اہلام تمیمی کون ہیں اور امریکہ اُن کی حوالگی کے لیے اُردن پر کیوں دباؤ ڈالتا ہے؟

تمیمی پر الزام ہے کہ سنہ 2001 میں دوسرے نکبہ کے دوران یروشلم کے ریستوران پر ہونے والے حملے میں ملوث تھیں جس میں امریکی اور اسرائیلی شہریوں سمیت 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی سبب امریکی تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹگیشن (ایف بی آئی) نے انھیں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کرلیا تھا۔

امریکہ نے متعدد مرتبہ مطالبہ کیا ہے کہ ارُدن اپنی شہری اہلام تمیمی کو اس کے حوالے کرے تاکہ اُن پر دوسرے فلسطینی نکبہ کے دوران اسرائیلی اور امریکی شہریوں پر ہوئے حملے کا مقدمہ چلایا جا سکے۔

اُن کی امریکہ حوالگی کے حوالے سے حالیہ تنازع دو فروری کو اس وقت بنا جب حماس سے منسلک ٹی وی چینل ’الاقصیٰ‘نے یہ خبر نشر کی کہ ’اُردن نے اہلام تمیمی سے فوراً ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی ’ ہے۔‘

اُردن کی حکومت کی جانب سے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔

تمیمی پر الزام ہے کہ وہ سنہ 2001 میں دوسرے نکبہ کے دوران یروشلم کے ریستوران پر ہونے والے حملے میں ملوث تھیں جس میں امریکی اور اسرائیلی شہریوں سمیت 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی سبب امریکی تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹگیشن (ایف بی آئی) نے انھیں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق تمیمی کی حوالگی کی صورت میں امریکی عدلیہ انھیں موت یا عمر قید کی سزا سُنا سکتی ہے۔

تمیمی اس سے قبل اسرائیلی جیل میں آٹھ برس گزار چکی ہیں اور اُن کی رہائی سنہ 2011 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے سبب ہوئی تھی۔

تمیمی کا اُردن چھوڑنے سے انکار

بی بی سی نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے دوحہ میں مقیم تمیمی کے شوہر نظار التمیمی سے گفتگو کی اور انھوں نے دعویٰ کیا کہ اُردن کی جانب سے ایک ثالث کے ذریعے اُن کی اہلیہ سے ملک چھوڑنے کی درخواست کی گئی ہے۔

نظار کا کہنا ہے کہ اُردن کے حکام اُن کی اہلیہ سے براہ راست رابطہ نہیں کرتے بلکہ ایک ثالث کے ذریعے بات کرتے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اردن کے حکام نے کہا ہے کہ ’اگر تمیمی ملک نہیں چھوڑتیں تو ہم انھیں (امریکہ کے) حوالے کر دیں گے۔‘

حماس کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کو نہیں لگتا کہ ان کی تنظیم اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری کرے گی۔

تاہم تمیمی کے شوہر نظار کا کہنا ہے کہ اُن کی اہلیہ نے اُردن کی حکومت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ اُردن کی شہری ہیں اور آئین کے مطابق انھیں کسی بھی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔

اہلام تمیمی
Getty Images
اہلام پر ایک ایسے حملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے جس میں امریکی اور اسرائیلی شہری مارے گئے تھے

بی بی سی نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے اُردن کی حکومت سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

تاہم اُردن کے ایوانِ نمائندگان کے سپیکر نے پارلیمنٹ کے ایک سیشن کے دوران کہا تھا کہ ’اہلام تمیمی کے حوالے سے خبر غلط ہے۔‘

جب میڈیا پر اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو اُردن کی پارلیمنٹ میں مذہبی تنظیم اسلامک ایکشن فرنٹ کے سربراہ صالح الارموتی کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیرِ اعظم اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ڈائریکٹر سے بات کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں نے کہا ہے کہ اُن کا تمیمی کو ملک بدر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ملک بدری؟

تین فروری کو صالح الارموتی نے مقامی میڈیا کو ایک بیان دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی ’فیصلہ سازوں اور اعلیٰ عہدیداران سے تمیمی کی ملک بدری کے حوالے سے گردش کرنے والی خبروں پر بات ہوئی ہے۔ مجھے تصدیق ملی ہے کہ ان کو ملک بدر کرنے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا ہے اور وہ ملک میں موجود ہیں۔‘

دوسری جانب تمیمی کے وکیل مصطفیٰ نصراللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں ان سے براہ راست سرکاری سطح پر ملک چھوڑے کی کوئی درخواست نہیں کی گئی ہے، تاہم پہلے ان پر ملک چھوڑنے کا دباؤ ضرور تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اُردن کا آئین بہت واضح ہے اور وہ کسی بھی شہری کو ملک بدر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

مصطفیٰ نصراللہ کہتے ہیں کہ تمیمی کی اردن میں موجودگی عام سی بات ہے اور یہاں کوئی قانونی چیز موجود نہیں جو انھیں ملک میں رہنے سے روک سکے۔

امریکہ کا کیا مؤقف ہے؟

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جانب سے متعدد مرتبہ اہلام التمیمی کے احتساب پر زور دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ اُردن کی حکومت کے سامنے اس مؤقف پر قائم ہے کہ تمیمی ایک ظالم قاتل ہیں اور ان کا احتساب ہونا چاہیے۔‘

دوسری جانب سنہ 2017 میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تمیمی نے کہا تھا کہ ’فلطسینیوں کو اس عسکری قبضے کے خلاف ہر طرح سے مزاحمت کرنے کا حق حاصل ہے اور ان میں ایسے حملے بھی شامل ہیں۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ انھیں امریکی شہریوں کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور وہ گرفتاری کے ڈر سے اُردن نہیں چھوڑ سکتیں۔

امریکہ میں واشنگٹن کی ایک عدالت نے 15 جولائی 2023 میں تمیمی کے خلاف ایک گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کیا تھا۔

سنہ 2020 میں امریکہ میں 18 یہودی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اردن پر دباؤ ڈالیں تاکہ تمیمی کو امریکہ کے حوالے کیا جا سکے۔

سنہ 2020 میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے خبر دی تھی کہ اس وقت کی ٹرمپ انتطامیہ اردن کو دی جانے والی امداد روکنے پر غور کر رہی تھی۔ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تصدیق کی گئی تھی کہ وہ تمیمی کی حوالگی کے لیے اردن پر دباؤ ڈالنے کے لیے 'ہر آپشن' پر غور کر رہے ہیں۔

کیا اُردن امریکی دباؤ برداشت کر سکتا ہے؟

تمیمی کے شوہر نظار کہتے ہیں کہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اُردن پر امریکی دباؤ اس معاملے کو مزید پیچیدہ کر سکتا ہے لیکن ’یہ معاملہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘

نظار کے پاس اُردن کی شہریت نہیں ہے اور اُن کے مطابق وہ سنہ 2020 سے اب تک اپنی اہلیہ سے ملاقات کے لیے متعدد مرتبہ درخواست کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔

نظار دراصل تمیمی کے کزن ہی ہیں اور ان کا تعلق فلسطینی تنظیم الفتح سے ہے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں ان پر ایک اسرائیلی شہری کو قتل کرنے کا الزام لگا تھا اور انھیں عمر قید کی سزا سُنائی گئی تھی۔

تاہم دونوں میاں، بیوی کو سنہ 2011 میں رہا کر دیا گیا تھا۔

نظار کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس آمد کے بعد اُردن پر ایک مرتبہ پھر تمیمی کو امریکہ کے حوالے کرنے کا دباؤ پڑے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تمیمی نے متعدد ممالک سے پناہ کی درخواست کی ہے لیکن امریکی دباؤ کے سبب کہیں سے مثبت جواب نہیں آیا۔

اردن پر امریکی دباؤ کا حوالہ دیتے ہوئے نظار کا کہنا تھا کہ ’ہم اُردن کو دباؤسے بچانے کے لیے راستہ ڈھونڈے سے انکار نہیں کر رہے۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی اہلیہ کو ملک بدر کیا گیا تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.