انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے ازدواجی معاملے کے ایک مقدمے کےفیصلے میں طلاق یافتہ خواتین کو عدالتی سماعتوں کے دوران 'ڈائی وورسی' یا مطلقہ کہہ کر پکارنا پر پابندی عائد کر دی ہے۔
![خاتون](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/aa75/live/edde69e0-eaf8-11ef-a319-fb4e7360c4ec.jpg)
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے ازدواجی معاملے کے ایک مقدمے کے فیصلے میں طلاق یافتہ خواتین کو عدالتی سماعتوں کے دوران ’ڈائی وورسی‘ یا ’مطلقہ‘ کہنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
جمعرات کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے ایک ازدواجی تنازعہ پر تین سال قبل دائر درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے طلاق یافتہ خواتین کو عدالتی سماعتوں میں 'مطلقہ' کہہ کر مخاطب کرنے کو 'بُری عادت' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'آج بھی عورت کو ایسے پُکارنا تکلیف دہ ہے۔'
مقدمے کی سماعت کرنے والے عدالتی بینچ میں شامل جسٹس ونود چٹرجی کول نے ازدواجی تنازعہ سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'آج کے دور میں بھی ایک طلاق یافتہ خاتون کو اس طرح عدالتی کاغذات میں 'ڈائی وورسی' (مطلقہ) لکھا جا رہا ہے جیسے کہ یہ اس کا سر نیم (خاندانی نام) ہو تو یہ عادت ایک بُرا عمل ہے، جس پر فوری طور پابندی لگنی چاہیے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'پھر مرد کے لیے بھی ڈائی وورسر (یعنی مطلقہ مرد) لکھا جائے حالانکہ یہ بھی ناپسندیدہ عمل ہے۔'
جسٹس کول نے فوری ہدایات جاری کرتے ہوئے تمام ذیلی عدالتوں سے سخت تاکید کی کہ ازدواجی امور ہوں یا کوئی اور معاملہ تمام درخواستوں، اپیلوں یا دوسرے عدالتی دستاویزات میں کسی بھی طلاق یافتہ خاتون کو مطلقہ پارٹی کی بجائے اس کا پورا نام لکھا جائے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ’ایسی کوئی بھی اپیل یا درخواست جس میں خاتون کو محض طلاق کی بنیاد پر مطلقہ کے طور متعارف کیا جائے گا، وہ درخواست یا اپیل مسترد کی جائے گی۔‘
اس عمل پر پابندی لگانے کے لیے تمام ذیلی عدالتوں اور متعلق اداروں کے لیے ایک مراسلہ بھی جاری کیا گیا جس میں اس فیصلےپر سختی سے عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ عدالت کے یہ ریمارکس تین سال قبل دائر ہونے والے ایک ازدواجی تنازعہ سے متعق از سر نو جائزہ کی ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے سامنے آئے ہیں۔
عدالت نے فیصلے پر ازسر نو جائزہ لینے کی درخواست دائر کرنے والے درخواست کنندہ پر خاتون کے لیے ’مطلقہ‘ کا لاحقہ استعمال کرنے پر 20 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق یہ جرمانہ ایک ماہ میں جمع کروانا ہوگا۔ اور جرمانہجمع نہ کروانے کی صورت میں 'عدالت ہر طرح کا اقدام کرنے کی مجاذ ہو گی۔'
’مجھے طلاق یافتہ کہلانے کی عادت ہو گئی ہے‘
بڈگام ضلع کی رہائشی زاہدہ حُسین (فرضی نام) اپنی سات سالہ بیٹی کے ساتھ اپنے مائیکے میں رہتی ہیں۔ تین سال پہلے ان کے خاوند نے انھیں طلاق دے دی تھی اور تب سے وہ اکثر عدالت میں سماعت کے لیے آتی ہیں۔
انھوں نے اس عدالتی فیصلے کو سراہاتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ 'مجھے تو خود کو طلاق یافتہ کہہ کر پکارنے کی عادت ہو گئی ہے۔ میں خود بھی اپنے آپ کو طلاق یافتہ کے طور متعارف کرتی تھی۔'
وہ کہتی ہیں کہ عدالت کا اس ضمن میں فیصلہ بہت اچھا اقدام ہے۔ طلاق ایک عام بات ہے، آخر ہم بھی انسان ہیں، ہماری پہچان ہے۔
زاہدہ کہتی ہیں کہ 'یہ لفظ اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ مجھے واقعی اپنی پہچان ایک مطلقہ کے بغیر کچھ نہیں دکھتی تھی۔ لیکن بیٹی بڑی ہو رہی ہے، اس پر کیا گزرتی جب اس کو معلوم ہوتا کہ طلاق کے بعد یہ ہم عورتوں کی پہچان ہی بن جاتی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ کسی کو تو خیال آیا۔'
ایسے کئی مقدمات کی عدالتوں میں پیروی کرنے والے سینئر وکیل ہبیل اقبال اس فیصلے پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ' طلاق ہمارے سماج میں ابھی بھی ایک ناپسندیدہ چیز ہے۔ یہ ایک ٹیبو ہے۔ نکاح یا طلاق ایک ذاتی مسئلہ ہے، یہ کوئی سرنیم نہیں ہے۔'
وہ کہتے ہیں کہ عدالتی کارروائیوں کے دوران خواتین کو فلاں بمقابلہ مطلقہ کہہ کر مخاطب کرنے سے کئی خواتین تناؤ کا شکار ہوتی ہیں۔
ایڈوکیٹ اقبال اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہ عدالتوں میں تمام جج اتنے حساس نہیں ہیں۔ انھیں اس معاملے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے، حکم نامے پر عمل ہوتے ہوتے برسوں لگتے ہیں، اگر اس معاملے پر ججز کے لیے کوئی آگاہی مہم ہو تو اچھا ہو گا۔'
ایک اور خاتون وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ازدواجی نوعیت کے معاملات کی سماعت کے دوران اکثر جج گھریلوں تشدد سے متعلق کہتے ہیں ارے یہ تو ہر گھر میں ہوتا ہے، چلو صُلح کرلو۔ حالانکہ یہ ریمارکس فیصلے کا حصہ نہیں ہوتے۔ اس سے ایک مائنڈ سیٹ بنتا ہےاور خواتین کا استحصال نارملائز ہو جاتا ہے۔'
’طلاق یا شادی عورت کی پہچان نہیں ہے‘
![فائل فوٹو](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/f337/live/1de44470-eaf9-11ef-a819-277e390a7a08.jpg)
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی رہنما اور رکن اسمبلی شمیمہ فردوس نے اس عدالتی فیصلے سے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'سب کو اس فیصلے کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔'
مقامی وومین کمیشن کی سابقہ سربراہ شمیمہ فردوس کا کہنا تھا کہ 'طلاق کوکشمیر میں معیوب سمجھا جاتا رہا ہے۔ عورت کو طلاق ہو جائے تو اس کی پہچان ہی طلاق یافتہ بن جاتی ہے، جیسے اُس کی کوئی ذاتی شناخت ہی نہیں۔ میں اس فیصلے کو عدالت کی طرف سے ایک ایسے مسئلے کی جانب مثبت اقدام سمجھتی ہوں جس لوگوں نے نارمل سمجھ لیا تھا، حالانکہ خواتین اس سے ذہنی تناؤ اور احساس کمتری کا شکار ہوتی تھیں۔'
اگست 2023 میں اُس وقت کے انڈیا کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرا چُود نے سپریم کورٹ کی طرف سے ایک 'ہینڈ بُک' کا اجرا کیا تھا جس میں مختلف معاملات میں عورتوں کے لیے استعمال ہونے والے القابات سے گریز کرنے کو کہا گیا تھا۔
اس ہینڈ بک میں بتایا گیا کہ تھا کہ 'مجرم مرد ہو یا عورت صرف انسان ہوتا ہے، لہذا ہم عورتوں کے لیے زنا کار، بدکردار، فاحشہ، طوائف، بدچلن، دھوکے باز، آوارہ وغیرہ کے الفاظ استعمال نہیں کرسکتے۔'
اس میں اور بھی درجنوں ایسے القابات تھے جن کے بارے میں تفصیل انڈین سپریم کورٹ نے اپنی ویب سائٹ پر درج کر رکھی ہیں۔
تاہم کشمیر کے علاوہ انڈیا کی بیشتر عدالتوں میں خواتین سے متعلق اس طرح کے فقرے استعمال کیے جاتے ہیں۔