ایلون مسک کے محکمے کا ایسا دعویٰ جسے انڈین اپنی ’بے عزتی‘ اور ’انتخابی عمل میں مداخلت‘ کہہ رہے ہیں

انڈیا میں انتخابی عمل پر امریکہ کی ارب پتی شخصیت اور صدر ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک کے محکمے کی جانب سے دعوے نے ایک بڑا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ اس دعوے کے مطابق امریکی حکومت نے انڈیا میں ’ووٹر ٹرن آؤٹ کو بڑھانے‘ کے لیے 21 ملین (تقریباً 182 کروڑ روپے) مختص کیے تھے۔
ایلون مسک، مودی
Getty Images

انڈیا میں انتخابی عمل پر امریکہ کی ارب پتی شخصیت اور صدر ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک کے محکمے کی جانب سے ایک حالیہ دعوے نے ایک بڑا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ اس دعوے کے مطابق امریکی حکومت نے انڈیا میں ’ووٹر ٹرن آؤٹ کو بڑھانے‘ کے لیے 21 ملین (تقریباً 182 کروڑ روپے) مختص کیے تھے۔

ایلون مسک کے محکمے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (Doge) نے 16 فروری 2025 کو 15 نکات پر مشتمل جو فہرست پیش کی اس میں’انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ‘ کی مد میں 21 ملین ڈالر کا ذکر کیا گيا، جسے اب منسوخ کر دیا گیا ہے۔

ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (Doge) کے مطابق کئی ایسے منصوبے منسوخ کر دیے گئے ہیں جن کا مقصد امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالروں سے دنیا بھر میں کسی نہ کسی مقصد کو آگے بڑھانا تھا۔

واضح رہے کہ یہ اخراجات یو ایس ایڈ کے تحت ہوتے تھے جن کا مقصد امریکہ کے قومی مفاد کے لیے دوسرے ممالک کو امداد فراہم کرنا رہا ہے۔

بہرحال ایلون مسک کے محکمے نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ادائیگیاں کب کی گئیں اور آیا یہ مئی 2024 میں ہونے والے انڈیا کے عام انتخابات کے دوران استعمال ہوئیں۔

’بیرونی مداخلت‘

ایلون مسک کے محکمے کی جانب سے اس دعوے کے بعد انڈیا کے سوشل میڈیا پر جہاں انتخابی عمل میں ’بیرونی مداخلت‘ کی بات ہو رہی ہے تو کوئی اسے انڈیا کی ’بے عزتی‘ قرار دے رہا ہے۔

لوگ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ پیشرفت انڈین وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے فوراً بعد ہوئی۔

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے انڈیا کے انتخابی عمل میں ’بیرونی مداخلت‘ قرار دیا۔ بی جے پی کے قومی ترجمان اور آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ووٹر ٹرن آؤٹ کے لیے 21 ملین ڈالر؟ یہ یقینی طور پر انڈیا کے انتخابی عمل میں بیرونی مداخلت ہے۔ اس سے فائدہ کس کو ہو گا؟ یقینی طور پر حکمران جماعت کو نہیں۔‘

امت مالویہ نے مزید الزام لگایا کہ یہ غیر ملکی قوتوں کے ذریعہ انڈین اداروں میں ’منظم دراندازی‘ ہے۔

اس کے جواب میں انڈیا میں کانگریس کے ترجمان اور میڈیا اور پبلیسٹی کے چيئرمین پون کھیڑا نے لکھا کہ ’کوئی انھیں بتائے کہ 2012 میں جب انڈین الیکشن کمیشن (ای سی آئی) کو مبینہ طور پر یو ایس ایڈ سے یہ فنڈنگ ملی تو حکمران جماعت کانگریس تھی۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اس حساب سے کیا حکمران جماعت (کانگریس) نام نہاد ’بیرونی مداخلت‘ حاصل کر کے اپنے ہی انتخابی امکانات کو سبوتاژ کر رہی تھی اور یہ کہ کیا اپوزیشن (بی جے پی) نے 2014 کے انتخابات یوایس ایڈ کی وجہ سے جیتے تھے؟‘

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی سابق وزیر اعلی اور بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے بھی اس متعلق ایک پریس نوٹ میں تشویش کا اظہار کیا۔

انڈین خبررساں ادارے پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے لکھنؤ میں پارٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس نوٹ میں کہا کہ ’امریکہ سے آنے والی خبریں کافی چونکا دینے والی ہیں کیونکہ مبینہ طور پر انڈیا میں ووٹنگ میں اضافے کے نام پر 21 ملین ڈالر کی بڑی رقم فراہم کی گئی۔ ملک کے لوگوں کو محتاط رہنا چاہیے اور سوال کرنا چاہیے کہ آیا یہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مداخلت ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔‘

ایک صارف بھاویکا کپور نے لکھا کہ ’انتہائی حیرت والی بات ہے کہ اب تک امریکہ انڈین انتخابی نظام میں مداخلت کر رہا تھا، تقریباً 200 کروڑ روپے سالانہ خرچ کرتا تھا۔ انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھانے کی کوششوں کو فنڈ کر رہا تھا۔ ایلون مسک نے اب اس فنڈنگ کو روک دیا لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فنڈنگ کہاں جا رہی تھی؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ انڈین جمہوریت میں براہ راست مداخلت کر رہا ہے؟‘

یو ایس ایڈ
Getty Images

’رپورٹ میں کوئی حقیقت نہیں‘

انڈین وزیراعظم مودی کے اکنامک فورم کے مشیروں میں سے ایک سنجیو سانیال نے اس کے متعلق متعدد ٹویٹس کی ہیں اور انھوں نے نیوز چینلز سے بھی اس متعلق بات کی۔

یوایس ایڈ کو ’دنیا کی سب سے بڑی سکیم‘ قرار دیتے ہوئے سنجیو سانیال نے کہا کہ ’جو لوگ انڈین انتخابات میں یو ایس ایڈ کی مداخلت کے بارے میں فکر مند ہیں انھیں انڈیا کے طبی نظام اور سماجی پالیسیوں میں بھی یو ایس ایڈ کے بارے میں اتنا ہی فکر مند ہونا چاہیے۔ یو ایس ایڈ نے مؤثر طریقے سے انڈیا کے قومی خاندانی صحت سروے (این ایف ایچ ایس) کو 1990 کی دہائی سے اس وقت تک چلایا جب تک کہ اسے دو سال قبل روک دیا گیا تھا۔‘

اگرچہ ایلون مسک کے محکمے نے کسی سال کا ذکر نہیں کیا لیکن انڈین میڈیا کے مطابق سنہ 2012 میں اس حوالے سے ایک ایم او یو (یاداشت) پر دستخط کیے گئے تھے۔

اس زمانے میں انڈیا کے چیف الیکشن کمشنر ڈی وائی قریشی تھے۔ انھوں نے بھی اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور ایکس پر لکھا کہ ’میڈیا کے ایک حصے میں 2012 میں ای سی آئی کے ساتھ ایک یاداشت کے بارے میں بات کی جا رہی جب میں سی ای سی (چیف الیکشن کمشنر) تھا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لیے ایک امریکی ایجنسی کی طرف سے کچھ ملین ڈالر کی فنڈنگ کے بارے میں رپورٹ میں کوئی حقیقت نہیں۔‘

انھوں نے مزید نشاندہی کی کہ سنہ 2012 میں انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹورل سسٹمز (آئی ایف ای ایس) کے ساتھ بہت سی دوسری ایجنسیوں کی طرح تربیتی سہولیات کے لیے ایک یاداشت پر دستحظ ہوئے تھے لیکن اس میں کوئی فنڈز کا وعدہ شامل نہیں تھا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.