شیر افضل مروت: مشکل وقت میں تحریک انصاف کا چہرہ بننے والے سابق سول جج، جو مشکل وقت میں ہی پارٹی سے نکال دیے گئے

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سینیئر پارٹی رہنما اور رُکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ اس ضمن میں بدھ کی رات تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکریڑی جنرل فردوس شمیم نقوی کے دستخط سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا ہے کہ پارٹی سے نکالے جانے سے قبل شیر افضل مروت کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سینیئر پارٹی رہنما اور رُکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ اس ضمن میں بدھ کی رات تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکریڑی جنرل فردوس شمیم نقوی کے دستخط سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا ہے کہ پارٹی سے نکالے جانے سے قبل شیر افضل مروت کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق شوکاز نوٹس اور شیر افضل مروت کی جانب سے اس پر دیے گئے جواب کو مدنظر رکھتے ہوئے اور بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ہدایات پر شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالا جاتا ہے۔

اور یوں سنہ 2017 میں تحریک انصاف کا حصہ بننے والے شیر افضل مروت کا لگ بھگ آٹھ برس بعد تحریک انصاف سے تعلق، فی الوقت، ختم ہو گیا ہے۔

تحریک انصاف کی جانب سے اس نوٹیفیکیشن کے اجراکے بعد ’ایکس‘ پر ردعمل دیتے ہوئے شیر افضل مروت نے مختصراً لکھا کہ ’عمران خان میرا لیڈر تھا، ہے، اور رہے گا۔‘

تاہم اس نوٹیفیکیشن کے اجرا سے قبل شیر افضل مروت نے اپنے پارٹی سے نکالے جانے سے متعلق خدشات کا اظہار ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کے ذریعے کیا تھا۔

انھوں نے لکھا کہ ’مجھے اپنی پارٹی کے لوگوں نے بار بار بدنام کیا ہے، اگر مجھے نکالا گیا تو میں پارٹی سے نکالے جانے کے فیصلے کا خیرمقدم کروں گا، کیونکہ میں آئے روز ہونے والی ٹرولنگ سے بیمار ہو گیا ہوں۔ میں پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے ان سازشیوں کو مناسب جواب نہیں دے سکتا۔ اگر دفاداریوں اور قربانیوں کا بدلہ اس بھیانک طریقے سے ادا کیا گیا تو کوئی بھی وفادار پی ٹی آئی اور خان صاحب کے لیے آگے آنے کی جرات نہیں کرے گا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اِن سازشیوں نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ انھوں نے خان صاحب کی افواہوں پر کان لگانے کی عادت کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ میں نے خان صاحب کو نہیں چھوڑا لیکن اگر وہ مجھے چھوڑ گئے تو میں پھر کبھی ان کے پاس نہیں جاؤں گا۔ آج ہی ختم کر دیں۔ میں دکھاؤں گا کہ آپ نے خان صاحب اور پارٹی کے ساتھ کیا کیا ہے۔ میرے پاس پاکستانیوں کے لیے بہت سے ان کہی کہانیاں ہیں۔ خان صاحب کی ہمیشہ عزت کروں گا۔ اور وہ ہمیشہ میرے لیڈر رہیں گے۔ اب سے پارٹی ڈسپلن کو اپنی جیب میں رکھیں۔‘

یاد رہے کہ شیر افضل مروت کو پارٹی کے قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کرنے اور سینیئر پارٹی رہنماؤں کے خلاف ریمارکس پاس کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

تحریک انصاف کے سابق دور میں شیر افضل مروت پارٹی کے سینیئر رہنماؤں میں شامل نہیں تھے تاہم نو مئی اور اس کے بعد پیش آئے واقعات کے بعد وہ اچانک پی ٹی آئی کا چہرہ بن کر ابھرے تھے۔

نو مئی کے بعد وہ متعدد مواقع پر گرفتار بھی ہوئے جبکہ ان کے خلاف بہت سے مقدمات بھی درج کیے گئے۔

شیر افضل مروت کے بارے میں مقبول رائے یہ ہے کہ انھوں نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد جماعت کو متحرک کرنے اور ورکز کنونشن میں بڑی تعداد میں لوگوں کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

تاہم اس دورانیے میں وہ پارٹی کے رہنماؤں اور پالیسیوں کے حوالے سے اپنی رائے کے بے باک اظہار کے باعث تنازعات کا شکار بھی رہے۔ مختلف پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ان کی سخت جملوں کے تبادلے اور بیانات بھی اسی عرصے میں میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنتے رہے ہیں۔

شیر افضل مروت نے تحریک انصاف میں سنہ 2017 میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس کے بعد سنہ 2018 کے انتخابات میں انھوں نے ضلع لکی مروت کی سطح پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت اور اُن کے لیے انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا، تاہم تب تک انھیں مرکزی سطح پر کوئی بڑا عہدہ نہیں ملا تھا۔

بی بی سی نے دسمبر 2023 میں اُن کے بھائی اور تحریک انصاف کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں سے بات کر کے شیر افضل مروت کی شخصیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔ ذیل میں وہی تحریر دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔

تقریری مقابلوں سے سول جج تک

شیر افضل مروت کے بھائی خالد لطیف نے بی بی سی سے ان کے سیاسی پسِ منظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اُن کا خاندان سیاست میں پہلے سے متحرک تھا کیونکہ اُن کے والد خود بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں اور ضلعی اور تحصیل کونسل کے چیئرمین رہے ہیں۔‘

شیر افضل کے والد محمد عظیم خان بیگوخیل لکی مروت میں امن کمیٹی میں بھی شامل رہے اور جنوری 2012 میں انتہا پسندوں کی ٹارگٹ کلنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

یاد رہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے سابقہ قبائلی علاقوں اور ان سے ملحقہ شہروں میں مقامی لوگوں پر مشتمل امن کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔

خالد خان نے بتایا کہ شیر افضل مروت پی ٹی آئی سے پہلے جمعیت علما اسلام (ف) میں شامل رہے تھے۔

شیر افضل مروت نے ابتدائی تعلیم لکی مروت کے ایک گاؤں بیگوخیل سے حاصل کی اور اس کے بعد انھیں ڈیرہ اسماعیل خان میں وینسم کالج میں داخل کروایا گیا تھا جہاں سے انھوں نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا جس کے بعد انھوں نے لکی مروت کالج سے گریجویشن کی تھی۔

ان کے بھائی کے مطابق وہ سکول کے وقت سے مختلف تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ یہ مقابلے لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقد ہوتے تھے اور اکثر انھوں نے ان مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

خالد خان نے بتایا کہ ’پشاور یونیورسٹی سے انھوں نے پہلے ایم اے ہسٹری کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد پشاور یونیورسٹی سے ہی ایم اے جرنلزم بھی کیا ہے۔

’اس دوران انگریزی اخبار بزنس ریکارڈر اور پشاور سے شائع ہونے والے اردو اخبار روزنامہ ’آج‘ سے بھی منسلک رہے۔ اس دوران انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت کی جانب آ گئے۔‘

ان کے بھائی نے بتایا کہ شیر افضل مروت نےسی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا لیکنملازمت اختیار نہیں کی تھی، جس کے بعد انھوں نے 1996 میں جوڈیشری کا امتخان پاس کیا اور سول جج تعینات ہوئے۔

سنہ 2009/10 میں جب جمعیت علما اسلام (ف) حکومت کی اتحادی تھی اور رحمت اللہ کاکڑ وفاقی وزیر ہاؤسنگ تھی تو ڈیپوٹیشن میں اسلام آباد میں ڈائریکٹر جنرل ہاؤسنگ تعینات کیا گیا تھا لیکن وہ چند ماہ ہی تعینات رہے تھے۔

اس کے بعد چونکہ اس وقت کی چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال ہو گئے تھے اور انھوں نے تمام ڈیپوٹیشن پر تعینات ججز اور لا آفیسرز کو واپس اپنے عہدوں پر آنے کا کہا جس پر شیر افضل نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

خالد خان نے بتایا کہ شیر افضل مروت سنہ 2010 میں انگلیڈ چلے گئے تھے جہاں انھوں نے قانون میں ماسٹر اور ساتھ بار ایٹ لا کی ڈگریاں حاصل کیں اور واپس آ کر وکالت کا پیشہ اختیار کر لیا تھا۔

ان کے بارے میں ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ اچھے مقرر ہونے کی وجہ سے وکالت کے شعبے میں بہت کامیاب رہے اور اسلام آباد میں اہم مقام حاصل کر لیا تھا۔

پی ٹی آئی میں شمولیت و مقبولیت

شیر افضل مروت نے جب پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو ابتدا میں تو وہ لکی مروت اور قریبی علاقوں میں جماعت کے امیدواروں کی حمایت کرتے رہے کیونکہ لکی مروت میں بیگو خیل میں ان کے حلقے میں میں ووٹرز کی اچھی تعداد ان کے ساتھ لیں۔

حالیہ مہینوں میں جب پی ٹی آئی کے قائدین پر مقدمات قائم کیے گئے تو ابتدا میں تو وہ سابق سپیکر اسد قیصر اور دیگر کے مقدمات میںپیش ہوئے اور ان کی وکالت اور طریقے کو دیکھتے ہوئے پھر وہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر قائم مقدمات کے لیے بھی بطور وکیل پیش ہوتے رہے۔

تاہم اس کے علاوہ ان کی مقبولیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب ان کی ایک ٹاک شو میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان سے لڑائی ہوئی جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے میمز وائرل ہو گئے تھے۔

سنہ 2023 میں انھیں پی ٹی آئی کا سینیئر نائب صدر مقرر کر دیا گیا تھا جبکہ ان دنوں میں وہ جماعت کے قائدین کے خلاف قائم مقدمات میں پیش ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر کافی متحرک ہو گئے تھے اور اسی دورانیے میں خیبر پختونخوا میں ورکرز کنونشن کے ذریعے انھوں نے جماعت میں ایک نئی روح ڈال دی تھی۔

’شیر افضل مروت کی جرات کو پارٹی کارکنوں نے پسند کیا‘

شیر افضل مروت کے بارے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انھوں نے نو مئی کے بعد بننے والے حالات میں بہتر حکمت عملی اور جرات کا مظاہرہ کیا۔

سینیئر صحافی اور ڈان ٹی وی کے اسلام آباد میں بیورو چیف افتخار شیرازی نے دسمبر 2023 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’شیر افضل مروت بنیادی طور پر دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت میں شامل تھے لیکن چونکہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف یا تو مقدمات قائم کیے گئے ہیں یا وہ جماعت چھوڑ رہے ہیں تو ایسے میں شیر افضل مروت سامنے آئے ہیں اور جس جرات کا مظاہرہ انھوں نے کیا، لوگوں نے اسے پسند کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ نو مئی کے واقعات کے بعد ’جہاں پی ٹی آئی کے بیشتر قائدین اس جرات کا مظاہرہ نہیں کر پائے اور چھپ کر بیٹھ گئے یا گرفتار اور کسی دباؤ کی وجہ سےپارٹی سے علیحدہ ہو گئے، وہیں شیر افضل اسلام آباد سے نوشہرہ رکاوٹیں عبور کر کے پہنچے تھے، اسی طرح باجوڑ میں جب ہر جگہ پولیس تھی تو اس وقت وہ کارکنوں کے ہمراہ پولیس کو چکمہ دے کر کنونشن کے لیے پہنچ گئے تھے اور سوشل میڈیا پر کارکنوں سے پہنچنے کا کہا تو بڑی تعداد میں ورکرز پہنچ گئے تھے اور یہ ان کی بڑی کامیابی تھی۔‘

اگرچہ مردان میں جو کنونشن ہوا تھا تو اس پر مقامی قیادت ناراض تھی کہ انھیں اعتماد میں لیے بغیر شیر افضل مردان آئے ہیں۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما ارباب شیر علی نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے واضح کیا تھا کہ کسی بھی علاقے میں کنوشنش کے لیے مقامی قیادت کو اعتماد میں لینا بہتر ہے اور اس کے لیے صوبائی صدر علی امین گنڈہ پور کو صوبائی سطح پر کردار ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔

sher
Getty Images

ماضی میں سوشل میڈیا کے ذریعے شیر افضل پر مختلف الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے کہ شیر افضل شاید اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے سب کچھ کر رہے ہیں لیکن تجزیہ کار اس سے متفق نظر نہیں آئے۔

افتخار شیرازی نے بتایا کہ جہاں تک وکالت کی بات ہے تو عمران خان اور پی ٹی آئی کے بیشتر مقدمات کی پیروی دیگر وکلا کر رہے ہیں۔شیر افضل مروت بھی اس میں شامل رہے ہیں اور کچھ مقدمات میں عمران خان کی جانب سے پیش ہوئے ہیں اور جیل میں وہ عمران خان سے ملاقات بھی کرتے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے بتایا کہ شیر افضل مروت نے میڈیا کا استعمال بھی بہتر انداز میں کیا اور صرف یہی نہیں ان کا سٹائل بھی سوشل میڈیا پر پسند کیا گیا جس وجہ سے بڑی تعداد میں عوام کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.