جب مٹھی بھر خواتین نے ضیا حکومت کو متنازع قانون شہادت میں ترمیم پر مجبور کیا

بارہ فروری 1983 کے خُنک دن چار یا اس سے زیادہ افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی تھی سو خواتین کو دو دوکی ٹکڑیوں میں دس دس فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے لاہورہائی کورٹ کی جانب بڑھنا تھا تاکہ ایک ایسے قانون کے خلاف درخواست دے سکیں جو عورت کی گواہی کو مرد کے مقابلے میں آدھی قرار دیتا تھا۔

وہ 12 فروری 1983 کا خُنک دن تھا اور صوبہ پنجاب میں انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی جس کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے اکٹھا ہونے پر پابندی تھی۔

اور اسی پابندی سے نمٹنے کے لیے کم از کم 200 خواتین کو دو، دو کی ٹکڑیوں میں دس، دس فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے لاہورہائی کورٹ کی جانب بڑھنا تھا تاکہ ایک ایسے مسودہ قانون کے خلاف درخواست دے سکیں جو عورت کی گواہی کو مرد کے مقابلے میں آدھی قرار دیتا تھا۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی تنظیم ’شرکت گاہ‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فریدہ شہید اُن خواتین میں سے ایک تھیں۔

فریدہ شہید نے اُس دن کو یاد کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’ضیاالحق کی آمرانہ حکومت کا چھٹا سال تھا۔ وہ حقوق جو شہری کےطورپر ہمیں حاصل تھے، چھینے جا رہے تھے۔ حدود سے متعلق ایسے امتیازی قوانین لائے جا رہے تھے جن کے بعد جیلیں عورتوں سےبھرنے لگی تھیں۔ لیکن ہمارا احتجاج بنیادی طور پر قانونِ شہادت کےمسودے یا بلکے خلاف تھا۔‘

’گو کہ اپنے اپنے شعبوں میں مزدوروں، طلبہ اور ذرائع ابلاغ کو بھی بہت پابندیوں کا سامنا تھا لیکن احتجاج میں پہل شاید خواتینہی نے کی تھی۔‘

آنکھوں کی بڑھتی چمککے ساتھ اُس دن کو یاد کرتے ہوئے فریدہ شہید کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی سے بھی (حکومت کے ناپسندیدہ) اساتذہکو نکالا گیا تھا۔ لیکن میں خود استعفا دے کر کسی موضوع پر تحقیق کے لیے فیلڈ میں تھی جب وکلااور انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کی قیادت میں ویمن لائرز ایسوسی ایشن نے کال دی۔ زیادہ تر موبلائزیشن خواتین محاذِ عمل نے کی۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’چونکہ ریلی نہیں ہو سکتی تھی سو ہمیں (ریگل چوکسے ملتی) بیڈن روڈ سے کچھ ہی دور ہائیکورٹ جانا تھا اور اپنا مطالبہ پیش کرنا تھا۔ ہمیں دس فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے دو، دو کی تعداد میں جانا تھا۔‘

’بیڈن روڈ پر ہم 200 کے قریب خواتین جمع ہوئیں۔ ہم سے زیادہ پولیس کے مرد اور خواتین اہلکار وہاں کھڑے تھے۔ وہاں ہمیں روک دیا گیا۔‘

’پھر وہاں حبیب جالب صاحب آ گئے اور اپنی شاعری سُنانا شروع کی تو پولیس کیساری توجہ اُن کی جانب ہو گئی۔‘

’ہم اُن کے چاروں طرف کھڑے تھے۔ میں اور میری ایک ساتھی بینراٹھائے کھڑی تھیں۔ میری مال کی جانب نظر گئی تو ہماری ایک ساتھی مبارکہ وہاں کھڑی اپنی جانب آنے کااشارہ کر رہی تھیں۔‘

’میں نے باقی خواتین کو بتایا تو گہما گہمی شروع ہو گئی۔ اس پر پولیس والوں نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے پھینکنا شروع کر دیے۔ پولیس والے پاگل سے ہو گئے تھے۔‘

ماہر تعلیم اور حقوقِ خواتین کی کارکن روبینہسہگلنے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں سنہ 2017 میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’عوام کے عظیم شاعر حبیب جالب جو ہمیشہ آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے رہے، خواتین کے مساوی حقوق اور آزادی کی بات کرتے ایک ولولہ انگیز نظم کے ساتھ پہنچے۔‘

’جب انھوں نے اپنی شاعری سنائی۔۔ جس میں خواتین کو مزید زنجیروں میں رہنے سے انکار اور آزادی و مساوات کے حصول کی پکار تھی۔۔ تو اچانک پولیس ان پر جھپٹ پڑی اور لاٹھی چارج شروع کر دیا۔‘

صحافی طاہر اصغر کے ساتھ ایک طویل انٹرویو پر مشتمل اپنی آپ بیتی میں حبیب جالب نے بسترِ مرگ پر بتایا کہ وہ وکیل اور خواتین کے حقوقکی کارکن عاصمہ جہانگیر کے ساتھ وہاں پہنچے : ’میں وہاں پہنچ گیا جہاں خواتین دھرنا دے کر بیٹھی تھیں۔ میں نے مختصر سی تقریر کی اور پھر خواتین کے بارے میں نظمیں سنانا شروع کیں۔ جب میں نظمیں سنا رہا تھا تو عورتوں کے چہروں پر خوشی کی جھلک تھی۔‘

’کلام سنانے سے میرا مقصد ان کے حوصلے بڑھانا ہی تھا۔ اس دورانمیں ایک ایس ایچ او نے آ کر کہا جالب صاحب، ادھر آئیے ذرا ہماری بات سنیے۔‘

عورتوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ’اس کی بات مت سنیے۔‘

’میں نے کہا کہ ’کوئی بات نہیں۔ میں اسے کیمپ جیل سے جانتا ہوں۔ اگر یہ مجھ سے کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو اس کی بات سن لینی چاہیے‘ میں اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ فرمائیے۔‘

’وہ کہنے لگے کہ ان عورتوں کو وین میں بٹھا کر ہائیکورٹ لے چلتے ہیں۔‘

حبیب جالب نے بتایا تھا ’میں نے کہا کہ ’آخر پولیس والے ہی نکلے نا۔ میں جانتا ہوں کہ تم انھیں وین میں بٹھا کر(قریبی) تھانہ سول لائنز لے جاؤ گے۔ میں پھر اسی دائرے میں آ گیا جہاں عورتیں بیٹھی ہوئی تھی اور نظمیں سنانا شروع کر دیں۔‘

’تمام عورتیں جوش کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کہا: ’ہٹو پولیس والو، چلو بیبیو‘۔ میں نے اُن کا رُخ مال روڈ کی طرف موڑ دیا۔ وہ ہائیکورٹ کی طرف جا رہی تھیں کہ پولیس نے انھیں زدوکوب کرنا شروع کر دیا۔‘

حبیب جالب نے بتایا تھا ’میں نے یہ صورتحال دیکھی تو وہاں کھڑے ایک ڈی ایس پی سے کہا ’یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہٹاؤ ان پولیس والوں کو۔‘

’یہ سن کر اس نے ایک انسپکٹر سے کہا ’پکڑ لو اس حبیب جالب کو‘۔ اس انسپکٹر نے مجھے پکڑ لیا۔ چوہڑ تھانے کے پندرہ بیس پولیس والوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔‘

حبیب جالب نے بتایا تھا ’وہ بوٹوں سے پنڈلیوں پر ضربیں لگا رہے تھے اور ڈنڈے میری پیٹھ پر برسا رہے تھے۔ میرا گریبان اس انسپکٹر نے پکڑا ہوا تھا۔ میری واسکٹ کے اوپر والے بٹن بند تھے۔ میرا گلا اس کی مضبوط گرفت میں تھا۔ میری آنکھیں باہر آ رہی تھیں۔ حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ موت میرے سر پر ناچ رہی تھی۔‘

’ہائی کورٹ بار کے سیکریٹری جنرل وسیم چودھری نے مجھے دیکھا تو آگے بڑھ کر انسپکٹر کی گرفت سے چھڑایا میں نے اسے اشارے سے کہا کہ میری واسکٹ کے بٹن توڑ دو۔ اس نے واسکٹ کھول دی اور میرا سانس بحال ہوا۔‘

حبیب جالب نے بتایا تھا ’وسیم نے انسپکٹر کو گالی دی۔ اب پولیس والوں نے وسیم چودھری کو پکڑ لیا اور اس کے ساتھ دھینگا مشتی شروع ہو گئی۔‘

’پولیس والوں نے مجھے چھوڑا تو ڈان کے بیورو چیف نثار عثمانی مجھے سہارا دے کر(سامنے کی عمارتوں میں) لاہور پریس کلب میں لے گئے اور پانی پلایا۔ خواتین کے اس پرامن جلوس میں بڑے نامور افراد کی مائیں بہنیں شریک تھیں۔‘

حبیب جالب نے بتایا تھا کہ ’اعتزاز احسن کی والدہ کے علاوہ ان کی اہلیہ بشری اعتزاز بھی تھیں۔ خدیجہ گوہر کے ساتھ ان کی بیٹی مدیحہ گوہر تھیں۔ ملک غلام جیلانی اور جنرل مٹھا کی بیٹیاں تھیں۔ ایس ایم ظفر کی اہلیہ بھی تھیں۔ مزدور خواتین تھیں۔ سیاسی کارکن شاہدہ جبیں، ساجدہ میر کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کی طالبات تھیں۔‘

’جلوس کی رپورٹنگ کے لیے بی بی سی کی کچھ صحافی خواتین بھی آئی ہوئی تھیں جنھوں نے یہ منظر دیکھا۔‘

حبیب جالب کے مطابق انھوں نے اس واقعے پر ذیل کے اشعار کہے تھے:

بڑے بنے تھے جالب صاحب، پٹے سڑک کے بیچ

گالی کھائی، لاٹھی کھائی، گرے سڑک کے بیچ

کبھی گریباں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خوں

ہمیں تو یونہی ملے سخن کے صلے سڑک کے بیچ

جسم پہ جو زخموں کے نشاں ہیں، اپنے تمغے ہیں

ملی ہے ایسی داد وفا کی کسے سڑک کے بیچ

روبینہ سہگل، جو چارسال پہلے کووِڈکا شکار ہو کر وفات پا گئیں، لکھتی ہیں کہ ’مزاحمت کے اس لمحے سے، اس خاموشی کو توڑنے اور حق کے لیے آواز بلند کرنے کے لمحے سے، خواتین ایک بپھری ہوئی سمندری لہر کی مانند حرکت میں آ گئیں، جو تبدیلی کی تیز ہواؤں سے جھوم رہی تھی۔‘

وہ لکھتی ہیں ’برسوں کی جابرانہ آمریت کے ہاتھوں دبے جذبات اور پختہ عزم نے انھیں پولیس کا محاصرہ توڑنے پر مجبور کر دیا۔ پولیس کے ساتھ ایک عملی جنگ چھڑ گئی۔ ریاستی طاقت کے مکمل زور کے ساتھ پولیس اہلکاروں، مرد اور خواتین نے ڈنڈے برسا دیے۔‘

’لیکن خواتین نے بھی ہمت نہ ہاری۔ وہ ننگے ہاتھوں، جوتوں اور پولیس سے چھینے گئے ڈنڈوں سے مقابلہ کرتی رہیں۔ کئی زخمی ہو گئیں، کچھ گرفتار کر لی گئیں، جبکہ دیگر کو فوری طور پر قریبی ہسپتال پہنچایا گیا۔ یہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ کسی خواتین کے پرامن احتجاج پر اعصاب شکن گیس کا استعمال کیا گیا۔ ریاستی جبر نے خواتین کے غصے اور انصاف کے حصول کے لیے آگے بڑھنے کے عزم کو مزید بھڑکا دیا۔‘

مصنف اور مترجم نیلم حسین کے مطابق جب کچھ خواتین نے پولیس کے حصار کو توڑنے کی کوشش کی، تو اچانک تشدد پھوٹ پڑا۔

ایک اخباری انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ’پولیس میں مرد اہلکاروں کی تعداد زیادہ تھی، اور وہ خواتین مظاہرین سے نمٹنے کے لیے خواتین پولیس اہلکاروں پر انحصار نہیں کر رہے تھے۔‘ ایک پولیس اہلکاران کی طرف بڑھا، لیکن انھوں نے فوراً اپنی پوسٹر والی چھڑی سے اس پر حملہ کر دیا۔

وہ یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’بشریٰ اعتزازسمیت کئی اور خواتین کو بھی پولیس نے مارا پیٹا۔‘

فریدہ شہید کو یاد ہے کہ کیسے ’پرجوش صحافی اس تاریخی لمحے کو کیمرے میں قید کر رہے تھے اور دی مال پر دکاندارخواتین کو اپنی دکانوں میں پناہ دے رہےاور پانی پلا رہے تھے۔‘

’شہری ہمارے ساتھ تھے۔ ہم تو ہائی کورٹ تک پہنچ گئے تھے۔ کچھ خواتیننے بتایا کہ کچھ دکانداروں نے انھیں پناہ دی، پانی وانی پلایا۔ مددگارتھے۔ آنسو گیس بہت تیز تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ فیکٹری ورکرز ہمارے ساتھ تھے۔ روبینہ جمیل نے انھیں موبلائز کیا تھا۔ دو سکول کی لڑکیاں بھی آئیں سکول سے چھٹی لے کر۔‘

’میں نے تو جوگرز پہنے ہوئے تھے باقی لوگوں نے دوسرے جوتے۔ ہم بھاگ رہی تھیں اور ہمارے ساتھ پولیس والیاں بھاگ رہی تھیں۔ میرے ساتھ رخسانہ رشید تھیں انھوں نے ایک پولیس والی کا ڈنڈا دوسری طرف سے پکڑا اور کہا کہ خبردارجو ہمیں کچھ کہا تو۔ اس نے کہا نہیں آپ بھاگیں ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں خود تو ہائیکورٹتک پہنچ گئی تھی لیکن سڑککے اُس طرف عاصمہ جہانگیر کھڑی تھیں۔ وہ ہائیکورٹ کے گیٹ تک پہنچ گئی تھیں اور وہاں سے سب کو سلام دے رہی تھیں۔‘

عاصمہ جہانگیر
BBC
عاصمہ جہانگیر

’مظاہرین کوحراست میں لے کر پولیس وینوں میں پھینک دیا گیا۔ کافی خواتین زخمی ہوئیں۔ نیلم حسین کوسر پر چوٹ آئی اور جب انھیں زبردستی وین میں دھکیلا گیا تو ان کی ٹانگ بھی زخمی ہو گئی۔ تقریباً 50 خواتین کو گرفتار کر کےتھانے لے جایا گیا۔‘

فریدہشہید کہتی ہیں ’تھانے میں ہم سہمے ہوئے نہیں تھے۔ ہم نے وہاں بیٹھ کر قرارداد لکھی۔ ہماری ایک ساتھی فریدہ شیر پولیس والوں کو لیکچر دینے لگیں کہ جب آپ کی خواتین کے ساتھ یہ سب کچھ ہو گا تو تب آپ کو سمجھ میں آئے گا۔‘

فریدہ شہید کہتی ہیں ’وہاں ایک نوجوان کارکن، شہناز تھیں جو رو رہی تھی۔ میں اس کے پاس گئی اور کہا کہ مت روو، ہم سبساتھہیں۔ اس نے جواب دیا کہ میں لاٹھی چارج کی وجہ سے نہیں رو رہی، بلکہ اس لیے رو رہی ہوںکہ میں وہ لاٹھی چھیننے میں کامیاب ہو گئی تھی جس سے مجھے مارا جا رہا تھا، لیکن میں انھیں واپس مار نہیں سکی۔‘

تاہم تھانے میں پولیس کا رویہ نسبتاً نرم تھا اور کچھ دیر بعد سب کو رہا کر دیا گیا۔

اگلے دن یہ خبر ملک کے ہر اخبار کی شہ سرخی بن گئی۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس واقعے کو نمایاں کیا۔

تیمورالحسن کی تحقیق ہے کہ سرکاریاخبارات اور بعض آزاد اخبارات نے روایتی بیانیہ اپنایا اور خواتین کی سیاسی اور قانونی جدوجہد کو منفی طور پر پیش کیا۔

لیکن فریدہ شہید کا کہنا ہے کہ ’جو کوریج ہوئی اس میں آنسو گیس تھی اور لاٹھی چارج تھا۔ حکومت کا یہ بیانیہ کہ ہم ہی عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، پٹ گیا۔ ان کی بدنامی ہوئی۔ بڑی اچھی کوریج ہوئی۔ جنگ اخبار نے تو اس واقعے پر پورا فرنٹ پیجچھاپا۔ بی بی سی سمیت میڈیا نے اسے کوریجدی۔‘

اس سوال پر کہ اس واقعے کا اثر کیا ہوا، فریدہ شہید نے بتایا کہ ’ایک اثر تو یہ ہوا کہ اس کے بعد حکومت نے ہمارے ساتھپھر ایسا سلوک نہیں کیا۔ لوگ کچھ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد ہمنےگورنر ہاؤس کے سامنے ایک مظاہرہ کیا۔ ہم 17 لوگ تھے۔ہم نے سوچا کہ اگرہم مار کھانے کے بعد چپ ہو گئے تو کوئی کبھی نہیں آئے گا سامنے۔ (سیاستدان)عابدہ حسین کی والدہ ہمارے ساتھ تھیں۔ یہ ہمارے لیےفخر کی بات تھی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنا شروع ہوگئے۔‘

فریدہ شہید اورخاور ممتاز نے اپنی کتاب ’ویمن آف پاکستان: ٹوسٹیپس فارورڈ، ون سٹیپ بیک‘ میں لکھا ہے کہ ’12 فروری کے مظاہرے کا اثر غیر معمولی تھا۔ اچانک ہی خواتین کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ سیاستدانوں نے ان کی ہمت کو سراہا کہ انھوں نے عائد کردہ پابندیوں کو چیلنج کرنے کی جرات کی، حکومت نے انھیں اس نظر سے دیکھا کہ وہ قانون و امن کی صورتحال پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور دیگر خواتین نے اس مجوزہ قانون پر غور کرنا شروع کر دیا جس نے ان جیسی عورتوں کو ریاست کے خلاف کھڑا ہونے پر مجبور کیا تھا۔‘

’تاہم ایک ردعمل بھی آیا جس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھے جو خواتین کے اس احتجاج پر شدید برہم تھے اور اس مارچ کو اسلام میں عورت کے مقررہ کردار کی خلاف ورزی سمجھتے تھے۔‘

انھوں نے لکھا ’ان خواتین کے لیے، جو پہلے کبھی ایسے مظاہروں میں شریک نہیں ہوئی تھیں، یہ تجربہ انتہائی آزادانہ تھا۔ پولیس کے تشدد کا سامنا کرنا، گرفتار ہونا اور حراست میں لیا جانا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ مگر جذبہ بلند تھا، جدوجہد جاری رکھنے کا عزم مضبوط تر ہو چکا تھا، اور باہمی یکجہتی اپنی انتہا پر تھی۔‘

’بعد میں، جب احتجاج اور مظاہروں کے نئے مواقع آئے تو دیکھا گیا کہ 12 فروری کے مظاہرے میں شریک کئی خواتین بلا جھجک بار بار سامنے آئیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ایک نادیدہ رکاوٹ ختم ہو چکی ہو۔‘

ہم نے یہی سوال پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کیسابق چیئرپرسن زہرہ یوسفسے بھی پوچھا۔ انھوں نے اس واقعہ پر کراچی میں ہونے والے احتجاج میں شرکت کی تھی۔

وہ کہتی ہیں ’یہ تمام تلخمناظر ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں اور خواتین کی تحریک کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس پر خواتین محاذ عمل نے کچھ دن بعد کراچی میں مزارِ قائد کے باہر بہت بڑا مظاہرہ کیا۔ بہت سے صحافی اور وکیل بھی ہماری حمایت میں نکلے تھے۔ کافی پولیس تھی لیکن یہ پرامن رہا۔ کوئی بدمزگی یا تشدد نہیں ہوا۔‘

یہ دن (12 فروری) اب عورت مارچ کا دن ہے۔ عورت مارچ کی منتظمین، خاور ممتاز، لینا غنی، نیلم حسین، فاطمہ جان اور شیریں عمیر، جن میں سے کچھ 42 سال پہلے کے احتجاج میں بھی شامل تھیں، کی درخواست پر لاہورہائی کورٹ نے 12 فروری 2025 کو لاہور میں ان کے مظاہرے کی اجازت دے دی ہے۔ حکام نے پولیس کی جانب سے انھیں ’فول پروفسیکیورٹی‘ فراہم کرنے کییقین دہانی کروائی ہے ۔

12 فروری 1983 کے مظاہرے کے نتیجے میں شہادت کے قانون کو کچھ نرم کر دیا گیا۔

مجلس شوریٰ یا پارلیمانکے منظور کردہ قانون کی شق 18 میں بیان کیا گیا کہ تمام معاملات دو مسلمان گواہوں کی شہادت سے ثابت کیے جائیں گے اور اگر دو مرد گواہ دستیاب نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اگر یہ بھی میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی عدالت کی صوابدید پر قابل قبول ہو گی۔

لیکن پھر بھی یہ خواتین کے لیے ناقابل قبول تھا۔

زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ ’قانونشہادت میں کافی ترمیم کی گئی لیکن افسوس ہے کہ مالیاتی معاملات میں ابھی تکدو عورتیں ایک مرد کے برابر ہیں۔‘

وہ کہتی ہی ’سو کچھ تو جیت ہوئی لیکن مکمل جیت نہیں ہوئی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.