ریٹکلف نے بتایا کہ ’میں نے اپنی ملازمت کے دوسرے دن، پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ سے بات کی۔ میں نے ان کے ساتھ وہ خفیہ معلومات شیئر کیں جو ہمارے پاس تھیں، جو یہ ظاہر کرتی تھیں کہ شریف اللہ عرف جعفر افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں موجود تھا۔‘

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ ریٹکلف کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ کو پکڑنے کے لیے ’پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے کہا تھا کہ اگر وہ امریکہ اور ٹرمپ سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو انھیں اس ملزم کی گرفتاری کے معاملے کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔‘
امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کیسے امریکہ کو مطلوب شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری عمل میں آئی۔
فوکس نیوز کی اینکر نے ایک پروگرام میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف سے سوال کیا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں سنہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ کے ایبے گیٹ پر ہوئے شدت پسند حملے کے مشتبہ ملزم کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے آپ اس بارے میں کیا تفصیل بتائیں گے۔
جس پر سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے کہا کہ شدت پسندی کے اس واقعے کا مرکزی ملزم محمد شریف اللہ عرف جعفر امریکہ کی حراست میں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایف بی آئی کے سربراہ کیشپ پٹیل اور تُلسی گببئرڈ کے ساتھ میں گذشتہ رات مرکزی ملزم جعفر کو ریسیو کرنے گیا تھا۔
’جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ صدرٹرمپ کے پاس کاموں کی ایک فہرست ہے۔ ہم تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ جب میں نے بطور سی آئی اے ڈائریکٹر ذمہ داری سنبھالی تو صدر ٹرمپ نے مجھے خاص طور پر انسدادِ دہشت گردی کو ترجیح دینے اور اس حملے کے ذمہ دار افراد کو تلاش کرنے کا کام سونپا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بائیڈن انتظامیہ کے پاس اس کام کے لیے تین سال سے زیادہ کا وقت تھا، مگر وہ کسی کو تلاش نہ کر سکے اور نہ ہی کسی کو ایبی گیٹ پر مارے جانے والے 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔‘
ریٹکلف نے بتایا کہ ’میں نے اپنی ملازمت کے دوسرے دن، پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ سے بات کی۔ میں نے ان کے ساتھ وہ خفیہ معلومات شیئر کیں جو ہمارے پاس تھیں، جو یہ ظاہر کرتی تھیں کہ شریف اللہ عرف جعفر افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں موجود تھا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ امریکہ اور صدر ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو آپ کو اس معاملے کو اولین ترجیح پر رکھتے ہوئے کام کرنا ہو گا۔ لہذا ہم نے پاکستانی انٹیلیجنس کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اور شریف اللہ عرف جعفر کو جلد ہی پکڑ لیا گیا اور اب اس کو امریکہ میں عدالتوں کا سامنا کرنا ہو گا۔‘
ریٹکلف کا کہنا تھا کہ ’اور یہ سب صدر ٹرمپ کے باعث ہے کہ نہ صرف ہمارے اتحادی بلکہ وہ ممالک جو مسائل پیدا کرتے رہے ہیں وہ بھی صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں سنہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں پر ہونے والے خودکش حملے کے ایک منصوبہ ساز کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

بدھ کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد کانگریس سے اپنا پہلے خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان کی انتظامیہ نے سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر امریکی اہلکاروں پر خودکش حملے کے ذمہ دار مرکزی دہشت گرد کو پکڑ لیا ہے اور اس میں مدد کرنے پر وہ ’حکومت پاکستان‘ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہےکہ سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والا مرکزی ملزم پکڑا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ 26 اگست 2021 کو کابل ایئرپورٹ کے ایبے گیٹ جسے جنوبی دروازہ بھی کا جاتا ہے پر دو خودکش بمباروں اور مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔ اس وقت وہاں ملک چھوڑنے کی کوشش میں ہزاروں افغان باشندے بھی موجود تھے۔
اس حملے میں تقریباً 160 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اپریل 2023 میں چار سینیئر امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ افغان طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے دوران دارالحکومت کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر خودکش بم دھماکے کے ذمہ دار شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے کمانڈر اور مرکزی ملزم کو ہلاک کر دیا ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکام نے کابل خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کے رشتہ داروں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ شدت پسند تنظیم کے کمانڈر کو حالیہ ہفتوں میں طالبان کی سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس تجزیہ کاروں کو اپریل کے اوائل میں معلوم ہوا تھا کہ حملے کا ماسٹر مائنڈ، جس کی شناخت بتانے سے انھوں نے گریز کیا تھا افغانستان میں طالبان کی کارروائی میں مارا جا چکا ہے۔ لیکن حکام نے اس کی مبینہ ہلاکت کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا تھا۔

ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کیا کہا؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کانگریس سے اپنا پہلا خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر امریکی اہلکاروں پر خودکش حملے کے ذمہ دار مرکزی دہشت گرد کو پکڑ لیا ہے اور اس میں مدد کرنے پر وہ حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
’امریکہ ایک بار پھر بنیاد پرست اسلامی شدت پسند قوتوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہے۔ ساڑھے تین سال قبل افغانستان سے (امریکہ کے) تباہ کن انخلاء کے دوران کابل کے بین الاقوامی حامد کرزئی ایئرپورٹ کے ایبے گیٹ پر شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے حملے میں 13 امریکی فوجی اور سینکڑوں افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے انخلا کیا گیا وہ ’شاید ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم نے اس حملے کے مرکزی ملزم کو پکڑ لیا ہے اور اسے یہاں لایا جا رہا ہے۔ وہ امریکہ کے فوری انصاف کا سامنا کرنے کے لیے اپنے راستے پر ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’میں اس عفریت کی گرفتاری میں مدد کرنے پر حکومت پاکستان کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’یہ ان 13 خاندانوں کے لیے ایک بہت ہی اہم دن ہے جن کے پیارے اس حملے میں مارے گئے تھے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ اور زخمیوں سے رابطے میں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بہت ہولناک دن تھا۔‘ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ اور زخمیوں سے رابطے میں ہیں اور ان کی آج فون پر ان سے بات ہوئی ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا ردعمل
صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے تعاون پر شکریہ ادا کرنے پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ردعمل دیا ہے۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطے میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار اور حمایت کو تسلیم کرنے اور سراہنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور پاکستان دہشت گردوں اور عسکریت پسند گروپوں کو کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کی فراہمی کو روکنے پر یقین رکھتا ہے۔ ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے اپنے عزم پر ثابت قدم ہیں۔ اس کوشش میں پاکستان کے 80,000 سے زیادہ بہادر فوجیوں اور شہریوں نے جانیں قربان کیں۔ اورہم علاقائی امن اور استحکام کے لیے امریکہ کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رکھیں گے۔‘
امریکی حکام کا کیا کہنا ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کے بعد امریکی خفیہ ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کشیپ پٹیل نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر جاری ایک پیغام میں کہا ہے کہ 'جیسا کہ صدر ٹرمپ نے ابھی اعلان کیا ہے، تو اب میں بتا سکتا ہوں کہ آج رات ایف بی آئی، ڈی او جے اور سی آئی اے ایبے گیٹ پر حملے کے ذمہ داروں میں سے ایک کو گرفتار کر کے امریکہ لے آئے ہیں۔آج جان کا نذرانہ دینے والے یہ امریکی ہیروز اور ان خاندان انصاف کے مزید ایک قدم قریب ہو گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے ناقابل یقین شراکت داروں اور بہادر ایف بی آئی اہلکاروں کا شکریہ جنھوں نے یہ معرکہ سرانجام دیا۔ آپ نے اپنے ملک کی شاندار انداز میں نمائندگی کی۔‘
https://twitter.com/FBIDirectorKash/status/1897130654690693583
امریکہ کی اٹارنی جنرل پامیلا بانڈی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’نام نہاد دولت اسلامیہ (خراسان) کے اس شیطان صفت دہشت گرد نے 13 بہادر امریکی میرین فوجیوں کے وحشیانہ قتل کی منصوبہ بندی کی۔ صدر ٹرمپ کی زیر قیادت امریکہ کا محکمہ انصاف اس بات کو یقینی بنائے گا کہ محمد شریف اللہ جیسے دہشت گردوں کو کوئی محفوظ پناہ گاہ دستیاب نہ رہے، اسے اس نوعیت کی کوئی اور کارروائی کرنے کا موقع نہ ملے۔۔۔‘
ڈسٹرکٹ آف ورجینیا کے اٹارنی ایرک ایس سائیبرٹ کا کہنا ہے کہ ’(شریف اللہ کے خلاف) آج اعلان کیے گئے الزامات ایک ناقابل تردید پیغام دیتے ہیں کہ امریکہ اُن تمام لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانے کا عزم رکھتا ہے جو ہمارے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں سہولت کاری فراہم کرتے ہیں یا ایسی کارروائیاں سرانجام دیتے ہیں۔ ان خوفناک جرائم سے متاثر ہونے والوں کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ آپ کو فراموش نہیں کیا گیا ہے۔ ہم انصاف کی تلاش جاری رکھیں گے چاہے اس میں ہمیں کتنا وقت لگے۔‘
’پاکستان امریکہ تعلقات چوراہے پر ہیں‘

تجزیہ کار اور ماہرین صدر ٹرمپ کی جانب سے کانگریس خطاب کے دوران نہ صرف پاکستان کا ذکر کرنے بلکہ کابل ائیر پورٹ حملے میں ملوث داعش کے اہم کمانڈر کی گرفتاری میں تعاون کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کو بہت اہمیت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
ٹرمپ اور حکومت پاکستان کے درمیان معاملات کبھی سیدھے نہیں رہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں نو ایسی ٹویٹس پوسٹ کی تھیں، جن میں پاکستان کا ذکر تھا اور ان میں سے ایک ایسی بھی تھی جو پوسٹ کرنے کے بعد ڈیلیٹ کردی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے پچاس بار مختلف موقعوں پر پاکستان کا ذکر کیا۔
’فیکٹ بیس‘ ویب سائٹ کے مطابق، صدر ٹرمپ کا پاکستان کے بارے میں سب سے پہلا بیان اکتوبر سنہ 1999 میں جاری ہوا تھا جس میں انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے خطرے کے حوالے سے پاکستان کا نام لیا تھا۔ اس کے بعد اسی برس نومبر میں انھوں نے شمالی کوریا، چین اور انڈیا کے ساتھ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا ذکر کیا۔
اسی طرح سنہ 31 دسمبر 2017 کو بھی انھوں نے ایک ایسی ٹویٹ کی تھی جس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
31 دسمبر کی رات کو ٹویٹ پوسٹ کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان پر امریکہ سے دھوکہ کرنے اور اربوں ڈالرز امداد لینے کی بات کی تھی۔
انھوں نے لکھا تھا کہ ’امریکہ نے 15 برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد احمقانہ انداز میں دی، اور ہمارے لیڈروں کے بے وقوف سمجھتے ہوئے انھوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ انھوں نے ان دہشت گردوں کو پناہ دی جنہیں ہم افغانستان میں پکڑنا چاہتے۔‘
دو جنوری سنہ 2018 کو انھوں نے ایک اور ٹویٹ پوسٹ کی ’یہ صرف پاکستان ہی نہیں، جسے ہم بغیر فائدے کے اربوں ڈالرز دیتے ہیں۔‘
https://twitter.com/MichaelKugelman/status/1897140688619450790
تاہم آج ان کی جانب سے کانگرس خطاب کے دوران پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کو نہایت اہمیت سے دیکھا جا رہا ہے۔اس کی ایک وجہ پاکستان اور امریکہ کے ماضی میں کشیدہ تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس کا ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت میں شکریہ ادا کیا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ اس حالیہ پیش رفت سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی کے لیے کام جاری ہے تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ اسے بہت بڑی بات نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ابھی اتنی گرمجوشی نہیں۔
وہ کہتی ہیں اب امریکہ کی نظر میں پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔
ملحیہ لودھی سمجھتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوبارہ سے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی تک نہیں ہو سکا۔ انھوں نے کہا کہ ’تعلقات پچھلے تین چار سال سے چوراہے پر ہیں اور ان کو دوبارہ سے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد تعلقات میں کمی آئی اب ضرورت ہے کہ تعلقات کو وسیع بنیاد پر استوار کیا جائے۔
اسی ضمن میں عالمی امور کے تجزیہ کار اور ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آج ٹرمپ کی جانب سے کابل ائیرپورٹ حملے میں ملوث شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے دہشتگرد کو تلاش کرنے اور پکڑنے میں تعاون کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ سی آئی اے ڈائریکٹر ریٹکلف اور ایف بی آئی کے سربراہ کیشپ پٹیل پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ رابطے میں تھے۔ لگتا ہے کہ پاکستان امریکہ کا انسداد دہشتگردی کے معاملے پر تعاون کا دوبارہ آغاز ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے اس کی اہمیت سے متعلق مزید لکھا کہ ’پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کے بارے میں امریکی خدشات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور امریکہ کے ساتھ ایک نئی سکیورٹی پارٹنرشپ قائم کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں امریکی انتظامیہ کا اعتماد جیتنے میں مشکل ہو گی اور امریکہ کو بدلے میں کچھ دینا ہو گا۔ ایبی گیٹ حملے کے منصوبہ ساز کو پکڑنے میں پاکستان کی مدد کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔‘