ڈیوڈ ملر نے بالآخر جو اننگز کھیلی، وہ اس ٹیم کے لئے کہیں زیادہ فائدہ مند ہو سکتی تھی اگر دوسرے کنارے سے بھی کوئی کیوی سپن کا بوجھ اٹھا پاتا۔
ڈیوڈ ملرتکنیک اور مہارت سے بڑھ کر، ون ڈے کرکٹ فٹنس کا کھیل ہے۔ ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ کرکٹ میں، مسلسل دھیان کا مطلوبہ دورانیہ ون ڈے سے کم ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف اننگز دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں تمام ہوتی ہے تو دوسری طرف بھی ہر دو گھنٹے بعد کھیل میں مناسب وقفہ میسر آتا ہے۔
مگر ون ڈے فارمیٹ کھلاڑی کے اعصاب کا امتحان ہے کہ جو گراؤنڈ میں اترے تو پھر کوئی چار گھنٹے نہ صرف دھیان پورا جمائے رکھنا ہو گا بلکہ جسمانی کارکردگی بھی بہترین پر برقرار رکھنا ہو گی۔
ایتھلیٹس کو اس معیار کے مسابقتی تقاضے نبھانے کے لائق صرف جسمانی فٹنس ہی کر سکتی ہے کہ جس قدر لچک بدن میں ہو گی، اتنی ہی رفتار ذہنی کارکردگی بھی پکڑے گی۔
فٹنس کے جو معیارات کیوی کرکٹ کلچر کے خمیر میں رچے ہیں، یہ انہی کا ثمر ہے کہ آئی سی سی ایونٹس کی تاریخ میں اگر کسی ٹیم نے ’سیریل سیمی فائنلسٹ‘ کا لقب پایا ہے تو وہ نیوزی لینڈ ہے جو اب ’سیریل فائنلسٹ‘ بننے کی راہ پر بھی ہے۔
ون ڈے فارمیٹ کھلاڑی کے اعصاب کا امتحان ہے کہ جو گراؤنڈ میں اترے تو پھر کوئی چار گھنٹے نہ صرف دھیان پورا جمائے رکھنا ہو گا بلکہ جسمانی کارکردگی بھی بہترین پر برقرار رکھنا ہو گیماڈرن کرکٹ میں چونکہ ڈیٹا کا عمل دخل بہت بڑھ چکا ہے تو شماریاتی اعتبار سے ہر فیلڈر کی کارکردگی جانچی جا سکتی ہے کہ اس کی کاوشیں اپنی ٹیم کو کوئی نفع دے پائیں یا پھر اسے گھاٹے میں ڈالا۔
گو دو تین اچھے فیلڈر تو ہر ٹیم کو میسر آ ہی جاتے ہیں مگر مضبوط فٹنس کلچر اور رگبی پریکٹس کے طفیل کیوی الیون کا کوئی ایک فیلڈر بھی ایسا نہیں جسے بلے باز ہلکا لے سکیں۔ یوں رنز بنانے کی جو آزادی کیوی بلے بازوں کو ملتی ہے، وہ ان کے حریفوں کو مل ہی نہیں پاتی۔
آج کل ون ڈے کرکٹ میں چلن یہی ہے کہ الیون کے تناسب میں باقاعدہ بولرز صرف چار ہی ہوتے ہیں اور دو آل راؤنڈرز کی بدولت باقی دس اوورز کا کوٹہ سنبھالا جاتا ہے۔ کیویز بھی اسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔
مگر جہاں یہ ’جگاڑ‘ دیگر ٹیموں کے عزائم کا انہدام ثابت ہوا، وہیں کیویز کے لیے یہ سونے پر سہاگہ ٹھہرا کہ جن جزوقتی بولرز کو فیلڈنگ سے گلین فلپس، ڈیرل مچل، کین ولیمسن اور ٹام لیتھم جیسے محفوظ ہاتھوں کی یقین دہانی میسر ہو تو پھر انھیں کچھ الگ سوچنے کی ضرورت کہاں رہتی ہے؟
ٹی ٹونٹی کی افراط نے بلے بازوں کی نفسیات بدل دی ہے۔ رنز کا بہاؤ ذرا رکے تو بلے باز بے چین ہو جاتے ہیں اور بند توڑنے کو وہ چال چلنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں جو ان کی قوت نہیں ہوتی، مگر حالات کا تقاضا بن چکی ہوتی ہے۔
مچل سینٹنر بھی بلے بازوں کی اسی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جوں جوں ان کے فیلڈرز بلے بازوں کو ڈاٹ بال پریشر سے محبوس کرتے جاتے ہیں، توں توں وہ گیند کی رفتار گھٹاتے جاتے ہیں۔ جیسے ہی بلے باز لمبے شاٹس کھوجتا ہے تو جھٹ سے خطاؤں کے امکان بھی امڈ آتے ہیں۔
جنوبی افریقی تھنک ٹینک سے پہلی غلطی تو ٹیم سلیکشن میں ہوئی کہ وہ اس پچ کو سمجھنے سے قاصر رہے اور سپن کا کوٹہ بڑھانے کی سبیل نہ کر پائے۔ اس پچ پر پیس کو استعمال میں لانا مصیبت کو دعوت دینے سے کم نہ تھا۔
لیکن پروٹیز نے انحصار ربادا، نگدی، یئنسن اور ملڈر پہ رکھا۔ جبکہ رچن رویندرا اور کین ولیمسن دھیرے دھیرے اننگز بڑھاتے گئے، ایڈن مارکرم بس سوچتے ہی رہ گئے کہ اس ساجھے داری کا کوئی توڑ لائیں بھی تو کہاں سے۔
جو مجموعہ کیویز پانے میں کامیاب رہے، وہ شاید 30-40 رنز کم ہو سکتا تھا اگر جنوبی افریقی بولنگ میں سپن وسائل کا وہ تناسب دستیاب ہوتا جو اس پچ پر مطلوب تھا۔ مگر غلط سلیکشن اور پھر بے نظم ڈیتھ اوور بولنگ نے مطلوبہ ہدف مسابقتی ہندسے سے بہت اوپر پہنچا دیا۔
گو چند ہی روز پہلے اسی وینیو پر آسٹریلیا نے انگلینڈ کے خلاف ایک بھاری ہدف حاصل کیا تھا مگر یہاں کیوی سپن کا معیار انگلش اٹیک سے کہیں بہتر تھا اور ایسی توقعات اٹھانا بھی خام خیالی سے کم نہ تھا۔
جو دو جنوبی افریقی بلے باز اس ہدف کے تعاقب میں کلیدی ثابت ہو سکتے تھے، وہ ڈیوڈ ملر اور ہینرخ کلاسن تھے۔ مگر ان کی کامیابی کے لیے ٹاپ آرڈر سے بھی وہ کردار مطلوب تھا جو کیویز کے لیے ولیمسن نے 40 اوورز تک کھیل کر نبھایا۔
جب کلاسن کریز پر آئے تو پچ کی رفتار سمجھنے سے پہلے ہی انھوں نے بلا چلا ڈالاجبکہ وان ڈر ڈوسن نے ٹھوس اننگز کھیلی اور سپن کے خلاف ان کی مہارت نے پروٹیز کی جیت کے امکانات کو بچائے رکھا لیکن جب ان کے بعد کلاسن کریز پر آئے تو پچ کی رفتار سمجھنے سے پہلے ہی بلا چلا ڈالا۔
ڈیوڈ ملر نے بالآخر جو اننگز کھیلی، وہ اپنے فوائد میں اس ٹیم کے لیے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی اگر دوسرے کنارے سے بھی کوئی کیوی سپن کا بوجھ اٹھا پاتا۔ مگر ناک آؤٹ میچ میں یہ توقع بھی بے ثمر رہ گئی کہ غلط ٹیم سلیکشن سے درست میچ نتائج پیدا کرنا ممکن نہیں۔