پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ایک شادی شدہ خاتون کو مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے واقعے میں ملوث مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق مدعی مقدمہ کی طرف سے ملنے والی معلومات میں موجود ایک اشارے کی مدد سے ملزم کو گرفتار کیا گیاپاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ایک شادی شدہ خاتون کو مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے واقعے میں ملوث مرکزی ملزم کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم سے ملنے والی معلومات کے بعد مزید دو ملزمان کی تلاش جاری ہے۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ماڈل ٹاون ڈویژن فیصل آباد عابد حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مدعی مقدمہ کی طرف سے ملنے والی معلومات میں موجود ایک اشارے کی مدد سے ملزم کو گرفتار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مدعی مقدمہ نے بتایا کہ وہ ملزمان کو نہیں جانتے تھے تاہم انھیں اتنا یاد تھا کہ جب دو مسلح افراد کا ایک تیسرا ساتھی تھوڑی دیر بعد جائے وقوعہ پر آیا تو انھوں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رانا لائٹ بند کر دے۔'
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی اسی عرفیت ’رانا‘ کی مدد سے پولیس اس تک پہنچی اور انھیں جلد ہی گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی۔
ایس پی عابد حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ دوران تفتیش ملزم نے خاتون کو ریپ کا نشانہ بنانے کا اعتراف کر لیا ہے۔
’تینوں ملزمان نے باری باری ریپ کیا‘
بدھ کو فیصل آباد کے نواحی گاؤں چنن کے رہائشی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے پولیس میں رپورٹ کروائی کہ دو مسلح افراد نے منگل کی رات ان کو اور ان کی اہلیہ کو موٹروے کے پل کے پاس روکا۔ دونوں میاں بیوی موٹر سائیکل پر سوار تھے۔
انھوں نے پولیس کو بتایا کہ کچھ وقفے کے بعد ان کا ایک تیسرا ساتھی بھی موقعے پر آ گیا۔ ان تینوں نے مدعی اور ان کی اہلیہ سے نقدی 800 روپے اور ایک موبائل فون چھین لیا۔ اس کے بعد وہ خاوند کو ایک طرف لے گئے اور انھیں باندھ دیا۔
مدعی نے پولیس کو بتایا کہ اس کے بعد تینوں ملزمان نے باری باری ان کی اہلیہ کو ریپ کا نشانہ بنایا اور پھر وہاں سے فرار ہو گئے۔
تاہم اس واقعے کے فوری بعد مدعی نے پولیس کو واقع کی اطلاع نہیں دی اور گھر چلے گئے۔ ایس پی عابد حسین نے بتایا کہ اس واقعے کی اطلاع پولیس کو اگلے روز دی گئی جس کی بنیاد پر ابتدائی طور پر نا معلوم مسلح افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
مقدمے کے مطابق دو مسلح افراد نے منگل کی رات ایک جوڑے کو موٹروے کے پل کے پاس روکا تھاپولیس ملزم تک کیسے پہنچی؟
ایس پی ماڈل ٹاون ڈویژن عابد حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مدعی مقدمہ فوری طور پر اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دینے میں ناکام رہے تھے۔ یہ اطلاع لگ بھگ 12 گھنٹے کے بعد پولیس تھانے میں درخواست کی صورت میں دی گئی۔
’اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ وہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ بعد میں کسی کے سمجھانے پر انھوں نے پولیس کو اطلاع دینے کا فیصلہ کیا۔‘
ایس پی عابد حسین کے مطابق اس کے بعد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا اور جائے وقوعہ پر بھی گئے۔ مدعی مقدمہ نے ابتدائی طور پر جو معلومات فراہم کیں اس کے مطابق وہ تینوں ملزمان میں سے کسی کو بھی پہلے سے نہیں جانتے تھے۔
تاہم انھوں نے پولیس کو بتایا کہ سامنے آنے پر وہ ان کو پہچان سکتے تھے۔ انھی معلومات میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی طور پر ان کو دو ملزمان نے روکا تھا اور بعد میں تیسرا ساتھی ان کے ساتھ آ کر مل گیا تھا۔
ایک موقع پر پہلے سے موجود دو ملزمان نے تیسرے آنے والے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’رانا (موٹر سائیکل) کی لائٹ بند کر دے۔‘
ایس پی ماڈل ٹاون فیصل آباد عابد حسین کے مطابق 'رانا' عرفی نام کا ایک نوجوان مدعی مقدمہ کے قریبی گاؤں مریم آباد کا رہائشی بھی تھا۔ پولیس نے شک کی بنیاد پر اسے گرفتار کیا تو دوران تفتیش ملزم نے خاتون کو ریپ کرنے کا اعتراف کیا۔
اس نے اپنے باقی دو ساتھیوں کے نام بھی پولیس کو بتائے۔ پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والا ملزم خود ریکارڈ یافتہ نہیں ہے تاہم اس کے باقی دو ساتھیوں میں سے ایک پہلے سے ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں کے لیے پولیس کے ریکارڈ پر موجود ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوشش جاری ہے۔
ملزم نے پولیس کو کیا بتایا؟
ماڈل ٹاون ڈویژن کے ایس پی عابد حسین کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی ڈکیتی یا رہزنی کی نیت سے موٹروے کے ساتھ سروس روڈ پر موجود تھے جب انھوں نے دو میاں بیوی کو موٹر سائیکل ہر آتے ہوئے دیکھا۔
ملزم کے دو ساتھیوں نے ابتدائی طور پر ان دونوں کو ڈکیتی کی نیت سے روکا۔ ’وہ خود بھی وہیں قریب ہی موجود تھا اور بعد میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ آ کر مل گیا۔‘
پولیس نے ابتدائی تحقیقات میں متاثرہ خاتون کے کپڑوں سے داغوں کے نمونے حاصل کیے ہیں پولیس آفیسر کے مطابق تینوں ملزمان کے پاس اسلحہ موجود تھا۔ انھوں نے بندوق کے زور پر میاں بیوی سے موبائل فون اور نقدی لوٹ لی۔
ایس پی عابد حسین کے مطابق اس کے بعد 'انھوں نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خاتون کو ریپ کا نشانہ بنایا۔'
خاتون کے پولیس کو دیے بیان کے مطابق تینوں ملزمان نے انھیں ریپ کا نشانہ بنایا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے شواہد جمع کر لیے ہیں جنہیں فرانزک تجزیے کے لیے بحھوایا گیا ہے۔
فرانزک تجزیے سے پولیس کو کیا مدد حاصل ہو گی؟
پولیس کے مطابق چونکہ خاتون شادی شدہ ہیں تو محض میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے یہ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کہ انھیں ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایس پی عابد حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں متاثرہ خاتون کے کپڑوں سے داغوں کے نمونے ملے ہیں تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ فرانزک کی رپورٹ آنے کے بعد کیا جا سکے گا۔
انھوں نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے ملزم اور متاثرہ خاتون کو بھی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لے کر جانے کی ضرورت ہو گی جہاں کراس میچنگ کی مدد سے حتمی رائے قائم کرنے اور شواہد کی تصدیق میں مدد ملے گی۔
انھوں نے بتایا کہ اس تمام عمل کو مکمل ہونے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے تاہم اس کی مدد سے یہ یقینی طور پر تعین کرنے میں مدد ملے گی کہ کیا خاتون کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور کیا ایک سے زیادہ افراد نے انھیں زیادتی کا نشانہ بنایا۔
خیال رہے کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق اجتماعی ریپ ثابت ہونے پر ملزمان کو موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔