’ٹائٹل بچانا ہے تو پاکستان کو کھیل اٹھانا ہو گا‘

اگر پاکستان کو اپنی میزبانی میں کھیلے ایونٹ میں اپنے ہی ورلڈ ٹائٹل کے دفاع کی امید بچائے رکھنا ہے تو نہ صرف بلے بازوں کو اپنا کھیل اٹھانا ہو گا بلکہ پیسرز کو بھی اپنے ڈسپلن میں بہتری لانا ہو گی۔

پچھلے چار برس میں اگر کسی ٹیم نے سب سے زیادہ پاکستان کے دورے کیے ہیں تو وہ نیوزی لینڈ ہے۔ گو کچھ دوروں پر یہ ٹیم اپنی پوری قوت کے ساتھ بھی پاکستان آئی مگر آئی پی ایل کے دوران شیڈول میں اس نے اپنی بچی کھچی ٹیم نوآموز کھلاڑیوں کے ہمراہ بھیجی۔

اب نہ صرف یہ کہ سینیئر کیوی کھلاڑی پاکستانی کنڈیشنز کی رگ رگ سے واقف ہو چکے ہیں بلکہ نئی پود بھی انھیں اپنی ہوم کنڈیشنز کی طرح ہی جانتی ہے۔ جبھی کیویز کی پاکستان میں حالیہ کامیابیوں کا تناسب دیگر سبھی مہمان ٹیموں سے زیادہ رہا ہے۔

یوں آج سہہ پہر جو بھی حتمی کیوی الیون پاکستان کے خلاف میدان میں اترے گی اسے دیگر سبھی مہمان ٹیموں کے مقابل یہ واضح فوقیت حاصل ہو گی کہ ان کے برعکس اسے کوئی نامانوس کنڈیشنز درپیش نہیں ہوں گی۔

ٹرائی سیریز میں جو کرکٹ کیویز نے کھیلی اور اوپر تلے دو بار پاکستان کو شکست دی، اس نے یقیناً پاکستانی ڈریسنگ روم کے اعتماد میں کچھ دراڑ تو ڈالی ہو گی کہ جہاں میزبان نے مہمان کا امتحان لینے کو سست پچ بنائی اور پھنس اس کے اپنے ہی بلے باز گئے۔

پاکستانی بیٹنگ کی حالیہ مشکلات کسی حد تک قابلِ فہم بھی ہیں کہ صائم ایوب کی انجری نے کامیاب کمبینیشن کو اچھا خاصا ہلا ڈالا۔ جس بے یقین مڈل آرڈر کا بھرم صائم ایوب کی حالیہ فارم نے بچا رکھا تھا، وہ ٹرائی سیریز میں پوری طرح آشکار ہوا۔

حالانکہ اسی سیریز میں پاکستانی بیٹنگ نے اپنی تاریخ کا ریکارڈ ہدف بھی عبور کیا مگر ایک ہی دن بعد وہی مہارت مائیکل بریسویل اور مچل سینٹنر کے نظم و ضبط کے سامنے بے بس نظر آئی اور فائنل میچ گنوا بیٹھی۔

گو مسلسل 21 میچز سے سنچری نہ بنا پانا کسی بلے باز کے لیے بہت بڑی الجھن نہیں ہو گی مگر بابر اعظم کے اپنے ون ڈے کرئیر کے تناظر میں یہ بالکل انہونی سی بات ہے۔

اگرچہ وہ اس فارمیٹ میں خالی ہاتھ پھر بھی نہیں رہے اور رنز بناتے ہی رہے مگر پاکستان کی ان سے توقعات کا بوجھ یوں زیادہ ہے کہ جو مڈل آرڈر پہلے ہی غیر یقینی سے جھوجھ رہا ہے، اسے اگر اپنے مستند ترین بلے باز سے بھی کچھ تائید نہ ملے گی تو اور کہاں سے ملے گی؟

بابر کی حالیہ فارم کی تہہ میں اگرچہ بیشتر اسباب آف فیلڈ معاملات اور ان کی بعض ترجیحات رہی ہیں مگر کچھ مسائل تکنیکی بھی ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے کہ اس پائے کے بلے باز کو مات کرنے کے لیے صرف ایک آدھ گگلی ہی کافی نہیں ہونی چاہیے۔

اگر میچز جتوانے میں بلے بازوں کا کردار نمایاں ہوتا ہے تو لمبے ٹورنامنٹس جتوانے میں بولرز کا کردار کلیدی ہو جاتا ہے۔

گو پاکستان کے موجودہ بولنگ ذخائر اپنے ناموں میں اس بولنگ اٹیک سے کہیں بڑے سٹار ہیں جس نے پچھلی بار پاکستان کو ٹائٹل تک پہنچایا تھا مگر ان سبھی ناموں کی حالیہ فارم متاثر کن نہیں رہی۔

ایک طرف پاکستانی سپنرز کی کارکردگی اپنے کیوی حریفوں سے کم نکلی تو دوسری طرف ڈیتھ اوورز کی بولنگ میں پیسرز نے سب کو حیران کیے رکھا۔

شاہین آفریدی نئی گیند کے ساتھ تو ہمیشہ باثمر رہے ہی ہیں، پرانی گیند پہ بھی کبھی ان کی گرفت یوں ڈھیلی نہیں رہی جیسی پچھلے تین میچز میں نظر آئی۔ دوسری جانب نسیم شاہ بھی اپنی شہرت سے انصاف نہیں کر پائے۔

ڈسپلن کے معاملے میں نسیم کو جو مہارت حاصل ہے، وہی مہارت بسا اوقات ان کی کمزوری بن جاتی ہے کہ جب سوئنگ یا سیم میسر نہ ہو پائے تو ان کی لائن و لینتھ بھانپنا کسی بھی بلے باز کے لیے مشکل نہیں رہتا۔

مگر پاکستان کے لیے نوید یہ ہے کہ حارث رؤف کی انجری نے طول نہیں پکڑا اور وہ میچ کھیلنے کو تیار ہوں گے۔ اگر ڈیتھ اوورز بولنگ میں ان کا تجربہ کام آ گیا تو محمد رضوان کی مشکلات بھی کم ہو سکتی ہیں۔

اگر پاکستان کو اپنی میزبانی میں کھیلے ایونٹ میں اپنے ہی ورلڈ ٹائٹل کے دفاع کی امید بچائے رکھنا ہے تو نہ صرف بلے بازوں کو اپنا کھیل اٹھانا ہو گا بلکہ پیسرز کو بھی اپنے ڈسپلن میں بہتری لانا ہو گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.