وکلا کے احتجاج اور ججوں کے اعتراضات کے باوجود جوڈیشل کمیشن نے چھ ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی منظوری دے دی

وکلا کے احتجاج، سپریم کورٹ کے ججز اور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کمیشن کے اراکین کے اعتراضات کے باوجود جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم سمیت چھ ججز کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دے دی ہے۔
SC
Getty Images

وکلا کے احتجاج، سپریم کورٹ کے ججز اور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کمیشن کے اراکین کے اعتراضات کے باوجود جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم سمیت چھ ججز کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دے دی ہے۔

جن دو دیگر ججز کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دی گئی ہے ان میں پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور بھی شامل ہیں۔

پیر کے روز اسلام آباد میں وکلا کے احتجاج اور سپریم کورٹ کے ہی چار ججز کے اعتراضات کے باوجود ملک کی سب سے بڑی عدالت میں آٹھ نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ہوا ہے۔

تاہم کمیشن کے اراکین میں سے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر نے کمیشن کی کارروائی کا حصہ نہیں بنے۔

جسٹس منصور اور جسٹس منیب سپریم کورٹ کے ان چار ججوں میں شامل ہیں جنھوں نے نئے ججوں کی تعیناتی کا معاملہ 26ویں آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں پر فیصلے تک ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

پیر کے روز اجلاس کی کارروائی میں شرکت نہ کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان اور سینیٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز اور انھوں نے جوڈیشل کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے آج کے اجلاس کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پہلے سنیارٹی کے مسئلے کا فیصلہ ہو۔

بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز اور ہم نے اجلاس کی کارروائی میں کیا بات کی اس کی تفصیلات نہیں دے سکتے کیونکہ ہم نے حلف اٹھا رکھا ہے مگر یہ بتا سکتے ہیں کہ جب ہمارے تحفظات کے باوجود اس اجلاس کو مؤخر نہیں کیا گیا تو پھر ہم نے بھی اس اجلاس میں شرکت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

اس موقع پر بیرسٹر علیظفر نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ملتوی کرنے کی درخواست کی ہماری بات نہیں مانی گئی تو ہمیں یہی ہدایات تھیں کہ ہم اس کا حصہ نہ بنیں۔'

سینیٹرعلی ظفر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں آٹھ نئے ججز کی تقرری کے معاملے پر وکلا کا احتجاج جاری رہے گا۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم میدان نہیں چھوڑیں گے، اپنی آواز اٹھائیں گے۔ میں نے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں سینیارٹی کا مسئلہ اٹھایا ہے، پہلے اسے حل کر لیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کسی اور جج کو سپریم کورٹ لایا جاتا ہے جس سے ججز میں رنجش پیدا ہو سکتی ہے۔ ’ہم اس اصول پر کھڑے ہیں کہ شخصیات آنے جانے والی بات ہے، ادارہ اور اصول سب سے ضروری ہے۔‘

انھوں نے تسلیم کیا کہ تمام وکلا تنظیمیں ان تبادلوں کے خلاف نہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی مخالفت جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں حکمراں جماعت اور ان کے حمایتی وکلا نمائندوں کو برتری حاصل ہے۔

وکلا کا احتجاج

اس سے قبل سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کے خلاف وکلا کا ایک دھڑا احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آیا۔

جوڈیشل کمیشن کے ہو رہے اجلاس کے خلاف وکلا ایکشن کمیٹی نے احتجاج کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سرینا چوک سے سپریم کورٹ جانے کی کوشش کی تو وکلا اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپ ہوئی اور پولیس نے احتجاجی وکلا پر لاٹھی چارج بھی کیا۔

وکلا نے احتجاج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب مارچ کا آغاز کیا، اس دوران انتظامیہ نے سرینا چوک کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا اور ریڈ زون کو بھی مکمل سیل کر رکھا ہے۔

سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرینا چوک کے قریب ریڈ زون کی سکیورٹی پر مامور اینٹی رائٹس کٹس پہنے پولیس اہلکاروں نےوکلا کو سپریم کورٹ کے قریب جانے سے روکنے کی کوشش کی۔

بعض وکلا تنظیموں نے کہا ہے کہ وہ کنٹینرز اور اضافی سکیورٹی انتظامات کے باوجود ہر صورت سپریم کورٹ کے باہر اپنا 'پُرامن' احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان یحیٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ملک کی تمام ہائی کورٹس کی جانب سے بھیجے گئے ناموں پر غور کیا گیا۔

یاد رہے کہ حکومت نے سادہ بل کے ذریعے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کو 34 تک کر دی ہے اور اگر آج آٹھ ججز کی تعیناتی کا عمل مکمل ہوجاتا ہے تو پھر سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 24 ہو جائے گی۔

ملک کی چاروں ہائی کورٹس سے پانچ پانچ سینیئر ججز کے نام طلب کیے گئے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے تین ججز کے نام جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے۔

وکلا کی بڑی تنظیمیوں سے تعلق رکھنے والے وکلا کا جو دھڑا اس احتجاج کی حمایت نہیں کر رہا نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان وکلا کے احتجاج کے پس پردہ موجودہ عدلیہ کی وہ شخصیات ہیں جن کی ان ججز کی تقرری اور ٹرانسفر سے سنیارٹی متاثر ہوئی ہے اس کے علاوہ ان وکلا کا ایک سیاسی ایجنڈا بھی ہے۔

وکلا کی سب سے بڑی تنظیموں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے علاوہ سندھ بار کونسل اور خیبر پختونخوا بار کونسل نے بھی وکلا کے ایک دھڑے کی اس کال کو مسترد کر دیا ہے اور ان تنظیموں کا موقف ہے کہ صرف منتحب نمائندوں کے پاس ہی احتجاج کی کال دینے کا اختیار ہے۔

یاد رہے کہ جوڈیشل کونسل کے 27 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ سپریم کورٹ میں آٹھ ججز کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کونسل کا اجلاس 11 فروری کو بلایا جائے تاہم بعدازاں اس میں ترمیم کرکے دس فروری کو اجلاس بلانے کا نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔

ججز کے کیا تحفظات ہیں؟

سپریم کورٹ میں آٹھ ججز کی تعیناتی کے معاملے پر سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت چار ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا ہے جس میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ 26ویں ترمیم کیس کے فیصلے تک آٹھ ججز کی تعیناتی کے عمل کو موخر کیا جائے۔ دیگر ججز میں جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل ہیں۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ ایک نیا تنازع بنے گا۔

خط لکھنے والے ججز کا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں ججز لانے سے ’کورٹ پیکنگ‘ کا تاثر ملے گا۔ انھوں نے اپنے خطوط میں لکھا کہ ’وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟‘

سپریم کورٹ کے ان ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا ہے کہ کس کے ایجنڈے اور مفاد پرعدالت کو اس صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے؟

خط میں یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ آئینی بینچ نے ہی 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کو سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے اور عوام کو موجودہ حالات میں ’کورٹ پیکنگ‘ کا تاثر مل رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس منیب اختر بھی جوڈیشل کمیشن کے رکن ہیں۔

جوڈیشل کمیشن کے ایک اور رکن اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرعلی ظفر نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھتے ہوئے آج کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی استدعا کی تھی۔

گذشتہ روز علی ظفر نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ خط میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی سینیارٹی کا معاملہ حل ہونے تک اجلاس موخر کیا جائے کیونکہ ججز کے ٹرانسفر سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی سینیارٹی لسٹ تبدیل ہوگئی ہے۔

اپنے خط میں انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ان تعیناتیوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے صف بندی کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ یکم فروری کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 200 کی شق (ون) کے تحت تین ججز کے تبادلے کیے جن میں لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا تبادلہ کر کے انھیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کیا گیا تھا۔

جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا تھا۔

جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نئے ججز کے تبادلے پر بھی بعض ججز نے اپنے تحفظات ظاہر کیے تھے۔

چیف جسٹس نے کسی خط کا جواب نہیں دیا

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ان چاروں ججز کے علاوہ بیرسٹر علی ظفر کے خط پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ انھوں نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شریک ہو کر مگر کارروائی کا حصہ نہ بن کراپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عامر فاروق سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات ہو جاتے ہیں تو پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کون ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کیا گیا ہے اور نئے نوٹیفکیشن کے مطابق وہ اب سب سے سینیئر جج ہیں جن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیگر ججز نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور سنیارٹی کے معاملے کو لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے کچھ ججز نےچیف جسٹس کو خط بھی لکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ وکلا کا ایک دھڑا اس احتجاج کو سپورٹ نہیں کر رہا ہے اور اس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ جیسے بار اور بینچ کے درمیان خلیج مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

’کوئی بھی قانون مستقل نہیں ہوتا‘

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے چند وکلا رہنما اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے یہ احتجاج کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وکلا کو تو آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے اور پارلیمنٹ جو بھی قانون سازی کرے وکلا کو اس کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔

امجد شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرتی ہے جو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے تو پھر سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ایسے قانون کو کالعدم قرار دے۔

انھوں نے کہا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کو کوئی قانون پسند نہیں ہے تو اگلے انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس قانون کو تبدیل کرسکتے ہیں۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قانون مستقل نہیں ہوتا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری لانے کی لیے ترمیم لائی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ لاہور، بلوچستان اور سندھ ہائی کورٹ سے جن ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا یہ تمام عمل قانون کے مطابق ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کو چاہیے کہ اگر ان کے کسی بھی قانون سے متعلق کوئی تحفظات ہیں تو وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر آئے تو حکومت اس پر ضرور بات کرے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.