آئی سی سی کی چیمپیئنز ٹرافی کے منگل کے روز ہونے والے پہلے سیمی فائنل میں انڈیا اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیمیں مدِ مقابل آئیں گی۔ اس سیمی فائنل میں جہاں کینگروز سے بہتر بیٹنگ گہرائی رکھنے والے کیویز ورون چکرورتی کی چالوں سے اسیر ہو گئے، وہاں سٹیو سمتھ کے بلے بازوں کا امتحان تو کہیں بڑھ کر ہو گا کہ کلدیپ یادیو اور رویندرا جڈیجہ بھی اننگز کا کوئی لمحہ آسان نہ ہونے دیں گے۔
جہاں کینگروز سے بہتر بیٹنگ گہرائی رکھنے والے کیویز ورون چکرورتی کی چالوں سے اسیر ہو گئے، وہاں سٹیو سمتھ کے بلے بازوں کا امتحان تو کہیں بڑھ کر ہو گایہ اعجاز روہت شرما کا ہی ہو سکتا ہے کہ جس میلے کی ساری بھاگ دوڑ انہی کے گرد گھوم رہی ہے، وہاں وہ کہتے ہیں کہ دبئی ان کی ٹیم کے لئے ہوم کنڈیشنز جیسا نہیں ہے کیونکہ انھوں نے یہاں بہت کم کرکٹ کھیلی ہے۔
جبکہ دیگر سبھی ٹیمیں اپنے گروپ میچز کے لئے تین تین شہر گھوم چکی ہیں، انڈیا کی معاشی قوت اور آئی سی سی پہ اجارہ داری کا کمال ہے کہ ٹورنامنٹ میں اپنے پہلے دن سے اپنی مہم کے آخر اس کی ٹیم دبئی میں ہی کھیلے گی۔
پچھلے برس کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھی آئی سی سی کے براڈ کاسٹرز نے انڈین مارکیٹ کا جواز دھرتے ہوئے ٹائم زون کی بنیاد پہ انڈیا کا سیمی فائنل ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی طے کر ڈالا تھا اور جہاں دیگر ٹیمیں آخر تک پیس و سپن کا توازن سلجھانے میں کھپی رہیں، وہیں روہت شرما ٹورنامنٹ کی شروعات سے بھی پہلے جانتے تھے کہ سیمی فائنل جیتنے کو گیانا میں کیسے سپنرز درکار ہوں گے۔
یہاں بھی بھلے وہ دبئی کی پچ سے اجنبیت کے دعوے کرتے رہیں، کرکٹ سمجھنے والا تو بچہ بھی جانتا ہے کہ یہاں باؤنس نام کو نہیں ہوتا اور ٹرن اس قدر ملتا ہے کہ بلے بازوں کی فارم گرتے دیر نہیں لگتی۔
نیوزی لینڈ کے خلاف گروپ میچ میں روہت شرما نے اپنی پیس بیٹری کو صرف 12 اوورز کی ہی زحمت دی جبکہ باقی ساری اننگز ان کے کل وقتی و جز وقتی سپنرز بھگتا گئے اور میچ بھی اپنے نام کر گئے۔
انڈیا کی حالیہ ٹیم میں ٹیلنٹ پول بہت گہرا ہے اور بینچ کی قوت بھی اتنی وسیع ہے کہ اہم ترین مرحلے پہ وہ اپنے ٹرمپ کارڈ ورون چکرورتی کو کام میں لا رہے ہیں اور اس کے میٹھے ثمرات بھی سمیٹ رہے ہیں۔
حالیہ فائنل فور میں انڈیا کے علاوہ کوئی ٹیم اگر سپن وسائل پہ دسترس رکھتی ہے اور اسے کھیلنے کی مہارت میں بھی دیگر ٹیموں سے ممتاز ہے تو وہ نیوزی لینڈ ہے۔ جبکہ سپن کے خلاف یہاں سب سے زیادہ دقت اگر کوئی ٹیم جھیل سکتی ہے تو وہ آسٹریلیا ہے۔
جہاں کینگروز سے بہتر بیٹنگ گہرائی رکھنے والے کیویز ورون چکرورتی کی چالوں سے اسیر ہو گئے، وہاں سٹیو سمتھ کے بلے بازوں کا امتحان تو کہیں بڑھ کر ہو گا کہ کلدیپ یادیو اور رویندرا جڈیجہ بھی اننگز کا کوئی لمحہ آسان نہ ہونے دیں گے۔
اپنے بنیادی بولنگ اٹیک سے محرومی اور انجریز کے باوجود کینگروز کی حالیہ مہم جوئی خوش قسمت رہی کہ محض ایک ہی جیت کی بنیاد پہ وہ سیمی فائنل تک پہنچ چکے ہیں جبکہ افغانستان کے بجا ارمان بھی لاہور کی بارشوں میں بہا چکے ہیں۔
یہ انڈیا کی بدقسمتی ہے کہ اپنی تمام تر کرکٹنگ صلاحیت اور کئی ایک میچ ونرز رکھنے کے باوجود اس کی ہر مہم جوئی یوں سیاسی دخل اندازی سے لبریز رہتی ہے کہ کوئی ایک جیت بھی غیر متنازعہ نہیں رہ پاتی۔گو سپن سے نمٹنے میں آسٹریلوی وسائل حوصلہ افزا نہیں، مگر پریشر میچز اور آئی سی سی ایونٹس کے حالیہ ریکارڈ میں جہاں کہیں ان کا پالا انڈیا سے پڑا ہے، فتح انہی نے پائی ہے۔ اب تو سابق آسٹریلوی کپتان ایان چیپل کے مطابق انڈیا آسٹریلیا رقابت ایشز سے بہت آگے نکل چکی ہے۔
دبئی کی کنڈیشنز کے تجربے میں تو آسٹریلیا انڈیا کا ثانی ہرگز نہیں ہو سکتا لیکن اگر آسٹریلوی مڈل آرڈر کے بڑے نام اننگز کو لمبا کھینچ پائے تو سکور بورڈ اس متوسط سے مجموعے کی طرف جا پائے گا جو یہاں مسابقت کو کافی ہو سکے۔
مگر اتنی مزاحمت بھی آسٹریلوی بلے بازوں کے ہنر کا خوب امتحان ہو گی کہ دبئی کے دھیمے باؤنس پہ انڈین سپنرز کی مشاق انگلیاں شاید ہی کسی بلے باز کو ہاتھ کھولنے کی مہلت دیں۔ سو، یہاں وہی بلے باز کام آ پائیں گے جو غیر روایتی کرکٹ شاٹس کھیلنے میں ماہر ہوں۔
یہ انڈیا کی بدقسمتی ہے کہ اپنی تمام تر کرکٹنگ صلاحیت اور کئی ایک میچ ونرز رکھنے کے باوجود اس کی ہر مہم جوئی یوں سیاسی دخل اندازی سے لبریز رہتی ہے کہ کوئی ایک جیت بھی غیر متنازعہ نہیں رہ پاتی۔
گو حالیہ آسٹریلوی الیون اپنی اصل قوت سے محروم ہے مگر وہ نام پھر بھی اسے میسر ہیں جو ڈیڑھ ہی برس پہلے احمد آباد میں ایک لاکھ سے زیادہ انڈین تماشائیوں کو خاموش کروا چکے ہیں۔اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ تکنیکی منصوبہ بندی سے سوا یہاں دباؤ زیادہ کس پہ ہو گا؟
وہی کراؤڈ جو دنیا کے ہر کونے میں انڈین ٹیم کی قوت بن کر ابھرتا ہے، وہ دبئی میں بھی موجود ہو گا اور اس کی توقعات کا دباؤ بھی روہت شرما کی الیون پہ ہی ہو گا۔ کیا ایسے میں کیا آسٹریلوی ٹیم دبئی کے اس پرجوش کراؤڈ کی زبانیں روک پائے گی؟
گو حالیہ آسٹریلوی الیون اپنی اصل قوت سے محروم ہے مگر وہ نام پھر بھی اسے میسر ہیں جو ڈیڑھ ہی برس پہلے احمد آباد میں ایک لاکھ سے زیادہ انڈین تماشائیوں کو خاموش کروا چکے ہیں۔