کئی ملکوں کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کو سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک نمایاں خصوصیت غیر یقینی صورتحال ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دانستہ طور پر خارجی تعلقات میں ’میڈمین تھیوری‘ استعمال کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا طیارہ میونخ میں سکیورٹی کانفرنس کے لیے محو پرواز تھا۔ اس پرواز کا دورانیہ صرف ایک گھنٹہ تھا مگر ونڈ سکرین پر شگاف آنے کے باعث اس کا رُخ فوراً واپس موڑ دیا گیا۔
اور یوں امریکہ کے اعلیٰ سفارتکار، سینیئر حکام اور ساتھ موجود میڈیا ٹیم جمعرات کی رات واشنگٹن ڈی سی کے قریب اینڈریوز ایئرفورس بیس پر واپس اتر گئے۔
تاہم فضا میں ہونے والی اس ہنگامی صورتحال کے باوجود خبروں کا مرکز کچھ اور تھا۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے یورپ میں کی جانے والے اپنے ایک خطاب کے ذریعے امریکہ کے اتحادیوں کو حیران کر دیا۔ اس تقریر میں انھوں نے بعض شرائط کا خاکہ پیش کیا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ یوکرین جنگ کے خاتمے اور امن کے لیے ٹرمپ کی طرف سے روس کو دی جانے والی رعایتیں ہوں گی۔
پیٹ ہیگسیٹھ نے کہا کہ یہ خیال ’غیر حقیقی‘ ہے کہ یوکرین روس کے زیرِ قبضہ اپنی خودمختار سرزمین واپس حاصل کر سکے۔
انھوں نے نیٹو کی رکنیت کے معاملے پر یوکرین کے مطالبے کو بھی غیر حقیقت پسندانہ قرار دے دیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یورپ میں امن قائم رکھنا امریکی فوجیوں کی نہیں بلکہ یورپی فوجیوں کی ذمہ داری ہے۔
واشنگٹن میں کچھ رپبلکن ارکان نے ہیگسیٹھ کی اس تقریر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انھوں نے مذاکرات سے پہلے ہی یوکرین کے تمام تر دباؤ کو ختم کر دیا ہے۔
ان کے مطابق یہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے سامنے امریکہ کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔
سوئیڈن کے سابق وزیر اعظم کارل بلڈٹ، جو یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز نامی تھنک ٹینک کے شریک چیئرمین ہیں، نے ان پر تنقید کی اور کہا کہ ’یہ یقینی طور پر مذاکرات کے لیے ایک انوکھا طریقہ ہے کہ بات چیت شروع ہونے سے پہلے ہی بڑے پیمانے پر رعایتیں دے دی جائیں۔‘
امریکہ کے سیکریٹری آف سٹیم مارکو روبیو کو طیارے کی تکنیکی خرابی کی بنا پر واپس آنا پڑااگلے روز ہیگسیٹھ نے اپنے سخت موقف میں تھوڑی لچک ظاہر کرتے ہوئے بعض باتوں کی وضاحت کی اور کہا کہ درحقیقت تمام آپشنز اب بھی مذاکرات کی میز پر موجود ہیں تاکہ صدر ٹرمپ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی پر دباؤ ڈال سکیں۔
ہیگسیٹھ نے کہا، ’وہ (ٹرمپ) کیا کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور کس سے روکتے ہیں، یہ سب صدر ٹرمپ کے دائرہ اختیار میں ہے۔‘
ہیگسیٹھ نے روس کو غیر ضروری رعایت دینے کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ صرف ’حقیقت پسندی کی نشاندہی‘ کر رہے تھے۔
اور یہاں مارکو روبیو کا دوبارہ ذکر ضروری ہے جنھیں طیارے کی خرابی کے باعث میونخ پہنچنے میں دیر ہوئی۔ اس وقت میونخ میں حکام کی جانب سے اس دورے کی ترجیحات کے بارے میں بریفنگ دی جا رہی تھی۔
امریکی حکام نے کہا کہ امریکہ ’منصفانہ اور دیرپا امن‘ کے لیے کام کرے گا، جس میں یورپی ممالک ’سکیورٹی کا مستحکم فریم ورک‘ بنانے میں معاونت کریں گے۔
یورپی رہنما اب سوموار کے روز پیرس میں ہنگامی مذاکرات کے لیے ملاقات کریں گے تاکہ یوکرین کے کسی بھی امن معاہدے میں ان ممالک کی مکمل طور پرشمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
امریکی وزیر خارجہ کو جو موقف پیش کرنا تھا اس میں یوکرین کے لیے کوئی ایسی حد مقرر کرنے کے آثار نہیں تھے جن کا اعلان وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے کیا تھا۔
دوسری جانب جرمنی میں ہی نائب صدر جے ڈی وینس کا یہ بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ امریکہ روس کو کسی معاہدے پر مجبور کرنے کے لیے ’فوجی دباؤ کے ذرائع‘ استعمال کر سکتا ہے۔
یہ بیان پیٹ ہیگستھ کے اس بیان سے متصادم دکھائی دیتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ امریکی فوجی یوکرین میں تعینات نہیں کیے جائیں گے۔
ہیگسیٹھ کی تقریر اور اس کے اثرات سے متعلق اوول آفس میں صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا گیا۔ ساتھ ہی ایک رپبلکن سینیٹر کا تبصرہ بھی ٹرمپ کو بتایا گیا جس میں سینیٹر نے اسے ’بچگانہ غلطی‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ کسی پوتن حامی تجزیہ کار کا لکھا سکرپٹ ہے۔
تو کیا ٹرمپ کو علم تھا کہ ہیگستھ کیا کہنے والے ہیں؟ صدر ٹرمپ کے مطابق ’عمومی طور پر، ہاں، عمومی طور پر مجھے معلوم تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں پیٹ سے بات کروں گا، میں معلوم کرتا ہوں۔‘
پیٹ ہیگستھ جنھوں نے روس کو اہم رعایتیں دیتے ہوئے ریپبلکنز میں بھی سوالات اٹھائےتین دن تک جاری رہنے والی اس پیش رفت سے پہلی بار کچھ اہم اشارے سامنے آئے جن کے مطابق صدر ٹرمپ اپنی صدارت کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ یعنی روس کا یوکرین پر مکمل حملہ اور جنگ ختم کرنے کے اپنے وعدے پر کس طرح کا مؤقف اختیار کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان کی انتظامیہ کس طرح اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دے رہی ہیں اور ان کا پیغام پہنچا رہی ہیں۔
ہیگسیٹھ کی تقریراور اس کے ساتھ ہی یوکرین کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی پوتن کے ساتھ ایک بظاہر خوشگوار فون کال کے بارے میں طویل بیان نے یورپی دارالحکومتوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ گو کہ ہیگسیٹھ نے بعد میں اپنی بات بدلنے کی کوشش ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے امریکی قیادت میں روس کے ساتھ ہونے والے ممکنہ معاہدے کے بارے میں کہا کہ ’ جلد بازی میں کی گئی کوئی بھی ڈیل ایک غلط فیصلہ ہو گا۔‘ جس سے ممکنہ طور پر یوکرین سائیڈ لائن ہو سکتا ہے۔
پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے تحت امریکی خارجہ پالیسی کو کیسے پیش کیا جا رہا ہے۔ میونخ میں جو کچھ ہوا، وہ جزوی طور پر ٹرمپ کے سینیئر حکام کی جانب سے ان کے مؤقف کی وضاحت اور ترسیل کی کوشش محسوس ہوتی تھی لیکن اس کوشش کے نتیجے میں بعض اوقات دھماکہ خیز اور اکثر متضاد بیانات سامنے آئےجن میں سے کچھ میں ترمیم کی گئی تو بعض کو واپس لے لیا گیا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ایک نئی لیکن غیر مربوط انتظامیہ کا نتیجہ ہے جو اب بھی داخلی طور پر اپنی سمت کا تعین کرنے اور اسے واضح کرنے کوشش میں ہے۔
ایک جانب حکومتی وزیر اس قسم کی بیان بازی کر رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے ابہام اور پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں، اس کے برعکس ایک بات دکھائی دے رہی ہے کہ وہ اپنے صدر کے آخری الفاظ کو ہی نہ صرف ترجیح دیں گے بلکہ انھی کے وفادار رہیں گے۔
ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں ان اعلیٰ عہدیداروں کی برطرفی یا استعفوں کا سلسلہ جاری رہا جنھوں نے ان سے اختلاف کیا تھا جن میں تین قومی سلامتی کے مشیر، دو وزیر دفاع اور ایک وزیر خارجہ شامل تھے۔
اس بار ان کی تقرریوں کو وفاداری کا مظاہرہ کرنے اور صدر کے بات ماننے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ پیٹ ہیگسیٹھ، جن کے پاس فوج یا حکومت یا ایجنسی چلانے کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں تھا، فاکس نیوز کے ویک اینڈ پریزینٹر اور نیشنل گارڈ کے سابق میجر تھے جو ٹرمپ کی سوچ اور ایجنڈے سے مضبوطی سے مطابقت رکھتے ہیں۔
ان کی تقرری کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی توثیق کے عمل کے ذریعے تین ریپبلکن سینیٹروں نے ان کے خلاف ووٹ دیا جس کے نتیجے میں نتائج برابر ہوگئے اور جے ڈی وینس نے اتحاد کو ختم کرنے والا ووٹ ڈالا۔
ان باتوں سے قطع نظر یوکرین کے فوجی اگلے مورچوں پر روسی فوجیوں کو روکنےمیں مصروف ہیںجیسا کہ ٹرمپ گذشتہ ہفتے اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اس خیال سے متفق ہیں کہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کو مذاکرات سے باہر رکھا جائے کیونکہ یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔
ہیگسیٹھ کے تبصرے صدر کے موقف سے زیادہ مختلف نہیں تھے بلکہ وہ اسے ایسے سامعین کے لیے مزید واضح طور پر پیش کر رہے تھے جو یوکرین کی مذاکراتی پوزیشن کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔
متاثرہ فریقین اور دنیا کے کئی ملکوں کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کو سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک نمایاں خصوصیت غیر یقینی صورتحال ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دانستہ طور پر خارجی تعلقات میں ’میڈمین تھیوری‘ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ پالیسی اکثر سابق رپبلکن صدر رچرڈ نکسن سے منسوب کی جاتی ہے۔
اس نظریے کے مطابق طاقتور لیکن غیر متوقع رویہ اتحادیوں کو قریب رکھتا ہے اور مخالفین پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ اس تاثر کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ ٹرمپ کے اپنے حکام بعض اوقات حد سے باہر جاتے ہیں لیکن وہ پھر بھی ٹرمپ کے عمومی طور پر معروف موقف کی حدود میں رہتے ہیں۔
تاہم جیسا کہ اس حکمت عملی کے نام سے ظاہر ہے یہ پہلے ہی ایک پرتشدد اور غیر مستحکم دنیا میں سنگین غلطیوں یا غلط حساب کتاب کے خطرات بھی رکھتی ہے۔
اسی طرح ٹرمپ کی غزہ کے لیے حالیہ تجاویز، جس میں فلسطینی آبادی کو وہاں سے نکال کر اسے مشرق وسطیٰ کی رویرا‘ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شامل ہے، الجھن اور تضادات سے بھرپور تھیں۔
ان کے حکام نے کچھ وضاحت کرنے کی تو کوشش کی جیسے کہ یہ صرف ’عارضی نقل مکانی‘ ہوگی لیکن بعد میں ٹرمپ نے اس پر زور دیا کہ یہ درحقیقت مستقل ہوگی اور واپسی کا کوئی حق نہیں دیا جائے گا۔
جہاں تک روبیو کا تعلق ہے وہ چاہتے ہیں کہ محکمہ خارجہ ٹرمپ کے فیصلوں میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا ادارہ ہو اورمیونخ میں ان کے ساتھیوں کے بیانات پہلے ہی ان کے اپنے بیانات پر حاوی ہو چکے تھے۔
ان کا چھوٹا متبادل طیارہ بالآخر یورپ پہنچا۔ اس بار ونڈ سکرین محفوظ تھی، لیکن جہاز پر میڈیا ٹیم موجود نہیں تھی۔ جبکہ زیادہ تر سرخیاں بھی کچھ اور کہانیاں سنا رہی تھیں۔