صدر ٹرمپ کی جانب انڈیا کو ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت سے متعلق پیشکش کو ابتدا میں ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن اب انڈین اپوزیشن اور دفاعی ماہرین اِن طیاروں کی خریداری سے متعلق سوالات کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا انڈین فضائیہ کو واقعی ان مہنگے ترین طیاروں کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟
انڈیا کا کہنا ہے کہ ایف 35 طیاروں سے متعلق امریکہ کی پیشکش صرف تجویز کے مرحلے میں ہے اور ابھی خریداری کی کوئی باقاعدہ بات نہیں ہوئی ہےدو ہفتے قبل انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے واشنگٹن میں ملاقات کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ انڈیا امریکہ سے دفاعی سودے کے تحت جنگی ساز و سامان خریدے گا اور امریکہ انڈیا کو اپنے جدید ترین جنگی طیارے ’ایف-35‘ بھی فروخت کرے گا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے اس بیان کو انڈین میڈیا میں امریکہ، انڈیا دفاعی تعلقات میں ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا لیکن اپوزیشن اور کئی دفاعی ماہرین نے صدر ٹرمپ کی ایف 35 طیاروں کی پیشکش کو امریکہ کی جانب سے دباؤ قرار دیتے ہوئے انڈین فضائیہ کے لیے اس جنگی طیارے کی افادیت کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔
یاد رہے کہ مودی کے دورہ امریکہ سے قبل انڈیا کی جانب سے اس طیارے کی خریداری کے لیے کوئی خواہش ظاہر نہیں کی گئی تھی اور دفاعی ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی یہ پیشکش بظاہر یکطرفہ ہے۔
مودی کے دورے کے اختتام پر انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’ابھی یہ پیشکش صرف تجویز کے مرحلے میں ہے۔ ابھی خریداری کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ جنگی طیاروں کی خریداری ایک طویل عمل ہوتا ہے اور کئی مراحل سے گزرنے کے بعد اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے پر یہ محض ایک تجویز ہے۔۔۔‘
یہ پیشکش براہ راست امریکہ کے صدر کی طرف سے آئی ہے اور کئی تجزیہ کاروں نے صدر ٹرمپ کے لب و لہجے سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ جیسے وہ یہ کہہ رہے ہوں کہ ’انڈیا کو یہ طیارہ خریدنا ہی ہو گا۔‘
’ایف 35‘ دنیا کا سب سے مہنگا جنگی طیارہ ہے جس کی قیمت تقریباً 80 ملین ڈالرز سے 110 ملین ڈالرز تک ہوتی ہےصدر ٹرمپ کے ایف 35 طیارے انڈیا کو دینے سے متعلق بیان کے سامنے آنے کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے مشیر اور قریبی ساتھی ایلون مسک کا ایک پرانا ٹویٹ بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’بعض بیوقوف اب بھیایف-35 جیسے پائلٹ کے ذریعے پرواز کرنے والے فائٹر جیٹ بنا رہے ہیں۔‘
نومبر 2024 کو ’ایکس‘ پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک پیغام میں ایلون مسک نے کہا تھا کہ ’کچھ امریکی جنگی ہتھیار اچھے ہیں لیکن وہ بہت مہنگے ہیں۔ برائے مہربانی تاریخ کے حد سے زیادہ مہنگے اس ایف 35 کے پروگرام کو بند کیجیے۔‘
انڈیا میں بھی اس متعلق بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ حزب اختلاف کانگریس کے رہنما رندیپ سنگھ سورجے والا نے مودی حکومت سے ایف 35 کی خریداری کے حوالے سے کئی سوالات کیے ہیں۔
انھوں نے پوچھا ہے کہ کیا ایف 35 طیاروں کی خریداری کے بارے میں انڈین فضائیہ سے کوئی رائے لی گئی ہے؟ انھوں نے مزید کہا کہ کیا وزیر اعظم مودی کو یہ نہیں بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ کے سب سے سیینئر وزیر ایلون مسک اس جنگی طیارے کو ’کباڑ‘ قرار دے چکے ہیں؟ انھوں نے وزیراعظم مودی سے یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا انھیں پتہ ہے کہ ایف 35 دنیا کا سب سے مہنگا طیارہ ہے اور ایک طیارے کی قیمت تقریباً 110 ملین ڈالر ہے؟
دوسری جانب ایف 35 طیارے بنانے والی کمپنی ’لاکہیڈ مارٹن‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’انڈیا کو ایف 35 فروخت کرنے کے بارے میں صدر ٹرمپ کے حالیہ اعلان پر ہمیں خوشی ہے۔ لاکہیڈ مارٹن دونوں حکومتوں کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے پوری طرح تیار ہے۔‘
ایف 35 طیارے کے تین ورژن ہیں۔ اے، بی اور سی۔ ایف 35 (اے) روایتی لینڈ نگ اور ٹیک آف کی صلاحیت والا طیارہ ہے اور زیادہ امکان ہے کہ خریداری کی صورت میں انڈیا کی توجہ اسی ساخت یا ورژن پر مرکوز ہو گی۔
اب تک 19 ممالک نے اس فائٹر طیارے کو امریکہ سے خریدا ہے یا خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس ممالک میں بیشتر نیٹو کے یورپی اتحادی ممالک یا اسرائیل، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا جیسے پارٹنر ممالک شامل ہیں۔
اب تک 19 ممالک نے ایف 35 فائٹر طیارے کو امریکہ سے خریدا ہے یا خریدنے کے معاہدے کیے ہیںدفاعی امور کے ماہر پروین ساہنی نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے معاملے میں ایف 35 سے متعلق تین اہم پہلو ہیں: پہلا تو یہ کہ ’ایف 35اچھا طیارہ ہے یا نہیں، یہ انڈین فضائیہ کو طے کرنا ہے۔ یہ وزیر اعظم نریندر مودی یا پرائم منسٹر آفس کو طے نہیں کرنا چاہیے۔ یہ انڈین فضائیہ کو طے کرنا ہے کہ کسی جنگ کی صورت میں یہ فائٹر طیارہ اُن کے لیے ٹھیک رہے گا یا نہیں۔‘
پروین ساہنی کے مطابق دوسری بات یہ کہ ’اگر انڈیا نے یہ طیارہ خریدا تو وہ کم تعداد میں خریدے گا کیونکہ اس کے لیے انڈیا کو ایک نئی پروڈکشن لائن کھولنی پڑے گی جس کے باعث مینٹیننس اور لاجسٹکس کے اخراجات فضائیہ کا بوجھ بہت بڑھا دیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تیسری بات یہ ہے کہ امریکہ جنگی طیاروں کے معاملے میں انڈیا کا روس اور فرانس جیسا پارٹنر نہیں ہو سکتا۔ مستقبل میں امریکہ جب چاہے گا وہ اس طیارے کے استعمال پر پابندی لگا دے گا اور اس حوالے سے انڈیا کچھ نہیں کر سکے گا۔ انڈیا اگر امریکی جہاز کو کہیں ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں وہ (امریکہ) نہیں چاہتا تو وہ اس کے استعمال سے انڈیا کو روک دے گا، سپیئر پارٹس کی سپلائی روکی جا سکتی ہے۔۔۔بنیادی طور پر اس جہاز کے استعمال کے ساتھ بہت سی شرائط منسلک ہوں گی۔‘
صدر ٹرمپ ایف 35 طیارے کے پائلٹ سے ملتے ہوئے (فائل فوٹو)دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے کہ ’ایف 35 اس وقت دنیا کا سب سے بہترین جنگی طیارہ تصور کیا جاتا ہے، مگر یہ انڈیا کے لیے کچھ زیادہ ہی جدید ہے۔ اس میں دو مسائل ہیں، ایک تو یہ بہت مہنگا ہے اور صرف ایک ایف 35 کی قیمت 80 ملین ڈالر سے لے کر 110 ملین ڈالر تک ہے جو انڈین کرنسی میں ایک ہزار کروڑ روپے سے زیادہ بنتا ہے۔ اور دوسرا اس کی ایک گھنٹے کی پرواز پر تقر یباً36 ہزار ڈالر یعنی 30 لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچ آتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’فضائیہ کے ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایف 35 اس وقت دنیا کا سب سے ایڈوانس اور سب سے زیادہ سٹیلتھ طیارہ ہے مگر انڈین ایئر فورس کے اعلی افسران بھی یہی سوچتے ہیں کہ اس کی اتنی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انڈین فضائیہ کو زیادہ تعداد میں فائٹر طیاروں کی ضرورت ہے اور ایف 35 جیسے تھوڑے سے طیاروں سے اس کی ضرورت پوری نہیں ہو گی۔‘
انڈین دفاعی ماہرین کے مطابق ابھی یہ طے نہیں ہے کہ اگر انڈیا یہ جہاز خریدتا ہے تو وہ ایک سکواڈرن لے گا یا دو، تین سکواڈرن خریدتا ہے اور اگر انڈیا ایف 35 طیارے خریدتا ہے تو انڈین فضائیہ کا بیشتر پیسہ اور وسائل اسی میں ہی صرف ہو جائیں گے کیونکہ اس طیارے کو خریدنا، آپریشنل رکھپنا اور اس کے لیے درکار انفراسٹرکچر تیار کرنا بہت ہی منہگا عمل ہو گا۔
انڈین فضائیہ اس وقت سات قسم کے طیارے استعمال کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان مختلف ساخت کے طیاروں کے لیے سات مختلف نوعیت کی سروسنگ، سپئیر پارٹس، مینٹینینس اور اوورہال کا انتظام ہونا چاہیے۔ سات مختلف جہازوں کے لیے پائلٹسکی ٹریننگ کا الگ الگ انتظام کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ایف 35 طیارے خریدے گئے تو یہ آٹھویں ساخت کا جہاز ہو گا جس کے باعث فضائیہ پر بہت حد تک دباؤ بڑھے گا اور انڈین ایئر فورس اس سےمالی طور پر اورآپریشنلی شدید دباؤ میں آئے گی۔
دفاعی ماہرین کے مطابق اگر یہ طیارہ خریدا گیا تو انڈین فضائیہ پر اخراجات کا بےتحاشہ بوجھ پڑ سکتا ہےیاد رہے کہ ایف 35 ففتھ جنریشن ایئر کرافٹ ہے اور اِس وقت انڈیا کے پاس کوئی ففتھ جنریشن جنگی طیارہ نہیں ہے۔ انڈیا کے پاس تقر یباً 42 سکواڈرن فائٹر ایئر کرافٹ ہونے چاہییں جبکہ اِس وقت اس کے پاس 29، 30 سکواڈرن ہیں یعنی کم از کم 12،13 سکواڈرن کی کمی ہے۔ انڈیا فی الحال اس کمی کو ملک میں بنے ہوئے تیجس لائٹ ایئر کرافٹ سے پورا کرنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب امریکہ اپنی ڈیفنس انڈسٹری کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کی نگاہ دیگر ممالک کے علاوہ انڈیا پر بھی ہے کیونکہ انڈیا میں فورسز کی جدید کاری کا جو عمل چل رہا ہے اس میںجنگی ساز و سامان کی کافی ضرورت ہے۔
راہل بیدی کہتے ہیں کہ ’درحقیقت صدر ٹرمپ نے انڈیا کو بتایا ہے کہ آپ ایف 35 لیں گے۔ انڈیا نے کبھی نہیں کہا کہ اسے ایف 35 خریدنے میں کوئی دلچسپی ہے۔‘
’انڈیا نے 114 جنگی جہازوں کے حصول کے لیے پانچ برس سے ایک کنٹریکٹ جاری کر رکھا ہے جس میں فرانس اور روس کے طیاروں کے ساتھ ساتھ تین امریکی جہاز بھی خریدنے جانے ہیں مگر اب تک ان کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔‘
’صرف ایف 35 فائٹر جہاز ہی نہیں بلکہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ انڈیا بحریہ کے سرویلینس جہاز ’پی 8 آئی‘ ملٹری ٹرانسپورٹ طیارے اور انفینٹری کمبیٹ وہیکل ’سٹرائکر‘ بھی خریدے۔ یہ ایک دفاعی پیکیج ہے جو انڈیا امریکہ کو دینا چاہتا ہے۔‘