پرتعیش ولاز میں چھپے میزائل، دھماکہ خیز کمبل اور خفیہ پروازیں: اسرائیل سے مقابلے کے لیے ایران نے شام کے راستے اسلحہ کیسے بھجوایا؟

لبنان کے آپریشن میں حصہ لینے والے اسرائیلی فوجیوں میں سے ایک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بچوں کے کمرے میں داخل ہوئے اور ایک دیوار دیکھی جس کو توڑا گیا تو پیچھے ہتھیاروں کا ذخیرہ ملا۔‘ اس ذخیرے میں روسی ساختہ ہتھیار موجود تھے جو گزشتہ سال نومبر میں جنوبی لبنان کے ایک گاؤں کے ایک دو منزلہ ولا سے دریافت ہوئے تھے۔ موسم خزاں میں اسرائیلی فوج نے اس علاقے میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کے خلاف آپریشن کیا تھا۔

یکم اکتوبر 2024 کی تاریخ ہے۔ روس کے سرکاری میڈیا نیٹ ورک پر ایک غیر معمولی ویڈیو دکھائی جاتی ہے۔ یہ شام کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے جو 2015 میں روسی فوج کا اہم اڈہ بن گیا تھا۔

کیمرے سے فلمائے گئے مناظر میں ایک بوئنگ طیارے کو لینڈ کرتے دیکھا جا سکتا ہے جس پر ایرانی ایئر لائن کا لوگو بھی نظر آتا ہے۔

عملہ جہاز کے اندر سے بڑی تعداد میں بیگ نکالتا ہے جہاں ایسے افراد نظر آتے ہیں جن کے یونیفارم پر روسی ملٹری پولیس کی علامت ہے۔

کیمروں کے سامنے تھیلے دکھائی دیتے ہیں جن میں سبز رنگ کے کمبل بھرے ہوئے ہیں۔ چند دن بعد شام میں ایک غیر سرکاری تنظیم اعلان کرتی ہے کہ روس نے بے گھر افراد کے لیے امداد فراہم کی ہے۔

’دھماکہ خیز کمبل‘

لیکن دو دن بعد ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے جو کئی عرب اور مغربی ذرائع ابلاغ بتاتے ہیں۔

تین اکتوبر کو خبروں کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے شام میں روسی حمیمیم ایئربیس کو نشانہ بنایا۔ انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار کے مطابق اس حملے کے بعد شائع ہونے والی تصاویر میں نہ صرف آگ بلکہ ثانوی دھماکے بھی واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے۔

ہمیمم میں روسی اڈے کی صورت حال سے واقف بی بی سی کو ذرائع نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سب جانتے ہیں کہ یہ کمبل بہت اچھی طرح سے پھٹتے ہیں۔‘

اسلحہ
BBC

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایران روسی افواج کے ذریعے ہتھیار یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز بھیج رہا ہے، تو انھوں نے جواب دیا کہ ’آپ کو کس قسم کے ردعمل کی توقع ہے؟ کمبل اس طرح پھٹے کہ اڈہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔‘

واضح رہے کہ روس اور ایران شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اپنا اثرورسوخ کھو رہے ہیں، ایک ایسا ملک جو مشرق وسطیٰ میں ان کے لیے بہت اہم ہے۔

اس رپورٹ میں بی بی سی نے بشار الاسد کے دور میں شام کے ذریعے خفیہ ہتھیاروں کی ترسیل اور اس سلسلے میں ایران اور روس کے درمیان تعاون کا جائزہ لیا ہے۔

ایراںی فارس قشم ایئرلائن اور پاسداران انقلاب

ایرانی فارس قشم ایئرلائن امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کام کرتی ہے۔ ہوا بازی کے ایک ماہر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’یہ کمپنی ظاہری طور پر نجی ہے لیکن درحقیقت آئی آر جی سی یعنی پاسداران انقلاب اس کی مالک ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ایران میں بہت سی کمپنیاں جو سرکاری طور پر پرائیویٹ سمجھی جاتی ہیں دراصل سرکاری ملکیت ہیں۔

’عام طور پر، فارس قشم ایئر کمپنی کی کارروائیاں تہران کے امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے کی جاتی ہیں اور تمام فوجی سامان تہران کے مہر آباد بین الاقوامی ہوائی اڈے سے بھیجا یا وصول کیا جاتا ہے۔ مہرآباد کے راستے روس یا دوسرے ممالک سے کوئی بین الاقوامی کھیپ بھیجی یا وصول نہیں کی جا سکتی، نہ کمبل اور نہ ہی کوئی انسانی امداد، صرف مکمل طور پر ایرانی فوجی کھیپ۔‘

2018 میں، فاکس نیوز نے پہلی بار مبینہ طور پر لبنان میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کو ہتھیار پہنچانے میں فارس قشم ایئر لائنز کے ممکنہ ملوث ہونے کی خبر دی تھی۔

نیٹ ورک نے مغربی انٹیلیجنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ایران غیرروایتی راستے استعمال کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، تہران سے دمشق کے لیے پرواز کرنے والے فارس قشم طیاروں میں سے ایک نے شمالی لبنان کے ذریعے غیرروایتی راستہ اختیار کیا۔

انٹیلیجنس رپورٹس نے عندیہ دیا کہ یہ طیارہ ہتھیاروں کے پرزے لے کر جا رہا تھا۔ ایک اور پرواز، جو تہران سے براہ راست بیروت جانی تھی، نے بھی شمالی شام کے اوپر سے غیر روایتی راستہ اختیار کیا۔

جیسا کہ فاکس نیوز نے رپورٹ کیا، فارس قشم ایئر لائنز، جو کہ پاسداران انقلاب سے وابستہ ہے، 2013 میں بند کر دی گئی تھی لیکن 2017 میں اس نے دوبارہ کام شروع کیا۔ ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اطلاع دی کہ کمپنی کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور آئی آر جی سی کے نمائندے اس میں کام کرتے ہیں۔

فارس قشم ایئر لائنز اور پاسداران انقلاب کے درمیان رابطے نے مغربی مبصرین کی توجہ مبذول کرائی۔ 2019 میں، کمپنی کے دونوں کارگو طیاروں کو امریکی پابندیوں کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

فارس قشم کے پاس دو بوئنگ کارگو طیارے ہیں جن میں سے ایک پچھلے تین سال سے نہیں اڑا۔ دوسرا طیارہ - جس میں انسانی امداد کا سامان تھا - نے 2024 میں چار بار شام کے شہر لطاکیہ کے لیے اڑان بھری۔ اس کی آخری پرواز 13 اکتوبر کو ہوئی تھی۔

مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر نکیتا سمگین نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’فارس قشم کمپنی کا معاملہ کوئی انوکھا نہیں۔ بہت سی ایرانی کمپنیاں مغربی پابندیوں کی زد میں ہیں اور ان میں سے بہت سی کمپنیاں کسی نہ کسی طریقے سے فوجی امور میں استعمال ہوتی رہی ہیں۔‘

سمگین نے کہا کہ ’یہ سمجھ میں آتا ہے کہ روس نے ایرانیوں کو اپنا ہوائی اڈہ استعمال کرنے کی اجازت دی کیونکہ بصورت دیگر اسرائیل ہمیشہ ان پر حملہ کر سکتا ہے۔‘ ان کے مطابق ایران کے پاس لاجسٹک کوریڈور یعنی زمینی راستہ بھی تھا جس پر اسرائیل باقاعدگی سے حملہ کرتا تھا لیکن زیادہ تر کھیپ شام اور لبنان جاتی تھی اور یہ روسی اڈوں کے ذریعے نہیں کیا جاتا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر ایران کبھی کبھار حمیمیم بیس کو ٹرانزٹ پوائنٹ کے طور پر استعمال کرتا ہے، تو یہ ’کم اہم چیزوں کے لیے‘ تھا اور زمینی لاجسٹکس کوریڈور اور سمندری نقل و حمل کی صلاحیتیں زیادہ اہم تھیں۔ سمگین نے کہا کہ ’ایران اب تقریباً سب کچھ کھو چکا ہے۔‘

خفیہ پروازیں

ایران کے مرکزی ہوائی اڈوں کے علاوہ، فارس قشم کمپنی سے تعلق رکھنے والا طیارہ، رجسٹریشن نمبر EP-FAB کے ساتھ بوئنگ 747-281F کئی بار افریقہ کے لیے بھی پرواز کر چکا ہے، بشمول اریٹیریا (جہاں یہ اپنے ٹریکر سے اترا تھا) اور پورٹ سوڈان کے۔

اریٹیریا پر 30 سال سے زیادہ عرصے سے آمر صدر یسائیاس افورکی کی حکمرانی رہی ہے اور سوڈان پر 2019 کی بغاوت کے بعد سے عبدالفتاح عبدالرحمن البرہان کی سربراہی میں عبوری فوجی کونسل کی حکومت ہے۔

دونوں ممالک کے روس کے ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی کے معاہدے ہیں۔ 2017 میں، خرطوم کی کل اسلحہ کی درآمدات کا تقریباً نصف روس سے آیا اور بحیرہ احمر میں روسی بحری جہازوں کے لیے ایک بحری اڈہ قائم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے، جس میں جوہری طاقت سے چلنے والے جہاز بھی شامل تھے۔

یوکرین پر روس کے حملے کے آغاز میں، اریٹیریا نے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جس میں ڈونیٹسک اور لوہانسک ریپبلک پر حملے اور ان کے الحاق کی مذمت کی گئی تھی۔ سوڈان نے اس قرارداد میں حصہ نہیں لیا۔

اسرائیلی فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل سریت زہاوی، جو ملٹری انٹیلیجنس میں مہارت رکھتے ہیں اور اب اسرائیلی ریسرچ سینٹر الما کے بانی اور سربراہ ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے پہلی بار 2023 کے اوائل میں حمیمیم ایئر بیس پر کچھ ایرانی طیاروں کی موجودگی کو دیکھا اور یہ طیارے پورے خطے میں ہتھیار لے جانے کے لیے جانے جاتے تھے۔‘

زہاوی نے کہا کہ ’اسرائیل نے دمشق اور حلب سمیت شام کے دیگر ہوائی اڈوں پر حملہ کیا تھا، اس لیے یہ طیارے وہاں نہیں اتر سکتے تھے، اس لیے انھوں نے ایک متبادل تلاش کیا۔‘

ان کے مطابق، الما سینٹر نے 2023 میں حمیمیم پر ایرانی طیاروں کی لینڈنگ کا سراغ لگایا تھا، کہ ایرانی اس اڈے کو ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، اور یہ کہ روسی ان کا بالواسطہ دفاعی کور ہوں گے۔

’جب ہم نے یوکرین میں ایرانی ڈرونز کو دیکھا تو ہم فوراً حیران ہوئے کہ روس ان کی قیمت کیسے ادا کرے گا۔ پہلی بات جو میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ یہ معاہدہ شام کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔‘

الما سینٹر کے سربراہ نے مزید کہا کہ ’ایران کو بنیادی طور پر روسیوں کے ساتھ اڈے کا اشتراک کرکے (اسرائیلی حملوں سے‘ ایک قسم کا استثنیٰ حاصل کرنے کی امید تھی، ایک امید جو بالآخر پوری نہیں ہوئی۔‘

زہاوی نہیں جانتے کہ آیا روس معاہدے کی شرائط کے تحت ایرانی طیاروں کو اسرائیلی حملوں سے بچانے کا بھی پابند تھا یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل شام میں روس پر حملہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔‘

’وہ برسوں سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں کہ شام پر اسرائیلی حملوں میں روسیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘

ان کے بقول اسرائیلی فوج اور روسی مسلح افواج کے پاس اس مقصد کے لیے ایک خصوصی مواصلاتی چینل ہے اور یہ حقیقت کہ اب تک اسرائیلی حملوں میں روسیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ چینل صحیح طریقے سے کام کر رہا ہے۔

زہاوی یہ واضح نہیں کر سکے کہ ایران کے اسلحے کی کتنی فیصد کھیپ حمیمیم کے ذریعے منتقل کی گئی لیکن یہ راستہ واحد آپشن نہیں تھا۔

ایران نے شام اور لبنان کی سرحد کے ذریعے بھی ہتھیار بھیجے۔ گزشتہ اکتوبر کے اوائل میں اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس نے شام اور لبنان کی سرحد پر تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر لمبی ایک سرنگ کو تباہ کر دیا جو اس کے بقول حزب اللہ کو ہتھیاروں کی منتقلی کے لیے استعمال کی جا رہی تھی۔

زہاوی نے کہا کہ ’ہتھیاروں کی فراہمی کے میدان میں ایران اور روس کا تعاون کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ بات نئی ہے کہ روس اب ایران سے ہتھیار خرید رہا ہے۔‘ ان کا خیال ہے کہ مالیاتی مسائل کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئے۔

ایران، روس، چین، شمالی کوریا، شام، اور وینزویلا (پابندیوں کے زیر اثر ممالک) ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہیں اور پابندیوں سے بچنے کے لیے متبادل اقتصادی نظام بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

ایران اور اس کے حامی گروہوں، جیسا کہ لبنان کی حزب اللہ، نے شام کی خانہ جنگی کے دوران اسد حکومت کی حمایت کی۔ اسد حکومت ایران کی سرپرستی میں بننے والے ’مزاحمتی محور‘ کے اہم کھلاڑیوں میں سے ایک تھی۔

کھلونے اور بکتر شکن میزائل

فرش تھیلوں، بکسوں اور کھلونوں سے بھرا ہوا ہے، جیسے کسی نے اچانک گھر چھوڑ دیا ہو۔ تصویر میں ایک فوجی پیلے رنگ کی گڑیا کے ساتھ کھڑا ہے جو زمین پر پڑی ہے۔ کیمرہ پھر کمرے کے کونے میں ٹوٹی ہوئی دیوار دکھاتا ہے۔ یہ ویڈیو اسرائیلی فوج کے پریس آفس نے 3 نومبر 2024 کو جاری کی تھی۔

لبنان کے آپریشن میں حصہ لینے والے اسرائیلی فوجیوں میں سے ایک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بچوں کے کمرے میں داخل ہوئے اور ایک دیوار دیکھی جس کو توڑا گیا تو پیچھے ہتھیاروں کا ذخیرہ ملا۔‘

انھوں نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ اس ذخیرے میں روسی ساختہ ہتھیار موجود تھے جو گزشتہ سال نومبر میں جنوبی لبنان کے ایک گاؤں کے ایک دو منزلہ ولا سے دریافت ہوئے تھے۔ موسم خزاں میں اسرائیلی فوج نے اس علاقے میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کے خلاف آپریشن کیا تھا۔

اس آپریشن میں حصہ لینے والے اسرائیلی فوجی نے اپنے تجربے کو یوں بیان کیا کہ ’یہ ایک عام گاؤں تھا۔‘ وہ حزب اللہ کی پسپائی کے بعد اس علاقے میں داخل ہوئے لیکن اس بظاہر غریب گاؤں میں انھیں نسبتاً پرتعیش گھر نظر آئے۔

دو اور تین منزلہ پتھر کے مکان جن میں گیراج اور بعض میں زیر زمین سوئمنگ پول بھی تھے۔ جنوبی لبنان کے دیہات میں اسرائیلی فوج کو گولہ بارود کے ساتھ 10-15 سال پرانی کلاشنکوف اور بھاری روسی ہتھیار بھی ملے، مثال کے طور پر، کورنیٹ اینٹی ٹینک میزائل سسٹم۔

بی بی سی سے بات کرنے والے ذرائع کا خیال ہے کہ ان گھروں کے مالکان کا حزب اللہ سے تعلق تھا: ’اس گروپ کے رہنما حسن نصر اللہ کی تصاویر، جو ستمبر 2024 میں مارے گئے تھے، ان کے گھروں میں لٹکی ہوئی تھیں۔‘

اسرائیلی فوجیوں نے مجموعی طور پر 15 سے 20 کورنیٹ میزائلوں کے علاوہ بارودی سرنگیں، دستی بم، آر پی جی راکٹ، گولہ بارود برآمد کیا۔

انھوں نے کہا کہ یہ گولہ بارود شہروں پر حملہ کرنے کے لیے ہے نہ کہ اسرائیلی فوج کے ساتھ براہ راست جھڑپوں کے لیے۔ ’ہر گھر میں پانچ سے چھ افراد کے گروپ کو مسلح کرنے کے لیے ہتھیار موجود تھے۔‘

بی بی سی ذرائع کے مطابق، اسرائیلی فوجی دستوں کو کورنیٹ میزائل کا لانچر نہیں ملا لیکن تصاویر کے مطابق، پسپا ہونے والے عسکریت پسند اس کا ڈبہ پیچھے چھوڑ گئے تھے (بی بی سی نے برآمد کیے گئے ہتھیاروں کی تصاویر میں شناختی نمبر کے ساتھ ایک باکس دیکھا)۔

بی بی سی کو دستیاب آپریشن کے نتائج کی دیگر تصاویر کے مطابق، اسرائیلی فوج کو دو قسم کے کورنیٹ میزائل ملے: وہ میزائل جو اینٹی آرمر وار ہیڈ اور دھماکہ خیز میزائلوں سے لیس ہیں۔ پہلی قسم بنیادی طور پر بکتر بند اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسے ٹینک جو بنیادی وارہیڈ بکتر کو چھیدتا ہے اور سیکنڈری وار ہیڈ ٹینک کے اندر پھٹ جاتا ہے۔ دوسری قسم عام طور پر دشمن کی پیادہ فوج کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ دونوں قسم کے میزائلوں کی رینج 5500 میٹر تک ہے۔

بی بی سی کے ذرائع نے بتایا کہ ’ان دیہات سے اسرائیلی شہروں کا براہ راست فاصلہ تین کلومیٹر تک ہے۔‘

ان کے مطابق حزب اللہ نے ان ہتھیاروں کو ترک کر دیا کیونکہ توجہ مبذول کیے بغیر انھیں منتقل کرنا ممکن نہیں تھا۔ کورنیٹ میزائل کا وزن 29 کلو گرام ہوتا ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ یہ ہتھیار کار کے ذریعے شام سے لبنان منتقل کیے گئے تھے۔

بی بی سی کے ذرائع کو یقین ہے کہ یہ ہتھیار بالکل نئے تھے۔ میزائلوں کو گھروں کے اندر عارضی سٹوریج میں محفوظ کیا گیا تھا اور نائیلان کے کور میں بند کر دیا گیا تھا، جس پر نمی کی نشاندہی کرنے والے لیبل بھی موجود تھے۔ ڈبوں پر روسی اور عربی زبان میں استعمال کی ہدایات بھی درج تھیں۔

بی بی سی کے ذریعے نے کہا کہ ’ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہدایات (عربی میں) اسرائیلی فوجیوں اور ٹینکوں کی تصاویر کے ساتھ استعمال کا طریقہ بتاتی ہیں۔ انھوں نے تصویروں کے ساتھ بتایا ہے کہ کیسے مارا جائے۔‘

کورنیٹ میزائل کی ترسیل کے راستے

بی بی سی کے ذرائع کا قیاس ہے کہ یہ ہتھیار شام سے لبنان پہنچے۔ اس مفروضے کو تقویت دینے والی وجوہات میں سے ایک ان گھروں میں شامی رقم کی موجودگی ہے جہاں اسرائیلی فوج کو ہتھیاروں کے ذخیرے ملے تھے۔

بی بی سی کے ذریعے کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ انھوں نے رقم چھوڑ دی کیونکہ اس کی کوئی اہیمت نہیں۔‘ ایک امریکی ڈالر 13,000 شامی پاؤنڈ کا ہے۔

بی بی سی کے ذریعہ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں جو ہتھیار ملے ہیں ان پر اسلحہ کمپنی 'Rosoboronexport' کی مہر لگی ہوئی تھی، یعنی وہ کسی سرکاری ادارے کو فروخت کیے گئے تھے۔‘

اس صورتحال میں سب سے پہلا آپشن جو ذہن میں آتا ہے وہ ہے شامی فوج، یعنی اسد کی افواج۔ ’جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اس فوج کے شامی حزب اللہ سے قریبی تعلقات ہیں، جو خود لبنانی حزب اللہ سے قریبی تعلقات رکھتی ہے۔‘

ایک مغربی انٹیلیجنس اہلکار کا یہ بھی خیال ہے کہ لبنان میں اسرائیلی فوج کے دریافت کردہ روسی ہتھیاروں کی اکثریت شام کی قومی فوج کے ذریعے ملک میں منتقل کی گئی تھی۔ انھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی کیونکہ وہ سرکاری طور پر میڈیا پر تبصرہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔

وال سٹریٹ جرنل نے اس سے قبل گمنام ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی تھی کہ جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے دریافت کردہ کچھ ہتھیار - بشمول 2020 میں تیار کیے گئے کورنیٹ میزائل - شام میں روسی گوداموں سے لبنان منتقل کیے گئے تھے۔

اس خبر میں دعوی کیا گیا کہ جنوبی لبنان میں اس آپریشن سے قبل اسرائیلی فوج کی کمان کا خیال تھا کہ حزب اللہ کے پاس صرف پرانے سوویت ہتھیار ہیں لیکن بعد میں یہ پتہ چلا کہ شام کے گوداموں سے حاصل کیے گئے ہتھیاروں نے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی حزب اللہ کی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کیا۔

کورنیٹ میزائل کو حزب اللہ کے ہتھیاروں میں سب سے موثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے اور اسے اسرائیلی فوجیوں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 8 اکتوبر 2023 سے لے کر نومبر 2024 کے اواخر میں اسرائیل اور لبنانی حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہونے تک، شمالی محاذ پر اسرائیلی فوج کے 80 سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے۔

جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں میں سے ایک حزب اللہ کی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہیں کہ ’شمالی محاذ پر آپریشن کے آغاز میں، ہمارے فوجیوں نے (جنوبی لبنان) میں پیش قدمی کی، انھوں (حزب اللہ فورسز) نے آر پی جیز (RPGs) سے فائرنگ کی، ہماری افواج نے اس وقت تک کارروائی جاری رکھی جب تک کہ وہ حملہ آوروں کو باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔‘

ان کے مطابق حزب اللہ عام طور پر اسرائیلی فوج کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔

حزب اللہ کو روسی ہتھیاروں کی ترسیل کے الزامات سب سے پہلے 2005 کے آخر میں اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کے اس وقت کے سربراہ نے لگائے تھے۔

ایک انٹرویو میں، انھوں نے اعلان کیا تھا کہ حزب اللہ روسی گرینیڈ لانچر اور سوویت ساختہ راکٹ استعمال کرتی ہے۔ اسرائیلی انٹیلیجنس نے اس وقت یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ یہ ہتھیار شام کے راستے حزب اللہ تک پہنچے ہیں جو اس سے قبل روس سے خریدے گئے تھے۔

روسی کورنیٹ میزائل 2000 کی دہائی کے اوائل سے حزب اللہ کے استعمال میں ہیں۔ گروپ نے ان ٹینک شکن ہتھیاروں کو 2006 کی جنگ اور جنوبی لبنان میں تنازعات کے دوران استعمال کیا۔

تاہم ماسکو نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔ اس وقت کے روسی وزیر دفاع سرگئی ایوانوف نے حزب اللہ کے روسی کورنیٹ میزائلوں کے استعمال کے بارے میں اسرائیل کے دعوے کو ’گمراہ کن‘ قرار دیا۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ ’بین الاقوامی قانون کے مطابق ہتھیاروں کی کوئی بھی ڈیل تیسرے فریق کو آلات کی منتقلی پر پابندی عائد کرتی ہے۔‘

سنہ 2013 میں حزب اللہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ میں اسرائیلی ٹینکوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کورنیٹ میزائل شام سے اس گروپ کے ہاتھ میں آئے تھے۔

اگلے برسوں میں، حزب اللہ اور حماس نے کئی بار اسرائیلی اہداف کے خلاف ٹینک شکن میزائل سسٹم کا استعمال کیا۔ بشمول 2011 میں، جب فلسطینی عسکریت پسندوں نے ایک سکول بس پر ٹینک شکن میزائل فائر کیا تھا، جس میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔

Yedioth Ahronoth اخبار نے اس وقت رپورٹ کیا تھا کہ اس وقت تل ابیب نے ماسکو کو احتجاجی نوٹ بھیجا تھا، جس میں اس بات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے یہ ہتھیار کیسے حاصل کیے، لیکن روسی حکام نے ایسی درخواست کی وصولی کی تصدیق نہیں کی۔

مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر نکیتا سمگین کا کہنا ہے کہ 2024 سے پہلے شامی فوج کبھی کبھار روسی ہتھیاروں کو لبنان منتقل کر دیتی تھی جو شامی حزب اللہ کے قبضے میں تھے۔

بقول اُن کے ’روس کا یہ ہتھیار بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن وہ اس معاملے پر آنکھیں بند کیے ہوئے تھا۔ وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہو سکتے تھے کہ ان میں سے کچھ ہتھیار دوسروں کے ہاتھ میں جا رہے ہیں لیکن وہ یا تو اسے روکنے کے لیے تیار نہیں تھے یا اس سے قاصر تھے۔‘

سمگین کا خیال ہے کہ یہ ہتھیار زیادہ مقدار میں منتقل نہیں کیے گئے تھے اور یہ کہ شامی فوج نے شاید خود ہی یہ حزب اللہ کو دے دیے تھے جبکہ روس نے اس عمل کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

سمگین کے مطابق 2022 سے پہلے اسرائیل کی حساسیت روس کے لیے اس قدر اہم تھی کہ یہ ملک حزب اللہ کو کھلے عام ہتھیار فراہم نہیں کر سکتا تھا۔ ’اس گروہ کو جو کچھ برداشت کرنا پڑا وہ یا تو غفلت کی وجہ سے تھا یا پھر غیر متوقع طور پر پیدا ہونے والے حالات کے نتیجے میں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بعد میں، صورت حال بدل گئی اور اسرائیل کے ردعمل پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ روس نے براہ راست حزب اللہ کو ہتھیار فراہم کیے ہیں۔‘

’بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ روس ایسی کارروائی کرے گا لیکن میں نے اس کا کوئی نشان نہیں دیکھا۔‘

حزب اللہ شامی فوج کے اہم اتحادیوں میں سے ایک تھی اور شام میں روسی افواج کے ساتھ مل کر کام کرتی تھی لیکن گزشتہ سال اس گروپ کی پوزیشن بری طرح کمزور ہو گئی تھی اور اسرائیلی حملوں کی وجہ سے اسے لبنان میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ حزب اللہ کا کمزور ہونا بشار الاسد حکومت کے زوال کے عوامل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

نکیتا سمگین کہتی ہیں کہ ’اسلحے کا ایک بڑا حصہ جو شامی حکومت کے قبضے میں تھا، اب تباہ ہو چکا ہے۔‘

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے شامی ہتھیاروں کے ڈپو کو بھی نشانہ بنایا۔ اسرائیلی حکام نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے شام کے 80 فیصد ہتھیاروں کو تباہ کر دیا۔

الیا بارابانوف کے تعاون سے۔ روسی حکومت نے اناستازیا لوتاریوا اور الیا بارابانوف کو ’غیر ملکی ایجنٹوں‘ کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ بی بی سی نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.