لیے ریزہ ریزہ کیے گئے پتھر دھوئے جاتے ہیں اور پھر ان کو فروخت کر کے برآمد کیا جاتا ہے، جہاں اُن کو مزید صاف کر کے پگھلایا جاتا ہے اور مطلوبہ دھات حاصل کی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق ایم 23 نامی گروہ نے روبایا پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں ریاست کی طرز کا انتظام قائم کیا جہاں کانکنوں اور تاجروں کو بالترتیب 25 اور 250 ڈالرز سالانہ فیس کے بدلے کان کنی کے اجازت نامے جاری کیے جاتے ہیں۔

اس دوران ایم 23 نے کان کنوں کی اجرت بڑھا کر دگنا کر دی تاکہ وہ کام جاری رکھیں۔

اس علاقے پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے گروہ ایم 23 لوگوں کو گرفتار اور حراست میں بھی لیتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہاں صرف وہی تاجر کام کر سکیں جنھیں انھوں نے اجازت دے رکھی ہے۔

ایم 23 کی جانب سے معدنیات والے ہر ایک کلو وزن کے پتھر پر سات ڈالر کا ٹیکس بھی عائد کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ محض ان ٹیکسز کی وجہ سے یہ باغی گروہ روبایا نامی علاقے سے ماہانہ تقریباً آٹھ لاکھ ڈالرز کماتا ہے جو یقینی طور پر اس بغاوت کو فروغ دینے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایم 23 کے زیر کنٹرول علاقوں سے نکالا گیا خام مال عالمی سپلائی چین میں کیسے شامل ہوتا ہے؟

اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم 23 کے حمایتی پڑوسی ملک روانڈا میں چھپے ہیں۔

’انٹرنیشنل ٹن سپلائی چین انیشی ایٹو‘ عالمی جانچ کا ایک ایسا نظامہے جو یہ یقینی بناتا ہے کہ فون اور دیگر الیکٹرانک آلات میں استعمال ہونے والا خام مال کی آمدن کسی بھی تنازع کی مالی معاونت یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں استعمال نہ ہو۔

امریکی ڈوڈفرینک ایکٹ کا مقصدیقینی بنانا ہے کہ تنازعات سے جڑی معدنیات خریدنے والی کمپنیاں غیر ارادی طور پر تشدد کو مالی مدد فراہم نہ کریں
Reuters

سنہ 2010 میں منظور ہونے والے امریکی ڈوڈفرینک ایکٹ اور یورپی یونین کی اسی سے ملتی جلتی ایک قانون سازی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تنازعات سے جڑی معدنیات جیسے ٹن، ٹینٹالم، ٹنگسٹن، اور سونا خریدنے والی کمپنیاں غیر ارادی طور پر تشدد فروغ دینے والوں کو مالی مدد فراہم نہ کریں۔

تاہم انٹرنیشنل ٹن سپلائی چین انیشیٹو کو کافی تنقید کا سامنا رہا ہے۔

اس شعبے کے ماہر کین میتھیسن کا کہنا ہے کہ چھوٹے چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی کان کنی کے باعث مقامی حکام کے لیے ہر جگہ ہونے والی سرگرمیوں کی صحیح طریقے سے نگرانی مشکل ہے

کین میتھیسن کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل سپلائی چین انیشیٹو کے ٹیگز کان کنی کے مقام پر ہی تھیلوں پر لگائے دیے جانے چاہییں تاکہ اُن میں کسی قسم کی رد و بدل نہ کی جا سکے۔ تاہم ان کے مطابق اکثر یہ تھیلے ایک کلیکشن پوائنٹ تک لائے جاتے ہیں اور تب تک یہ پتا لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ تھیلے کہاں سے آئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ممالک میں سرکاری سطح پر ممکنہ کرپشن کا بھی مسئلہ ہے۔

کین میتھیسن کا کہنا ہے کہ ریاستی ایجنٹوں پر الزام ہے کہ وہ رقم کے عوض تاجروں کو ٹیگز فروخت کر دیتے ہیں اور تاجر خود ہی جس تھیلے پر چاہیں یہ ٹیگ لگا دیتے ہیں۔

انٹرنیشنل ٹن سپلائی چین انیشیٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ 3,000 کانوں کی نگرانی کرتے ہیں اور اس دوران چھوٹی یا دور دراز علاقوں میں موجود ہر کان پر مکمل فوکس ہوتا ہے۔

روبایا کے مسئلے پر ان کا کہنا تھا کہ ایم 23 کے علاقے میں داخل ہونے کے بعد انھوں نے وہاں اپنے آپریشنز معطل کر دیے تھے۔

تاہم ایم 23 نامی گروہ اب بھی کامیابی سے معدنیات برآمد کر رہا ہے۔

روانڈا کی اپنی معدنیات کی کانیں ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر تصدیق شدہ معدنیات روانڈا کی پیداوار میں ملا دی جاتی ہے۔

کین میتھیسن کا کہنا ہے کہ روبایا پر قبضے سے پہلے بھی ایم 23 کولٹن کی تجارت میں ملوث تھا۔ وہ سڑکوں پر ناکہ لگا کر ان معدنیات کی ترسیل کرنے والوں سے فیس وصول کرتے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت بھی باغی گروہ کے زیر کنٹرول علاقے سے معدنیات کی بڑی مقدار روانڈا جاتی تھی۔ ’اس وقت بھی روانڈا نے مشرقی جمہوریہ کانگو میں عدم استحکام کا فائدہ اٹھایا اور ہم نے دیکھا کہ روانڈا کی برآمدات کا حجم بڑھنے لگا۔‘

باغی گروہ نے روبایا میں کان کنوں کی اجرت میں اضافہ کیا لیکن تجارت پر اجارہ داری برقرار رکھنے کو یقینی بنایا
AFP
باغی گروہ نے روبایا میں کان کنوں کی اجرت میں اضافہ کیا اور اس کے ذریعے معدنیات کی تجارت پر اجارہ داری برقرار رکھنے کو یقینی بنایا

امریکی جیولوجیکل سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ روانڈا کی معدنیات کی برآمدات میں سنہ 2022 اور سنہ 2023 کے درمیان 50 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

کین میتھیسن کا دعویٰ ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ یہ سب روانڈا سے آ رہا ہو۔

روانڈا کی حکومت کے ترجمان یولینڈے مکولو نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے ملک میں معدنیات اور ان کی صفائی کی صلاحیت موجود ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ جمہوریہ کانگو میں جہاں ایک مظلوم کمیونٹی اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے، اس مسئلے کو مادی فائدے کے مسئلے میں تبدیل کرنا قابل مذمت ہے۔

روانڈا کے صدر پال کاگامے نے بھی اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے ان کی ’پیشہ ورانہ مہارت‘ پر سوال اٹھایا ہے۔

مشرقی جمہوریہ کانگو کا بیشتر حصہ برسوں سے تنازعات میں گھرا ہوا ہے اور اس صورتحال میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اس تمام تر صورتحال سے کس کو فائدہ ہوا ہے اور کیا مسلح گروہ وہاں سے نکالی جانے والی معدنیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

اس مسئلے اور سمارٹ فون کی صنعت سے اس کے تعلق کو اجاگر کرنے کے لیے کانگو کی حکومت نے گذشتہ سال کے آخر میں فرانس اور بیلجیئم میں ایپل کے ذیلی اداروں کے خلاف الزامات عائد کیے تھے اور اُن پر ’متنازع معدنیات‘ کے استعمال کا الزام لگایا تھا۔

ایپل نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2024 کے اوائل سے دنیا بھر میں تنازعات میں اضافے اور سرٹیفیکیشن کی دشواریوں کی وجہ سے اس نے جمہوریہ کانگو اور روانڈا سے دیگر دھاتوں کے علاوہ ٹینٹلم کا حصول بھی بند کر دیا ہے۔

تاہم دیگر موبائل فون بنانے والی کمپنیوں کی پالیسیاں اتنی واضح نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے ایم 23 مزید علاقوں پر قبضہ کرے گا تو ان علاقوں سے حاصل ہونے والے ٹینٹلم کے چھوٹے ٹکڑے ان آلات میں استعمال ہو سکتے ہیں جن پر ہمارا روز مرہ کا انحصار ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.