ان تارکین وطن کی کہانی کے ذریعے ڈاکٹروں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے یہ اپنی بقا کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کے خطرناک ترین راستے سے ہو کر امریکہ پہنچ کر پناہ لینے کے لیے پرامید تھے۔
![انڈیا سے امریکہ](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/6813/live/a9436a50-e7b1-11ef-ab66-91c35be6a71c.png)
امریکہ سے ڈی پورٹ کیے گئے انڈین شہریوں کا پہلا گروپ حال ہی میں انڈیا واپس پہنچا اور ان پر جو گزری انھوں نے کھل کر اس پر بات کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی صدارت میں واپس آنے کے بعد اپنے انتخابی وعدے کے مطابق ’غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے تارکین وطن‘ کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔
امریکہ سے ملک بدر کیے گئے 104 انڈین شہریوں میں 33 گجراتی اور کچھ ہریانہ اور پنجاب کے لوگ بھی شامل تھے۔
وطن واپسی کے بعد ان لوگوں نے میڈیا سے کھل کر بات کی کہ وہ کس طرح ’غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے‘ راستے میں انھیں کس طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور کیسے انھیں امریکی حکام کی جانب سے مبینہ ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
انڈیا میں اس وقت یہ معاملہ قومی سطح پر زیر بحث ہے۔ گجرات سمیت مختلف ریاستوں کے لوگوں نے امریکہ جانے کے لیے ’غیر قانونی‘ سفر کے لیے استعمال کیے جانے والے راستوں کے بارے میں بھی بات کی۔
ایسا ہی ایک خطرناک راستہ ’ڈیرین گیپ‘ ہے، جہاں سے امریکہ کی خواہش دل میں لیے بہت سے لوگ موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
![امریکہ کے پرخطر رستے](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/6b96/live/3a36a770-e7b2-11ef-a319-fb4e7360c4ec.png)
تارکین وطن اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں
انتباہ: اس مضمون میں ایسا مواد ہے جو چند قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتا ہے۔
یہ سنہ 2022 کی بات ہے۔ ڈیرین گیپ کے قریب شمال میں تارکین وطن کے استقبالیہ مرکز میں پناہ کے متلاشیوں کے حالات دیکھ کر ماہر اطفال ڈاکٹر یاسینہ ولیمز کو اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے دیگر ڈاکٹر دوستوں سے بات کرنے سے بھی قاصر ہو گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنا درد اور اتنی تکلیف ہو گی۔‘
سان ویسینٹے کے عارضی کلینک میں اپنے نو دن میں، وہ اور ان کے ساتھی ڈاکٹرز نے سینکڑوں تھکے ہارے تارکین وطن کا علاج کیا جو پاناما اور کولمبیا کے درمیان گھنے جنگلوں سے گزر کر یہاں پہنچے۔
ان تارکین وطن کی کہانی کے ذریعے ڈاکٹروں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے یہ اپنی بقا کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کے خطرناک ترین راستے سے ہو کر امریکہ پہنچ کر پناہ لینے کے لیے پرامید تھے۔
ڈاکٹر ولیمز بچوں کی حالت زار سے خاصی پریشان تھیں۔
کچھ بچوں کے جسم سے اتنا پانی ختم ہو گیا تھا کہ ان کی آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں۔ یہ بچے رو رہے تھے لیکن ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں آ رہے تھے۔ کچھ تو اس قدر مایوسی کا شکار ہوئے کہ اپنا نام تک بھی بھول گئے۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ’ان تارکین وطن کا ایسے حالات سے واسطہ پڑا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
انھوں نے تفصیلات بتائیں کہ کس طرح کچھ تارکین وطن پر حملہ کیا گیا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
![لیڈرشپ](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/12d4/live/e6a22410-e7b4-11ef-bd1b-d536627785f2.png)
کیا ڈیرین گیپ کا علاقہ ’گرین ہیل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے؟
ڈیرین گیپ کے نام سے شہرت رکھنے والا علاقہ شمالی اور وسطی امریکی براعظموں کو ملانے والی زمین کی ایک تنگ پٹی ہے اور یہ 575,000 ہیکٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ اس تنگ پٹی پر گھنے برساتی جنگلات ہیں۔
اس زمین پر نہ تو پکی سڑکیں ہیں اور نہ ہی یہاں کوئی انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں ڈکیتی اور ریپ کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔
اتنے خطرناک مقام کے باوجود زیادہ سے زیادہ تارکین وطن اپنی جان خطرے میں ڈال کر 97 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے جنگلات کو عبور کر رہے ہیں۔ دلدل اور پہاڑیوں کو عبور کرنے میں ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت لگتا ہے جہاں سڑکیں نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق گذشتہ سال 133,000 تارکین وطن ڈیرین گیپ کے راستے سے گزرے ہیں جن میں سے 30,000 بچے تھے۔ اس خطرناک سفر پر جانے والے زیادہ تر خاندانوں کا تعلق ہیٹی، کیوبا اور وینزویلا سے ہے۔ ڈاکٹر ولیمز کا کہنا ہے کہ کچھ بچے خاندان کے بغیر اکیلے رہ گئے۔
انھوں نے سان ونسنٹے میں گزرے نو دن کے دوران 500 تارکین وطن کا علاج کیا تھا جو جنگل کے راستے یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
ان میں سے 70 کے ساتھ تفصیلی انٹرویوز کے ذریعے معلومات جمع کی گئی۔
![گرین ٹریک](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/52cd/live/57f4c2d0-e7b5-11ef-bd1b-d536627785f2.png)
جب ماں نے بچوں کو اجنبی کے حوالے کیا
اس ٹیم میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر شامل تھے۔ حوثے انتونیو سوریز کو اب بھی یاد ہے کہ کیسے انھوں نے وینزویلا کے ایک 60 سالہ شخص کا علاج کیا تھا۔ ان کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ان میں سے ایک کی عمر چار سال اور دوسرے کی عمر پانچ سال تھی۔
ڈاکٹر کا خیال تھا کہ یہ اس شخص کے پوتے ہیں لیکن اس شخص نے بتایا کہ نہیں۔
اس معمر شخص نے بتایا کہ وہ جنگل میں ہیٹی کی ایک خاتون سے ملے تھے اور اس نے انھیں اپنے دو بچوں کو لے جانے کو کہا تھا۔ وہ اتنی تھک چکی تھیں کہ اب چل نہیں سکتی تھیں۔
ڈاکٹر سوریز کہتے ہیں کہ ’بہت سے سنگین حالات ہیں جہاں والدین کو اپنے بچوں کو اجنبیوں کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔‘
![امریکہ کا پرخطر سفر](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/1de9/live/7490e8e0-e7b7-11ef-a819-277e390a7a08.png)
ہر سال درجنوں افراد مر جاتے ہیں
پاناما سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر روڈریک وبائی امراض کے ماہر ہیں۔ جب وہ اس عارضی کلینک پر پہنچے تو انھیں لگا کہ وہ خود اس صورتحال کو سنبھال سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ میں کون سی نئی چیزیں دیکھوں گا لیکن پھر وینزویلا کے ایک تارک وطن نے روتے ہوئے اس سے ایسی بات کہہ دی کہ کوئی بھی سن کر کانپ اٹھے۔‘
اس شخص کا کہنا تھا کہ وہ تارکین وطن کے اس گروپ کا حصہ تھا جو کولمبیا اور پاناما کے درمیان سرحد پر ایک پہاڑی پر چڑھ رہا تھا۔ اسی لمحے ایک ہیٹی عورت نیچے گر گئیں۔
ان کے مطابق جب خاتون کے شوہر نے دیکھا کہ وہ مر چکی ہیں تو اس نے اپنے ایک بچے کو وادی میں پھینک دیا۔
اس کا خیال تھا کہ یہ ہیٹی شخص دوسرے بچے کو بھی پھینک دے گا، اس لیے اس نے باپ کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی کہ وہ دوسرے بچے کو نہ پھینکے۔ پھر بھی اس نے دوسرے بچے کو بھی پھینک دیا۔
اس کے بعد ہیٹی کا آدمی بھی خودکشی کے لیے وادی میں کود گیا۔
بی بی سی آزادانہ طور پر اس دعوے کی سچائی کی توثیق نہیں کر سکا لیکن بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ہر سال درجنوں افراد ڈیرین گیپ عبور کرتے ہوئے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
![ننگے پاؤں](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/8970/live/e0092ba0-e7bc-11ef-a819-277e390a7a08.png)
زہریلے پانی سے نکلنے کا راستہ
ڈاکٹر ولیمز کا کہنا ہے کہ وہ اس کلینک میں صرف انتہائی بنیادی نوعیت کا علاج فراہم کر سکتے تھے۔ جب بیماری کی تشخیص کے لیے کوئی اوزار نہیں تھے تو صرف درد کش دوائیں دینا پڑتی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس بارے میں بہت کم تفصیلات معلومات ہیں کہ تارکین وطن کے ساتھ کیا ہوا۔
تاہم وینزویلا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سوریز کا کہنا ہے کہ ان کے ملک سے آنے والے مہاجرین کو یہاں بس عارضی علاج ہی دیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ برس ہیٹی باشندوں کی سب سے بڑی تعداد ڈیرین گیپ سے گزری تھی جبکہ اس بار بڑی تعداد میں وینزویلا سے گزر رہے ہیں۔
وینزویلا میں معاشی بحران کی وجہ سے بہت سے لوگ روزی کمانے کے لیے ملک چھوڑ کر دوسرے جنوبی امریکی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران نافذ کیے گئے سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے تارکین وطن اور بھی مشکل میں پڑ گئے۔ انھیں اپنی نئی جگہ پر روزگار نہیں مل سکا، اس لیے اب وہ شمالی امریکہ رخ کر رہے ہیں۔
![کیمنپ](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/0d9f/live/f43e0d70-e7bc-11ef-a819-277e390a7a08.png)
ڈاکٹر سوریز نے وینزویلا کے ایک مریض کا علاج کیا اور اس کی ٹانگ پر سرخ دانے نکل آئے۔ یہ دیکھ کر 67 سالہ ڈاکٹر حیران رہ گئے کیونکہ انھیں نے بچپن میں وینزویلا میں اپنے گاؤں میں ایسے ہی واقعات دیکھے تھے۔
اس مریض کے بعد 20 دیگر افراد بھی ایسی ہی علامات کے ساتھ آئے جن میں پیروں پر سرخ دھبے بھی شامل تھے۔ یہ بیماری پانی سے ہونے والے انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس بیماری میں مریض کو شدید خارش ہوتی ہے۔ جیسے جیسے خارش بڑھ جاتی ہے، جلد پھٹ جاتی ہے، جس سے بیکٹیریل انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر روزیلا اوبانڈو نے دیکھا کہ بالغ افراد کی بیماری سے بچے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ جب ہم نے ان تارکین وطن سے بات کی تو اس کی وجہ معلوم ہوئی۔
مرد جب جنگل میں ندیوں اور نالوں سے گزرتے ہیں تو انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو انفکشن نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ کندھوں پر تھے اور انھوں نے چل کر نالے عبور نہیں کیے۔
ان جنگلات سے گزرتے ہوئے صاف پانی کا حصول انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اگر آپ پانی نہیں پیتے ہیں تو آپ کو پانی کی کمی ہونے لگتی ہے اور اگر آپ یہ آلودہ پانی پیتے ہیں تو آپ کو پیٹ کی سنگین بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔
![دریا](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/b3f1/live/1440c900-e7bd-11ef-ae7d-97b156abf29f.png)
’دریا میں گرا دیا‘
ہر ڈاکٹر کو کسی نہ کسی مریض سے ایسی کہانی سننی پڑتی ہے جو انھیں ہلا کر رکھ دیتی تھی۔
ماہر حیاتیات یاملکا ڈیاز کا کہنا ہے کہ انھوں نے ڈیلیشیا سے ملاقات کے بعد ڈیرین گیپ کے علاقے میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس جنگل کے بیچوں بیچ انھیں یہ پانچ سالہ بچی ملی جو اپنی مردہ ماں کے پاس بیٹھی رو رہی تھیں۔
وہ ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں پر تحقیق کرنے کے لیے یہاں ایک انسٹیٹیوٹ میں کام کرتے ہیں۔ یہاں خون کے نمونے جمع کیے جاتے ہیں اور تحقیق کی جاتی ہے۔ وہ بچی کو ڈیلیشیا کے جنگل سے اپنے ادارے میں لے آئے۔
ڈاکٹر یاملکا ڈیاز نے ڈیلیشیا سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ہوا۔ ڈیلیشیا نے صرف اتنا کہا کہ اس کا خاندان ’ڈوب گیا‘۔
ڈاکٹر ڈیاز کا کہنا ہے کہ اس چھوٹی بچی کی دیکھ بھال نے ان کی زندگی بدل دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دنیا اب آپ کو مختلف لگتی ہے۔‘
جب ڈاکٹر نے ایک مریض کے پاؤں میں فنگس کی نشاندہی کی تو ساتھ ہی انھوں نے اسے پہننے کے لیے اپنے جوتے دیے اور خود کلینک سے ننگے پاؤں گھر چلے گئے۔