’طیب طاہر کی تکنیک اور پاکستانی بلے بازوں کی آزمائش‘

جب پچ میں ٹرن بہت زیادہ ہو تو بلے باز کی احتیاط کو دوش نہیں دیا جا سکتا مگر جہاں مسئلہ ہو ہی محض باؤنس کا، وہاں گھٹنا زمین پہ ٹکا کر گراؤنڈ کی سکوائر باؤنڈریز کو ہدف بنانا کوئی ایسی راکٹ سائنس تو نہیں کہ طیب طاہر کے سوا کسی کے پاس نہ ہو؟

کراچی کی سہہ پہری سمندری ہوائیں اگرچہ اپنے معمول پہ رواں تھیں مگر پاکستانی بلے بازوں پہ حبس طاری ہو چکا تھا۔ پہلے بیٹنگ کا فیصلہ محمد رضوان کے لیے الٹا پڑ گیا کہ جیت کو جاتی سبھی راہوں پہ مچل سینٹنر نے پہرے ڈال چھوڑے۔

جس خطے کے کرکٹ کلچر میں رچ کر پاکستانی بلے باز تیار ہوتے ہیں، وہاں سپن کے خلاف ’پھنسنا‘ ایک انہونی سی بات ہے۔ اور پھر ہنر مند بلے باز بھی تو وہی کہلاتے ہیں جو ہر طرح کے حالات میں کامیابی کے گُر جانتے ہوں۔

جمعے کی سہہ پہر پاکستانی بلے باز اس ہنر سے ناآشنا دکھائی دیے۔ کیوی سپنرز نے جو ڈسپلن اپنایا اور جو دوغلی رفتار اس پچ کا مزاج تھی، رنز بنانا واقعی دشوار تھا۔

سلمان آغا کو ہی لیجیے جنھوں نے پچھلے میچ میں اسی پچ کی ہمسایہ کریز پہ دھواں دھار سٹرائیک ریٹ سے سینچری بنائی تھی مگر یہاں وہ بھی مسلسل اننگز سنبھالنے کی تگ و دو میں رہ گئے۔

ایک طرف کیوی سپنرز نے رنز بنانے کے سارے اسباب دشوار کر ڈالے تو دوسری طرف ولیم اورورک کی ذہانت کو بھی کراچی کی ہواؤں کا سہارا مل گیا اور ان کی سوئنگ نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔

پاکستانی بلے بازوں کے لیے اس دلیل کی گنجائش تو بہرحال ہے کہ جو پچ پہلے ہی 280 رنز کی تھی، وہاں کیوی بولنگ ڈسپلن اور مستعد فیلڈنگ کے خلاف شاید اتنے رنز بھی نہ بن پاتے۔

مگر پھر کچھ ہی دیر بعد اسی ڈریسنگ روم سے طیب طاہر بھی کریز پہ آئے اور کمال چُستی سے رنز بنانے کے وہ سبھی کھلے راستے استعمال کرنا شروع کر دیے جو ان سے پہلے بلے بازوں نے جانے کیوں نہیں کیے تھے۔

روایت کو دیکھا جائے تو پاکستانی بلے باز ہمیشہ سپن کے خلاف مہارت دکھاتے آئے ہیں۔ حالیہ پاکستانی ڈریسنگ روم میں بھی ایسے بلے باز ہیں جو سپن کے خلاف اپنا ہنر ٹیسٹ کرکٹ لیول پہ ثابت کر چکے ہیں۔

گو مچل سینٹنر کے ہنر کی سند میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ مگر دس اوورز میں بیس رنز کے عوض دو وکٹوں کے اعداد سینٹنر کی مہارت سے کہیں بڑھ کر پاکستانی بلے بازوں کی کم ہمتی کی دلیل ہیں۔

اب یہ سوال پاکستانی ڈریسنگ روم کے اپنے اندر سے اٹھنا چاہیے کہ رنز بنانے کی جس تکنیک (کامن سینس) کا استعمال طیب طاہر نے کیا، اس میں کیا ایسی دشواری تھی جو دیگر بلے بازوں کا دھیان اس طرف نہیں گیا۔

جب پچ میں ٹرن بہت زیادہ ہو تو بلے باز کی احتیاط کو دوش نہیں دیا جا سکتا مگر جہاں مسئلہ ہو ہی محض باؤنس کا، وہاں گھٹنا زمین پہ ٹکا کر گراؤنڈ کی سکوائر باؤنڈریز کو ہدف بنانا کوئی ایسی راکٹ سائنس تو نہیں کہ طیب طاہر کے سوا کسی کے پاس نہ ہو؟

حالیہ مہینوں میں پاکستانی ون ڈے ٹیم نے توقعات سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھائی ہے۔ مگر صائم ایوب کی انجری کے بعد یہ بیٹنگ آرڈر بے یقینی سے پریشان نظر آتا ہے کہ اہم ترین ایونٹ سے پہلے اپنے سٹار بلے باز سے محروم ہو جانا واقعی ایک بڑی آزمائش ہے۔

مگر اس آزمائش سے نکلنا بھی تو انھی پاکستانی بلے بازوں کی ذمہ داری ہے جو اپنی میزبانی میں اپنے چیمپیئنز ٹائٹل کے دفاع کی توقع کر رہے ہیں۔

اگر اس ٹرائی سیریز کو پاکستان کی تیاریوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تجربہ پاکستان کے لیے کوئی خاص نوید نہیں لایا۔ جہاں بلے بازی کے کچھ جھول آشکار ہوئے ہیں، وہیں ڈیتھ اوورز کی بولنگ ایک نئی مصیبت بن کھڑی ہوئی ہے۔

حارث رؤف دنیا کے بہترین ڈیتھ بولرز میں سے ہیں اور معمولی انجری کے بعد ان کی واپسی بھی اگرچہ پاکستانی امکانات میں اضافہ کرے گی مگر شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کو بھی اپنے طریق پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ڈیتھ اوورز میں کامیابی فقط زورِ بازو کا کام نہیں۔

جہاں ٹیم سلیکشن میں پاکستانی تھنک ٹینک ابھی تک کوئی واضح اپروچ نہیں ڈھونڈ پایا، وہیں فیلڈنگ میں بڑھتی کوتاہیاں بھی ایک الگ معمہ ہیں۔ ایک اچھی فیلڈنگ سائیڈ اپنے بلے بازوں کا کام آسان کر سکتی ہے، مگر پاکستانی فیلڈنگ آج کل یہ کرنے سے بھی قاصر ہے۔

چیمپئینز ٹرافی کی شروعات سے عین پہلے یہ نتائج دفاعی چیمپئین ٹیم کے لیے خوش آئند تو نہیں مگر جو نتائج یہ ٹیم حالیہ مہینوں میں لائی ہے، اسے ایک ہار کو بھلانے میں زیادہ دقت نہیں ہونی چاہیے کہ اہم اب صرف اصل ایونٹ ہے جہاں پاکستان کو اپنی ان غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہو گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.