ہوابازی کے ماہرین کی رائے ہے کہ سخت موسمی حالات اس کی ایک وجہ ہو سکتے ہیں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ طیارے کسی چیز سے ٹکرایا ہوگا۔ ان کا خیال ہے کہ طیارے کے حفاظتی اقدامات اس قدر عمدہ تھے کہ حادثے کے باوجود لوگوں کی جانیں بچ گئیں۔
سیٹلائٹ تصویر میں ٹورنٹو میں حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کی آخری ریکارڈڈ پوزیشن دکھائی گئی ہےپیر کو ٹورنٹو میں حادثاتی لینڈنگ کرنے والے ایک طیارے کے مسافروں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا۔
جب ڈیلٹا ایئرلائن کی پرواز رن وے پر اتری تو اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ یہ طیارہ ڈرامائی انداز میں الٹ گیا اور نتیجتاً طیارے کے دم اور پر ٹوٹ پھوٹ گئے۔
اس طیارے پر سیٹ بیلٹ پہنے 80 لوگ سوار تھے جو طیارہ الٹنے پر اس میں پھنس گئے تھے مگر وہ باہر نکلنے کے لیے سامان ہٹاتے ہوئے برف میں ڈھکے رن وے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس میں واقعے میں کسی ہلاکت کی اطلاع سامنے نہیں آئی جبکہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں کہ آخر طیارہ لینڈ کرتے ہوئے کیسے الٹ گیا۔
ہوابازی کے ماہرین کی رائے ہے کہ سخت موسمی حالات اس کی ایک وجہ ہو سکتے ہیں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ طیارہ کسی چیز سے ٹکرایا ہو گا۔
ان کا خیال ہے کہ طیارے کے حفاظتی اقدامات اس قدر عمدہ تھے کہ حادثے کے باوجود لوگوں کی جانیں بچ گئیں۔
طیارہ کب حادثے کا شکار ہوا
یہ واقعہ پیر کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے کے بعد ہوا جس میں ڈیلٹا ایئر لائن کی پرواز ڈی ایل 4819 کا طیارہ سی آر جے 900 شامل تھا۔
یہ جہاز امریکی شہر منی ایپلس سے ٹورٹنو پہنچا تھا جس میں 76 مسافر اور عملے کے چار رکن تھے۔
صحافی اور امریکی سول ایوی ایشن کے لائسنس یافتہ پائلٹ ڈین رونن نے بی بی سی کو اس منظر کے حوالے سے بتایا کہ جب یہ طیارہ لینڈ ہوا تو بظاہر اس کی رن وے سے ٹکر ہوئی اور یہ کچھ فاصلے تک پھسلتا ہوا آگے گیا جس کے بعد یہ الٹ گیا۔
سیٹلائٹ تصویر میں ٹورنٹو میں حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کی آخری ریکارڈڈ پوزیشن دکھائی گئی ہے۔ اس میں یہ پوزیشن بھی دکھائی گئی جب یہ طیارہ پھسلنے کے بعد ٹورنٹو پیئرسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر الٹا پڑا تھا۔
فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لینڈنگ کے ساتھ ہی طیارے میں آگ لگ گئی تھی۔ فائر فائٹرز فوراً اسے بجھانے کے لیے مقام پر پہنچ گئے تھے۔
مسافر پیٹ کارلسن نے سی بی سی کو بتایا کہ یہ بہت ’دباؤ والا واقعہ‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ جب طیارہ زمین سے ٹکرایا تو ’کنکریٹ اور دھات‘ کی زوردار آواز گونجی تھی۔
اس طیارے پر سیٹ بیلٹ پہنے 80 لوگ سوار تھے جو طیارہ الٹنے پر اس میں پھنس گئے تھےان سمیت سیٹوں پر بیٹھے دیگر مسافر الٹ گئے تھے۔ انھیں الٹے ہوئے طیارے سے نکلنے کے لیے خود کو پہلے سیٹ بیلٹ سے آزاد کرنا تھا اور کیبن کی چھت، جو اب فرش تھی، پر رینگتے ہوئے باہر نکلنا تھا۔
طیارے پر سوار تمام 80 افراد زندہ بچ گئے۔ منگل کی صبح ڈیلٹا نے بتایا کہ 21 زخمی مسافروں کو مقامی ہسپتال لے جایا گیا۔
طیارہ کب اور کیسے الٹتا ہے؟
رونن کا خیال ہے کہ طیارے کا دائیاں پر رن وے سے یا کسی دوسری چیز سے ٹکرایا ہوگا۔ موسم کا بھی عمل دخل ہوسکتا ہے کیونکہ یہ اہم عوامل میں سے ایک ہے۔
ایئرپورٹ فائر چیف نے کہا کہ حادثے کے وقت رن وے خشک تھا۔
ایئرپورٹ حکام نے اس سے قبل کہا تھا کہ حال ہی میں شدید برفباری ہوئی تھی جو رُک گئی تھی مگر ’درجہ حرارت کم تھا اور تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔‘
سی این این کے مطابق جب طیارے نے لینڈ کیا تو ایئر ٹریفک کنٹرولرز نے پائلٹس کو بتایا کہ 61 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے ہوا چل رہی ہے اور یہ امکان ہے کہ لینڈنگ کے وقت جھٹکا لگ سکتا ہے۔
رونن کا کہنا ہے کہ پائلٹس نے بظاہر ’کریب مینوور‘ کی کوشش کی جس میں طیارے کو ہوا کے رُخ پر اڑایا جاتا ہے اور آخری لمحے پر اسے رن وے کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
سابق پائلٹ اور برطانیہ کی بکنگھم شائر نیو یونیورسٹی کے سینیئر لیکچرر مارکو شین کا کہنا تھا کہ طیارہ دائیں طرف جھکا ہوا تھا اور بظاہر اس نے ہارڈ لینڈنگ کی کوشش کی، یعنی اترتے وقت طیارہ زمین کی طرف زیادہ جھکا ہوا تھا۔
شین نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر اس کا ایک پہیہ پہلے زمین سے ٹکرایا جس کی وجہ سے شاید لینڈنگ گیئر کو نقصان پہنچا ہوگا۔ شاید اسی وجہ سے دائیاں پر رن وے سے ٹکرایا اور طیارہ الٹ گیا۔
بی بی سی ویریفائی نے طیارے اور ایئرٹریفک کنٹرول کے درمیان رابطے کی ریکارڈنگ کا جائزہ لیا ہے۔ اس دوران کسی بھی وقت یہ بات چیت نہیں ہوئی کہ لینڈّنگ میں کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے۔
شین کے ساتھ ساتھ طیارے کے حادثات کی تحقیقات کرنے والے ماہر اسمو آلٹونن نے بھی اس کی تصدیق کی۔ دونوں نےایئر ٹریفک کنٹرول اور پائلٹس کے بیچ گفتگو کی آٹو ریکارڈنگ سنی ہے۔
طیارے پر تمام مسافر بچ کیسے گئے؟
رونن نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ حیرانی کی بات ہے کیونکہ اس کے کم امکان تھے۔ انھوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ تیز رفتار ٹکر اور طیارے کے الٹنے کے باوجود اس کا ڈھانچہ صحیح سلامت رہا۔
انھوں نے طیارے میں نصب ہائی امپیکٹ 16 جی سیٹوں کی اہمیت پر بات کی جو ان کے بقول ’شدید دھچکا برداشت کرنے کی سوچ سے ڈیزائن کی گئی ہیں۔‘
کئی افراد نے ہوائی جہاز کی حفاظتی خصوصیات کو سراہا۔
سی این این کے تجزیہ کار اور سابق ایف اے اے انسپکٹر ڈیوڈ سوچی نے کہا کہ جہاز تباہ ہو گیا کیونکہ اسے ڈیزائن ہی ایسا کیا گیا تھا لیکن پروں کا جدا ہونا اس چیز کا سبب بن گیا کہ طیارے کا دھڑ ٹوٹنے سے بچ گیا۔
گریہم بریتھ ویٹ جو برطانیہ کی کرانفیلڈ یونیورسٹی میں حفاظت اور حادثات کی تحقیقات کے پروفیسر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ طیارے اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو ہوائی مسافر کسی ایسی چیز سے نہ ٹکرا جائیں جو چوٹوں کا سبب بنے۔
’سیٹ پیچھے کرنے کا انداز یا ٹرے ٹیبل کا ڈیزائن بھی اس بات کا حصہ ہے کہ ہم اس جگہ کو کیسے محفوظ بناتے ہیں جس سے مسافر نقصان سے بچ سکیں اور سیٹ بیلٹ بھی بہت اہم ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو لوگوں کو جہاز میں ٹکرانے اور اِدھر اُدھر بھینکے جانے سے بچانی ہے۔‘
فلائٹ اٹینڈنٹس کی بھی تعریف کی گئی ہے کیونکہ انھوں نے طیارے سے تمام افراد کو فوراً نکال لیا۔ ایمرجنسی عملے کو ’ہیرو‘ قرار دیا گیا کیونکہ وہ چند منٹ میں حادثے کی جگہ تک پہنچے۔
کارلسن نے کہا کہ مسافروں نے خود آپس میں بہت مؤثر طریقے سے تعاون کیا۔ ’میں نے دیکھا کہ طیارے پر موجود ہر شخص اچانک ایک دوسرے کی مدد کرنے اور تسلی دینے میں آگے آگے تھا۔‘
یہ شمالی امریکہ میں ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں چوتھا بڑا ہوائی حادثہ ہے۔ دیگر حالیہ واقعات کی تحقیقات جاری ہیں۔
29 جنوری کو واشنگٹن ڈی سی کے قریب ایک مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے درمیان تصادم کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 67 افراد اور ہیلی کاپٹر کا عملہ ہلاک ہو گئے۔
یکم فروری کو ایک میڈیکل ٹرانسپورٹیشن طیارہ جس میں چھ افراد سوار تھے، فلاڈیلفیا میں حادثے کا شکار ہوا جس میں سات افراد کی ہلاکت ہوئی۔ ایک اور شخص زمین پر ہلاک ہو گیا۔
چھ فروری کو الاسکا میں ایک چھوٹا طیارہ گرنے سے تمام 10 افراد ہلاک ہو گئے۔
یہ حادثات جنوبی کوریا میں دسمبر میں ہونے والے ایک بڑے حادثے کے بعد پیش آئے جس میں 179 افراد ہلاک ہوئے۔
ان تمام حادثات کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی سفر اب بھی بے حد محفوظ ہے اور یہ پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہو رہا ہے۔
امریکی نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کے مطابق 2024 میں امریکہ میں 257 مہلک حادثات پیش آئے جبکہ 2014 میں یہ تعداد 362 تھی۔