پاکستانی ڈرامہ تن من نیل و نیل کی آخری قسط نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے، خاص طور پر اس جملے کے بعد جو ڈرامے کے آخری منظر میں آیا: ’سکھوں کا پرانا گھر مقدس مقام کیسے ثابت ہوگا؟ بعد میں سب کو پتا چل ہی جانا ہے۔ جب تک پتا چلے گا تب تک ہجوم ہمارا کام کر چکا ہوگا۔‘ یہ جملہ معاشرتی حقیقتوں کی گہری عکاسی کرتا ہے۔
ڈرامے کی کہانی میں ایک نیا موڑ اس وقت آتا ہے جب کچھ افراد توہین مذہب کے جھوٹے الزام کے تحت ایک ہجوم کو مشتعل کر دیتے ہیں۔ اور جب تک مرکزی کردار اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع پاتے، یہ مشتعل ہجوم ان کے پیچھے کلہاڑیاں اور ڈنڈے لے کر دوڑ پڑتا ہے۔ اس ساری صورت حال میں شہر کے لوگ محض تماشائی بنے رہتے ہیں، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرکزی کردار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ڈرامے کے کردار جیسے سونو، رابی، اور مون جب خوف سے کانپتے ہوئے تنگ گلیوں میں بھاگتے ہیں، تو اس میں وہ حقیقت دکھائی جاتی ہے جسے ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ان میں ہمیں مشال خان، منیب اور مغیث، پرینتھا کمارا جیسے حقیقی واقعات کی یاد آتی ہے، جہاں ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ اور یہ صرف ہم نہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر بہت سے افراد نے بھی یہی رائے دی۔
ڈرامے کی انفرادیت:
تن من نیل و نیل صرف 11 اقساط پر مشتمل تھا، جو اس دور کے روایتی ڈراموں سے بہت مختلف تھا، جو زیادہ تر ساس بہو کی سازشوں یا دراز کہانیوں پر مرکوز ہوتے ہیں۔ اس ڈرامے نے مردوں کے ریپ، ہجوم کے ہاتھوں قتل، اور معاشرتی روایات کی منفی عکاسی کی۔ ایک صارف نے کہا، "یہ ڈرامہ ہماری حقیقت کو بہترین انداز میں دکھاتا ہے، وہ حقیقت جسے ہم نہیں دیکھنا چاہتے۔"
ہجوم کی ذہنیت:
ایک اور صارف نے کہا کہ "صرف مصطفیٰ آفریدی جیسے لوگ ہی یہ حقیقت مانتے ہیں کہ ہجوم کے سامنے کوئی ہیرو نہیں ہوتا، اور کوئی بھی آپ کو بچا نہیں سکتا۔" ڈرامے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ہجوم کبھی کسی کا نہیں ہوتا؛ وہ اپنے پرائے کا فرق نہیں سمجھتا اور کبھی بھی کسی کے اپنے کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ ہجوم کی ذہنیت کا ایک شاندار منظر تھا جس میں دکھایا گیا کہ جب تک سچائی ظاہر ہوتی ہے، ہجوم پہلے ہی اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی وائرل ہیں جن میں رائٹر مصطفیٰ آفریدی آخری قسط لکھتے ہوئے روتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں
ڈرامے کا اثر:
اگر آپ نے یہ ڈرامہ ابھی تک نہیں دیکھا، تو یقیناً آپ کے لیے ایک شاندار تجربہ ہوگا۔ مصطفیٰ آفریدی کے قلم نے ان پیچیدہ اور سنگین مسائل کو اس طرح پیش کیا کہ ہر کردار ایک ایسے سچ کا آئینہ بن گیا، جسے ہم عموماً نظرانداز کرتے ہیں۔ "ہجوم سے بچنا ممکن نہیں، اور جب یہ بے قابو ہو جاتا ہے، تو اس کا نتیجہ صرف خون اور غم ہوتا ہے۔"
سچائی کی گواہی:
مشال خان کے والدین آج بھی انصاف کی منتظر ہیں، اور جڑانوالہ کے متاثرین کے لیے وہ چھت نہیں ملی جو ہجوم نے ان سے چھین لی تھی۔ اس ڈرامے نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی معاشرے میں بے ہنگم ہجوم ابھی بھی پنپ رہا ہے، اور یہ کسی بھی وقت آگ کی مانند بھڑک سکتا ہے۔
تن من نیل و نیل نے ہمیں یہ یاد دلا دیا کہ معاشرتی حقیقتیں اور انسانیت کی حقیقتیں کب بھی اپنے آپ کو ظاہر کر سکتی ہیں، اور ہمیں ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔