ایران کی پاسداران انقلاب نے شام میں زیادہ گہرائی میں زیرزمین اڈوں کا ایک نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا جہاں سے ہزاروں جنگجؤوں کو ہتھیاروں کی فراہمی اور فوجی تربیت دی جاتی تھی۔

ایک کمرے میں بچا ہوا کھانا پڑا ہے اور ’بنک بیڈز‘ نظر آتے ہیں۔ یہیں فرش پر فوجیوں کی وردیاں اور رہ جانے والے ہتھیار بکھرے پڑے ہیں۔ یہ شام میں اس اڈے کے مناظر ہیں جسے بشارالاسد حکومت کے خاتمے پر جلدی میں ایران نے خالی کر دیا۔ یہ اڈہ ایران اور اس کے اتحادی گروہوں کا اہم ٹھکانا تھا۔
یہ مناظر ایک ہیجانی کیفیت کا پتا دے رہے ہیں۔ یہاں پر موجود فورسز بہت جلدی سے یہاں سے نکلیں اور اپنے پیچھے ایک دہائی کی وہ داستان چھوڑ گئیں، جسے زمین بوس ہوتے چند ہفتے لگے۔
گذشتہ دس برس کے دوران ایران شام کے سابق حکمران بشارالاسد کا بہت اہم اور قریبی اتحادی رہا۔ ایران نے شام میں فوجی مشیر تعینات کر رکھے تھے اور اس ملک میں باہر سے ملیشیا یعنی جنگجو لائے گئے اور یوں تہران نے شام کی جنگ میں بہت زیادہ اثاثے جھونکے۔
ایران کی پاسداران انقلاب نے شام میں زیادہ گہرائی میں زیرزمین اڈوں کا ایک نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا، جہاں سے ہزاروں جنگجؤوں کو ہتھیاروں کی فراہمی اور فوجی تربیت دی جاتی تھی۔
ایران کے لیے اسرائیل کے خلاف یہ نیٹ ورک ایک ’سکیورٹی بیلٹ‘ کا بھی درجہ رکھتا تھا۔
ہم ادلب میں خان شیخون کے قریب موجود ہیں۔ 8 دسمبر کو بشارالاسد حکومت کے خاتمے سے قبل یہ پاسداران انقلاب اور اس کے اتحادی گروہوں کا ایک اہم ٹھکانا تھا۔
مرکزی سڑک سے اس اڈے کی طرف جانے والا رستہ بمشکل نظر آتا ہے جو بڑے پتھروں اور ریت کے ٹیلوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ ایک پہاڑی چوٹی پر ایک ’واچ ٹاور‘ ہے جہاں سے اس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس ٹاور پر ابھی بھی ایرانی پرچم کا رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔

یہاں سے ملنے والی ایک رسید سے اس اڈے کے نام کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس پر ’جائے شہادت زاہدی‘ درج ہے، جو پاسداران انقلاب کے ایک کمانڈر سے منسوب ہے اور ان کا پورا نام محمد رضا زاہدی تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر گذشتہ برس یکم اپریل کو شام میں ایران کے سفارتخانے پر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔
اس جگہ کے لیے حالیہ دنوں میں جو چیزیں منگوائی گئی تھیں ان کی تفصیلات بھی ہمیں موصول ہوئی ہے۔ ہمیں یہاں سے جو رسیدیں ملی ہیں ان پر چاکلیٹس، چاول اور کوکنگ آئل درج تھا جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہاں آخری لمحات تک کاروبار زندگی چلتا رہا۔
اب اس اڈے کے نئے مکین سامنے آ گئے ہیں۔ ہیئت تحریر الشام کے دو اویغور جنگجو یہاں پر اب موجود رہتے ہیں۔ اس گروپ کے سربراہ احمد الشرع اب شام کے عبوری صدر بھی بن چکے ہیں۔

یہ اویغور ہمارے پاس اچانک ایک فوجی گاڑی پر آئے اور ہم سے میڈیا کے کارڈ طلب کیے۔ اس کے بعد انھوں نے ہمیں مقامی زبان میں بتایا کہ ’یہاں ایرانی تھے، جو اب یہاں سے فرار ہو چکے ہیں۔‘ ان کی زبان ترک زبان سے مماثلت رکھتی ہے۔
انھوں نے ہمیں مزید بتایا کہ ’جو کچھ بھی آپ ادھر دیکھ رہے ہیں یہ سب ایرانی چھوڑ گئے ہیں۔ یہ پیاز اور باقی کھانے پینے کی چیزیں بھی ان کی ہی چھوڑی ہوئی ہیں۔‘
صحن میں پیاز کے ڈبوں میں مزید پیاز اُگ آئے ہیں۔
یہ اڈہ سفید چٹانی پہاڑیوں میں گہری کھودی گئی سرنگوں کے اندر واقع ہے۔ کچھ کمروں میں بنک بیڈ پڑے ہیں۔ ان کمروں میں کھڑکیاں نہیں ہیں۔ ایک راہداری کا چھت ایرانی جھنڈے کے رنگ والے کپڑے سے ڈھکا ہوا ہے اور یہاں فارسی زبان میں کچھ کتب بھی ایک شیلف میں رکھی ہوئی ملی ہیں۔

یہاں سے نکلتے ہوئے ایرانی بہت سی حساس دستاویزات بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ سب فارسی زبان میں لکھی دستاویزات ہیں۔ ان دستاویزات پر جنگجوؤں کی ذاتی تفصیلات اور فوجی اہلکاروں کے کوڈز، گھروں کے پتے، بیوی اور بچوں کے نام اور ایران کے فون نمبرز تک درج ہیں۔
ان ناموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں پر موجود جنگجوؤں کا تعلق افغان بریگیڈ سے ہے۔ یہ بریگیڈ ایران نے شام میں لڑائی کے لیے بنائی تھی۔
ایران کے حمایت یافتہ گروہوں سے منسلک ذرائع نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ اس اڈے پر زیاد تعداد افغان فورسز کی تھی جن کے ساتھ ایران کے فوجی مشیر اور کمانڈرز بھی موجود تھے۔
تہران کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اس نے شام میں جہادی گروہوں کے خلاف لڑائی کے لیے یہ اڈے قائم کیے۔ اور یہ کہ ایران اہلِ تشیعہ کے لیے مقدس زیارات اور مقامات کو بھی سنی جنگجوؤں سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔

ایران نے جو نیم فوج دستے بنائے ان میں افغانستان، پاکستان اور عراق سے جنگجو شامل کیے گئے۔ اس سب کے باوجود جب فیصلہ کن لمحات آئے تو ایران اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ کچھ اڈوں کو خالی کرنے احکامات بہت تاخیر سے ملے۔
ایران کے حمایت یافتہ عراق کے ایک نیم فوجی گروپ نے مجھے بتایا کہ پیشرفت اتنی تیزی سے ہوئی کہ ہمیں صرف یہ حکم ملا کہ اپنا سفری بیگ اٹھاؤ اور چلتے بنو۔
پاسداران انقلاب کے قریبی متعدد ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں سے زیادہ تر دستے عراق کی جانب چلے گئے جبکہ کچھ کو یہ احکامات ملے کہ وہ لبنان چلے جائیں یا روسی اڈوں میں پناہ لے لیں۔ شام میں ان اڈوں کو بھی روس نے بعد میں خالی کر دیا۔
ہیئت تحریر الشام کے ایک جنگجو محمد ال رباط نے اس گروپ کو ادلب سے حلب اور شامی دارالحکومت دمشق کی طرف جاتے دیکھا۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ سوچا کہ ہمارا یہ آپریشن تقریباً ایک برس کا وقت لے گا اور اگر بہت ہوا تو پھر وہ حلب پر تین سے چھ ماہ کےعرصے میں قبضہ کر لیں گے۔
حماس کی طرف سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کے بعد سے کچھ ایسے واقعات ہوئے جو شام میں بشارالاسد حکومت کے زوال کا سبب بنے۔
اس حملے کے بعد سے اسرائیل نے پاسداران انقلاب اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف بھی فضائی حملے بڑھا دیے۔ اسی طرح ایران کے ایک اور اہم اتحادی لبنان کے حزب اللہ کے خلاف بھی اسرائیل نے جنگ چھیڑ دی اور یوں اس گروپ کے سربراہ اسرائیل کے فضائی حملے میں مارے گئے۔
35 برس کے جنگجو محمد ال رباط کا کہنا ہے کہ ایران اور حزب اللہ کے نفسیاتی طور پر ہار جانے سے ان پر زوال آیا۔ مگر اس سے زیادہ بڑا دھچکا اندر سے لگا کیونکہ بشارالاسد حکومت اور ان کے ایران سے ملحقہ اتحادیوں میں دراڑیں پیدا ہو گئیں۔
یوں ان میں فوجی تعاون کا مکمل خاتمہ اور اعتماد کا فقدان پیدا ہو گیا۔ پاسداران انقلاب سے منسلک گروپ بشارلاسد پر غداری جیسے الزامات عائد کر رہے تھے اور ان کا اس بات پر یقین تھا کہ وہ ان کے ٹھکانوں کی تفصیلات اسرائیل کے ساتھ شیئر کر رہے تھے۔
ہم جیسے ہی خان شیخون کے پاس سے گزرے تو ہم ایک ایسی سڑک پر پہنچ گئے جہاں ایرانی جھنڈے کا رنگ کیا ہوا تھا۔ یہ سڑک ایک سکول کی عمارت کی طرف جا رہی ہے جسے ایران اپنے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔

یہاں بیت الخلا کے داخلی دروازے پر ’اسرائیل مردہ باد‘ اور ’امریکہ مردہ باد‘ کے نعرے درج تھے۔ یہاں سے صاف پتا چل رہا تھا کہ یہ ہیڈکوارٹر بھی بالکل آخری وقت پر بہت مختصر نوٹس پر خالی کیا گیا تھا۔
یہاں ہمیں ایسی خفیہ دستاویزات ملیں جن پر ’انتہائی حساس‘ جیسے الفاظ درج ہیں۔
65 برس کے عبداللہ اور ان کا خاندان چند مقامی لوگوں میں شامل ہیں جو یہاں پاسداران انقلاب کے زیر قیادت گروپوں کے قریب رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ یہ مشکل عرصہ تھا۔
ان کا گھر اس ہیڈکوارٹر سے چند میٹر کی دوری پر ہی واقع ہے اور اس کے بیچ گہرے گڑھے اور خاردار تاریں ہیں۔ ان کے مطابق ’رات کو یہاں باہر نکلنا منع تھا۔‘
ان کے مطابق ’ان کے پڑوسیوں کے گھر کو فوجی پوسٹ میں بدل دیا گیا تھا۔ وہ سڑک پر اپنی بندوقیں لے کر بیٹھ جاتے اور ان کا رخ سڑک کی جانب رہتا اور ہم سب کو وہ مشکوک افراد کی نظر سے دیکھتے تھے۔
ان میں سے اکثر جنگجو عربی تک نہیں بول سکتے تھے۔ یہ افغان، ایرانی اور حزب اللہ کے جنگجو تھے۔ مگر ہم ان سب کو ایرانی ہی کہتے تھے کیونکہ ایران ہی ان کی سرپرستی کر رہا تھا۔‘
عبداللہ کی اہلیہ جوريہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ’ایرانی جنجگو‘ یہاں سے چلے گئے ہیں۔ مگر انھیں ان جنگجوؤں کے یہاں سے نکلنے سے قبل کے تلخ اور پریشانی والے لمحات ابھی بھی یاد ہیں۔
ان کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ فائرنگ کے تبادلے میں نہ مارے جائیں کیونکہ ایران کے حمایت یافتہ یہ جنگجو اپنی جگہیں سنبھال رہے تھے اور لڑائی کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ مگر پھر یہ چند گھنٹوں میں ہی یہاں سے غائب ہو گئے۔
عبدو جو باقی مقامی خاندانوں کی طرح دس برس بعد یہاں لوٹ کر آئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں ایران کا قبضہ تھا۔‘ ان کا گھر بھی فوجی اڈے میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
میں نے ایران کے خلاف اس طرح کا غصہ لوگوں میں دیکھا جبکہ بہت سے شامی شہریوں سے بات چیت میں یہ معلوم ہوا کہ روس کی طرف ان کا لہجہ نرم تھا۔
میں نے محمد ال رباط سے استفسار کیا کہ ایسا کیوں ہے؟
انھوں نے بتایا کہ ’روسی تو آسمان سے بم گراتے تھے اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے فوجی اڈوں تک محدود رہتے تھے مگر ایرانی اور ان کے جنگجو زمین پر لوگوں کے درمیان موجود ہوتے تھے۔ لوگوں کو ان کی موجودگی کا احساس رہتا تھا اور بہت سے لوگ ان سے خوش نہیں تھے۔‘
یہ احساس شام کے نئے حکمرانوں کی ایران سے متعلق پالیسی سے بھی واضح ہو جاتا ہے۔
نئی حکومت نے اسرائیل کے علاوہ ایرانی شہریوں کے بھی شام میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ مگر روسی شہروں پر اس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔

شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ناراض مظاہرین نے ایران کے سفارتخانے کا بھی گھیراؤ کیا تھا جو اب تک شام میں بند پڑا ہے۔
ایرانی حکام کا شام میں ہونے والی پیشرفت پر متضاد مؤقف رہا ہے۔
ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ان ’شامی نوجوانوں‘ سے ’مزاحمت‘ کی اپیل کی جو شام میں عدم استحکام کا سبب بنے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ایران کے دفتر خارجہ نے ایک زیادہ متوازن نقطہ نظر اختیار کیا۔
اپنے بیان میں ایرانی دفتر خارجہ نے کہا کہ وہ شامی عوام کی حمایت یافتہ ہر حکومت کی پشت پناہی کریں گے۔
اپنے ایک انٹرویو میں شام کے نئے حکمران احمد الشرع نے بشارالاسد کے خلاف اپنی فتح کو ’ایرانی منصوبے‘ کے خاتمے کے طور پر بیان کیا۔ مگر تہران سے متوازن تعلقات قائم رکھنے کے امکان کو انھوں نے رد نہیں کیا۔
فی الحال ایران کو شام میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ ایران نے کئی برس لگا کر خطے میں اپنے فوجی مقاصد کے لیے جو توسیع کی تھی اب وہ ساری سرمایہ کاری ضائع ہو گئی ہے۔ میدان جنگ میں بھی اور شامی عوام کی نظر میں بھی یہ سب بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔
اب دوبارہ بات کرتے ہیں اس ایرانی اڈے کی جو اب خالی پڑا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایران کا فوجی توسیع پسندانہ منصوبہ آخری دنوں تک جاری رہا۔ اس کیمپ کے قریب کئی اور سرنگیں بھی زیر تعمیر تھیں۔ بظاہر ایک فیلڈ ہسپتال بنانے کی بھی تیاری ہو رہی تھی۔
اس کی دیواروں پر سیمنٹ ابھی بھی گیلا ہے اور رنگ بھی تازہ ہے۔
یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہاں مختصر لڑائی بھی ہوئی ہے۔ یہاں سے کچھ گولیوں کے خول اور خون میں لت پت ایک فوجی وردی بھی ملی ہے۔