بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلٰی سردار اختر مینگل، اپنے بیٹے سردار زادہ گورگین مینگل کے ہمراہ گزشتہ آٹھ دنوں سے خضدار کی تحصیل وڈھ کے پولیس تھانے میں احتجاجاً بیٹھے ہیں۔وہ ازخود گرفتاری دینے کے لیے تھانے پہنچے تھے، تاہم پولیس نے انہیں گرفتار کرنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد سے وہ وہیں مقیم ہیں۔وڈھ پولیس تھانے کے ایس ایچ او منظور احمد نے بتایا کہ سردار اختر مینگل، ان کے بیٹے، تاجر رہنما، پارٹی عہدیداران اور قبائلی عمائدین سمیت درجنوں افراد احتجاجاً تھانے میں بیٹھے ہیں۔ سردار اختر مینگل اور ان کے بیٹے دن رات تھانے میں ہی گزار رہے ہیں۔ وہ افطاری اور سحری بھی یہی کر رہے ہیں۔سردار اختر مینگل کا مطالبہ ہے کہ حکومت وڈھ تھانے میں درج سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمات واپس لے یا انہیں اور ان کے بیٹے کو گرفتار کر کے جیل بھیجا جائے۔تاہم تھانے کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں گرفتاری کی ہدایات نہیں دیں، اس لیے انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ وہ اپنی مرضی سے تھانے میں بیٹھے ہیں۔ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمات کا فیصلہ صوبائی حکومت کے اختیار میں ہے، جبکہ اختر مینگل بضد ہیں کہ جب تک مقدمہ واپس نہیں لیا جاتا وہ احتجاج ختم نہیں کریں گے۔اخترمینگل کے احتجاج کے حق میں ان کی جماعت کے کارکنوں نے پہیہ جام ہڑتال کرتے ہوئے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اہم قومی شاہراہوں کو بند کر دیا ہے۔ تنازع کی اصل وجہ کیا ہے؟خضدار پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ وڈھ میں جاری یہ معاملہ دراصل سابق وزیراعلٰی سردار اختر جان مینگل اور ان کے مخالف سابق نگراں وزیراعلٰی میر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق الرحمان مینگل کے درمیان دیرینہ تنازع کا تسلسل ہے۔انہوں نے بتایا کہ 13 فروری کو وڈھ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے علی شیر گرگناڑی نامی شخص ہلاک جبکہ دو افراد زخمی ہوئے- مقتول کا تعلق شفیق مینگل کے گروپ سے تھا، جنہوں نے اس قتل کا الزام سردار اختر مینگل اور ان کے حامیوں پر عائد کیا۔
سردار اختر مینگل کے حامیوں نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اہم قومی شاہراہوں کو بند کر دیا ہے۔ (فوٹو: بی این پی)
اس واقعے کے خلاف شفیق مینگل کے حامیوں نے کوئٹہ کراچی این 25 شاہراہ کو کئی گھنٹوں تک بند رکھا، اور مطالبہ کیا کہ وڈھ بازار میں گشت کرنے والی نجی سکیورٹی کو ہٹایا جائے۔
اس کے بعد، ضلعی انتظامیہ نے بازار میں مسلح گارڈز رکھنے پر پابندی لگا دی، جس کے خلاف سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکنوں اوران کے حامی تاجروں نے احتجاج کیا اور بازار کئی دنوں تک بند رکھا۔ان کا مؤقف تھا کہ ’پولیس اور سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں بھی تاجروں کے اغوا، قتل اور بھتہ خوری کے واقعات ہوتے رہے ہیں، اس لیے تاجروں نے اپنی سکیورٹی کا خود بندوبست کیا جس سے بہتری آئی۔‘سردار اختر مینگل کے بیٹے گورگین مینگل نے اردونیوز سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’جرائم پیشہ عناصر کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے، اس لیے لوگوں کو سرکاری اداروں پر اعتماد نہیں۔ انہوں نے اپنی سکیورٹی کا بندوبست خود کیا لیکن اب حکومت اسے ختم کرنا چاہتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’نجی سکیورٹی کے آنے سے پہلے اور بعد میں جرائم کی شرح کا موازانہ کیا جائے۔ نجی سکیورٹی کے بعد چوروں، ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کی سرگرمیاں ختم ہو گئیں۔‘گورگین مینگل کے مطابق ’جرائم پیشہ عناصر سکیورٹی ہٹوانا چاہتے ہیں تاکہ دوبارہ عوام کو دہشت میں لا سکے۔‘ایس ایس پی خضدار جاوید زہری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وڈھ بازار میں گشت کرنے والے گارڈز دراصل خودساختہ سکیورٹی گارڈز تھے جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، اس لیے حکومت نے انہیں ہٹاکر پولیس کو تعینات کیا۔‘
سردار اختر مینگل کا مطالبہ ہے کہ حکومت سینکڑوں افراد کے خلاف درج مقدمہ واپس لے۔ (فوٹو: بی این پی)
ایس ایس پی کے بقول وڈھ پولیس کے 30 اہلکار پہلے ہی تعینات تھے، اب کوئٹہ سے بلوچستان کانسٹیبلری اور انسداد دہشت گردی فورس کے مزید 40 اہلکاروں کو بلاکر تعینات کیا جا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق ’علی شیر گرگناڑی کے قتل کے مقدمے میں نامزد مسلح گارڈ سمیت تین ملزمان کی گرفتاری کے لیے 19 فروری کو پولیس نے وڈھ بازار میں چھاپہ مارا، تو سینکڑوں افراد نے پولیس اہلکاروں کو گھیرے میں لے کر یرغمال بنالیا، ان پر لاتوں اور مکوں سے حملہ آور ہوئے، اور گرفتار ملزمان کو چھڑوا لیا۔‘اس واقعے کا مقدمہ وڈھ پولیس تھانے میں اے ایس آئی عبدالغفار کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں انسدادِ دہشت گردی اور دیگر سنگین دفعات شامل کی گئیں۔ مقدمے میں 23 دیگر افراد کے ہمراہ سردار اختر مینگل کے بیٹے گورگین مینگل کو بھی نامزد کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ یہ حملہ 550 سے 600 افراد نے ان کی اعانت پر کیا۔گورگین مینگل نے کہا کہ جب پولیس نجی سکیورٹی اہلکاروں کو گرفتار کرنے پہنچی، تو وڈھ کے عوام نے شدید احتجاج کیا۔ انتظامیہ نے پہلے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہماری سکیورٹی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، مگر اس کے باوجود 1200 بے گناہ افراد کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کر دیے گئے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس ایف آئی آر میں مرے ہوئے افراد اور کم عمر بچوں کے نام بھی شامل ہیں۔ مقدمات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ مقدمات کے اندراج کے خلاف تاجروں اور عوام نے احتجاج کیا اور کوئٹہ کراچی شاہراہ اور وڈھ بازار کو بند رکھا۔ ضلعی انتظامیہ نے مذاکرات کرکے یقین دہانی کرائی کہ تمام مقدمات کو واپس لے لیا جائے گا، جس پر احتجاج ختم کیا گیا۔گورگین مینگل کا کہنا ہے کہ ’تین ایف آئی آر منسوخ ہوئیں، چوتھی برقرار رکھی گئی تاکہ کسی بھی وقت عوام کو نشانہ بنایا جا سکے۔ جب حکومت نے اپنا وعدہ توڑا، تو ہم نے احتجاجاً پولیس سٹیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا کہ یا تو ہمیں گرفتار کرو، یا جھوٹے مقدمات ختم کرو۔‘
گورگین مینگل کا دعویٰ ہے کہ ایف آئی آر میں مرے ہوئے افراد اور کم عمر بچوں کے نام بھی شامل ہیں۔ (فوٹو: بی این پی)
بی این پی کے سابق رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ کا کہنا ہے کہ سردار اختر مینگل کا نام مقدمے میں نہیں۔ وہ اپنی ذات کے لیے نہیں، ان سینکڑوں خاندانوں کے لیے تھانے میں ایک ہفتے سے احتجاجاً بیٹھے ہیں، جنہیں بے گناہ اور بلا وجہ نامزد کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں مزید شدت لاتے ہوئے آج جمعرات کو بلوچستان کے مختلف شہروں میں کوئٹہ کو کراچی، تفتان دیگر شہروں اور صوبوں سے ملانے والی اہم قومی شاہراہوں کو احتجاجاً بند کر دیا گیا ہے۔ مطالبہ تسلیم نہیں ہوا تو آٹھ مارچ کو بی این پی کے کارکنان پورے صوبے میں تھانوں میں جاکر گرفتاریاں دیں گے۔دوسری جانب شفیق مینگل کے ترجمان اور جھالاوان عوامی پینل کے رہنماء ندیم الرحمان بلوچ نے سردار اختر مینگل کے احتجاج اور ازخود گرفتاری کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ قاتلوں کو بچانے، ضلعی انتظامیہ اور ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کے مطابق سردار اختر مینگل نے ایک مسلح جتھہ بنا رکھا ہے، جو بازار میں سکیورٹی کے نام پر گشت کرتا ہے ۔ یہی جتھہ مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اپنے مخالفین کو بازار نہیں آنے دیتا۔ندیم الرحمان نے الزام لگایا کہ ’علی شیر گرگناڑی کو بھی اسی جتھے نے قتل کرایا۔ قاتلوں کی گرفتاری اور مسلح جتھے کے خاتمے کے لیے ہم لوگوں نے سڑک پر نکل کر احتجاج کیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ میں وڈھ کی قانون کی عملداری کے نام پر پرائیوٹ ملیشیا کو ختم کرے اور سکیورٹی کا بندوبست سرکار خود سنبھال لے۔‘
یہ پہلا موقع نہیں جب دونوں با اثر مینگل خاندان آمنے سامنے آئے ہیں۔ (فوٹو: بی این پی)
گورگین مینگل کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت واقعی قانون کی بالادستی چاہتی ہے، تو پہلے ان تمام جرائم پیشہ عناصر اور ان کے سرپرستوں کو ہٹائے جو بلوچستان کو میدان جنگ بنانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم خوشی سے اپنی نجی سکیورٹی واپس بلا لیں گے۔‘
خیال رہے کہ کوئٹہ سے تقریباً 400 کلومیٹر دور کوئٹہ کراچی این 25 شاہراہ پر واقع بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا آبائی علاقہ ہے۔سردار اختر مینگل کے والد خود اور ان کے والد سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے وزیراعلٰی رہ چکے ہیں، جبکہ ان کے مخالف شفیق مینگل تحصیل ناظم، ان کے والد میر نصیر مینگل بلوچستان کے نگراں وزیراعلٰی، سینیٹر اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں جب دونوں با اثر مینگل خاندان آمنے سامنے آئے ہیں۔ 2023 میں دونوں کے حامی دو ماہ تک مورچہ زن ہوکر بھاری ہتھیاروں کا استعمال کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ٹرک ڈرائیوروں سمیت سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔اس دوران وڈھ میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی، تعلیمی ادارے، ہسپتال اور وڈھ کا بازار دو ماہ سے زائد عرصے تک مکمل بند رہا۔ جبکہ ہزاروں شہریوں نے علاقہ چھوڑ دیا۔ سیاسی و قبائلی سطح پر صلح کی کوششیں ناکام ہونے پر وفاقی و صوبائی حکومت اور آرمی چیف نے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کی۔دونوں فریق ایک دوسرے پر مسلح گروہ چلانے، اغوا، قتل، بھتہ خوری سمیت غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔