ہر کھلاڑی ایسا خوش نصیب نہیں ہوتا کہ ڈیبیو پر ہی سنچری داغ دے یا چھ وکٹیں اڑا کر میچ تمام کر دے مگر پاکستان کا بدقسمت کرکٹ کلچر ہر نوآموز کھلاڑی سے یہی توقع کرتا اور پھر اس کی قیمت بھی چُکاتا ہے۔ پڑھیے سمیع چوہدری کی تحریر۔
انٹرنیشنل لیول پر کرکٹ کھیلنے کو صرف فطری ٹیلنٹ اور مہارت ہی کافی نہیں ہوتی، کھیل کو باریکی سے پڑھنے اور اس کا بوجھ جھیلنے کی ہمت بھی درکار ہوتی ہےدنیائے کرکٹ کی تلخ ترین پلئینگ کنڈیشنز رکھنے والے چار ممالک میں سے ایک نیوزی لینڈ بھی ہے جو اپنے ایشیائی مہمانوں کے لیے سدا ستم ظریف ہی ثابت ہوتا ہے۔ بھلے مہمان ٹیمیں اپنی پوری قوت سے آئی ہوں، کیویز کی ثانوی الیون بھی ان کے لیے پورا جوڑ ہو رہتی ہے۔
دوسری جانب، پاکستان کرکٹ کی اپنی ستم ظریفی رہی ہے کہ جب کبھی کسی ورلڈ ایونٹ میں اس کے خواب ادھورے پڑتے ہیں تو ’تعمیرِ نو‘ اور نشاطِ ثانیہ کا جھنڈا اٹھانے کو چنے گئے نوجوانوں کے کرئیر کا پہلا قرعہ ہی عموماً SENA ممالک (ساؤتھ افریقہ، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا) کے دورے کا نکل آتا ہے۔
اور کسی کرکٹ کلچر میں تو شاید ایسے اٹھا پٹخ تجربات کو جڑ پکڑنے کی مہلت مل بھی پائے مگر پاکستان کرکٹ جس قدر میڈیا و سوشل میڈیا کی یلغار سے مغلوب ہو چکی ہے، یہاں ایسی مہم جوئی سے بار آوری کی امید بھی خام خیالی سے کم نہیں۔
گو اوپر تلے فرنچائز کرکٹ سے لتھڑے عالمی کیلنڈر میں دو طرفہ کرکٹ کی معنویت ڈھونڈنا بجائے خود ایک بے معنی ورزش ہے مگر یہاں پھر بھی شاید کسی کو وہ ٹی ٹوئنٹی سیریز یاد ہو جو سال بھر پہلے ان ہی کیویز کی میزبانی میں پاکستان نے کھیلی تھی۔
اس سیریز میں پاکستان کے کپتان شاہین آفریدی تھے اور جو چہرے اس آزمائش کو چنے گئے تھے، وہ ان سے قدرے مختلف تھے جو حالیہ دورے پر دکھائی دیے۔ تو اگر عزم تب بھی ’نشاطِ ثانیہ‘ کا تھا اور اب بھی وہی ہے تو پھر سکواڈ سے لے کر مینیجمنٹ تک سبھی چہرے ایک ہی برس میں بدل کیسے گئے؟
چلیے ایک برس پیچھے جانے کی بجائے چار ہی ماہ پیچھے جھانک لیتے ہیں۔ دورہِ آسٹریلیا و جنوبی افریقہ کے لیے پاکستان نے جو سکواڈ چنے تھے، ان کا بنیادی مقصد چیمپیئینز ٹرافی کی تیاری تھا مگر ٹائٹل بچانے کو ٹیم چنتے وقت اچانک سلیکٹرز کی ترجیحات یکسر پلٹ گئیں۔
سفیان مقیم اپنے کرئیر کے اچھے آغاز کے باوجود محض اس لیے اہم عزائم سے بے دخل کر دیے گئے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف ایک ہائی سکورنگ ٹی ٹونٹی میچ میں ان کا اکانومی ریٹ اپنے سلیکٹرز کی توقعات سے بڑھ گیا تھا۔
اگر حسن نواز کی ایک دھماکے دار سنچری پاکستان کے لیے ریکارڈ ساز فتح کا سبب ہو گئی تو پھر ان کی اگلی چار ناکامیوں کا بوجھ بھی صبر سے جھیلنا ہو گاپاکستان کے سابقہ دورہِ نیوزی لینڈ اور اب کے بیچ جو سال بھر پڑا ہے، اس میں پاکستان ایک ورلڈ کپ کی ناگفتہ بہ مہم بھگتا چکا ہے اور اگلے کی تیاری کا دم بھر رہا ہے۔
ایسے میں سوال تو یہ ہے کہ جن ناموں کو اب اگلے ورلڈ کپ کے لیے چنا گیا اور وہ حالیہ سیریز میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پائے، اگر پی ایس ایل میں بھی بہت بلند بانگ کھیل نہ رچا سکے تو کیا پھر بھی اگلی سیریز تک وہ سلیکشن کمیٹی کے لیے قابلِ بھروسہ رہ پائیں گے؟
پچھلے پی ایس ایل نے اگر عماد وسیم اور محمد عامر کو کرئیر بحالی کے تحفے بخشے تھے تو یقیناً ان کی واپسی کی قیمت بھی اسی ٹیم میں سے کسی نے چکائی تھی۔ ایسی نظیر کے ہوتے، موجودہ پاکستانی سکواڈ کے نئے چہروں کو بھی کچھ دھڑکا تو لگا ہی رہے گا۔
انٹرنیشنل لیول پر کرکٹ کھیلنے کو صرف فطری ٹیلنٹ اور مہارت ہی کافی نہیں ہوتی، کھیل کو باریکی سے پڑھنے اور اس کا بوجھ جھیلنے کی ہمت بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ ہمت کوئی بھی کھلاڑی اپنے ساتھ لے کر نہیں آتا بلکہ ایک ڈریسنگ روم کا حصہ بن کر وقت کے ساتھ سیکھتا ہے۔
ہر کھلاڑی ایسا خوش نصیب نہیں ہوتا کہ ڈیبیو پر ہی سنچری داغ دے یا چھ وکٹیں اڑا کر میچ تمام کر دے مگر پاکستان کا بدقسمت کرکٹ کلچر ہر نوآموز کھلاڑی سے یہی توقع کرتا اور پھر اس کی قیمت بھی چُکاتا ہے۔
حارث رؤف کی بات میں وزن ہے کہ اس نئے سیٹ اپ سے نتائج کے حصول میں دس پندرہ میچز کا انتظار کرنا ہو گا۔ سو اگر حسن نواز کی ایک دھماکے دار سنچری پاکستان کے لیے ریکارڈ ساز فتح کا سبب ہو گئی تو پھر ان کی اگلی چار ناکامیوں کا بوجھ بھی صبر سے جھیلنا ہو گا۔
گو انٹرنیشنل کرکٹ کی مسابقت کے پائے کا کھلاڑی تیار کرنے میں بہت وقت، محنت اور صبر درکار رہتا ہے مگر پھر بھی تحمل اور تسلسل جیسے مبادیات کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ سلیکٹرز کے فہم سے ہی بھٹک جائیں اور ہر ورلڈ کپ کے بعد لکیر دوبارہ وہیں سے پیٹنا شروع کی جائے جہاں پر پچھلی مہم تمام ہوئی تھی۔