امریکی خبر رساں ادارے یو پی آئی کے نامہ نگار نثارعثمانی نے لاہور سے لکھا کہ پاکستانی حکام کے مطابق ہائی جیکرز نے لاہور میں ’بلا شرط‘ ہتھیار ڈالے اور تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا، یوں 22 گھنٹے طویل اس ہائی جیکنگ ڈرامے کا اختتام ہوا، جس دوران کئی بار طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکیاں دی گئیں۔
فائل فوٹو’انڈیا چارلی فور زیرو فائیو بوئنگ ہائی جیک کر لیا گیا۔‘
پانچ جولائی 1984، شام 4 بج کر 41 منٹ پر حساس دفاعی نیٹ ورک ’الفا کنٹرول‘ کی سکرین پر انگریزی زبان میں ابھرا یہ مختصر پیغام اشارہ تھا انڈین ایئرلائنز کی دلی جاتی پرواز کے اغوا کا۔
یہ طیارہ 149 مرد، 72 خواتین، 19 بچے اور 15 شیر خوارمسافروں اورعملے کے نو افراد لے کر سرینگر سے اُڑا ہی تھا کہ چند ہی منٹ میں اچانک ہڑبونگ مچ گئی۔
’انڈیا ٹوڈے‘ میگزین میں صحافی راجو سنتھنم لکھتے ہیں کہ اگلی نشستوں پر بیٹھے مسافر اسے کوئی عام جھگڑا سمجھے لیکن جب ایئرہوسٹس کلدیپ کورگجرال کاک پٹ کی طرف بھاگیں اور ان کے پیچھے پستول اور کرپانیں لیے چار افراد لپکے تو سب جان گئے کہ گڑبڑ زیادہ ہے۔
سیاسی نفسیات کے ماہرآشس نندی نے اپنے ایک مضمون ’دی ڈسکریٹ چارمز آف انڈین ٹیررازم‘ میں لکھا ہے کہ ایئرہوسٹس نے غیرمعمولی جرات دکھاتے ہوئے کاک پٹ کا دروازہ پیٹ کر حملے کی مزاحمت کی۔
’جب ہائی جیکرز نے کلدیپ کور کو دھمکی دی تو انھوں نے خود کو سکھ بتایا، جس پر حملہ آور نے انھیں ’بہن‘ کہہ کر ان کے پاؤں چھوئے اور ان سے معافی مانگی۔‘
سنتھنم کے مطابق اتنے میں کپتان سی ایس پی سنگھ نے کاک پٹ کا دروازہ بند کروا دیا۔ باہر ہائی جیکرز نے فلائٹ پر سروی کے مہتا کو دبوچا، دروازہ نہ کھولنے پر چاقو مار کر زخمی کر دیا اور اندر فلائٹ انجینیئر پی این مہاجن نے دروازے سے خود کو ٹکا دیا تاکہ کپتان ہائی جیکنگ کی اطلاع دے سکیں۔
’ہائی جیکرز نے تین گولیاں چلائیں۔۔۔ ایک مہاجن کو لگی، باقی دروازے میں دھنس گئیں جس کے بعد دروازہ کھل گیا اور ہائی جیکرز اندر گھس گئے جبکہ ان کے پانچ ساتھی طیارے کے پیچھے اور درمیان میں پھیل گئے۔‘
نندی لکھتے ہیں کہ تین لوگ کلین شیو تھے اور ان میں سب سے کم عمر لڑکا شاید پندرہ سال سے بھی کم کا لگ رہا تھا۔
سنتھنم بتاتے ہیں کہ شام 5 بج کر 7 منٹ پر انڈیا بھر میں ریڈ الرٹ جاری ہوا، اطلاع دی گئی کہ طیارہ ہائی جیکرز کے قبضے میں ہے۔
نندی نے لکھا ہے کہ پرواز میں موجود صحافیوں موہن رام اور اجے بوس کے مطابق ’اکثر مسافر دہشت کے مارے اپنی سیٹوں پر ساکت بیٹھے رہے۔ ہائی جیکرز بار بار وارننگ دیتے رہے کہ ’اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لو اور حرکت نہ کرو، ورنہ گولی مار دیں گے۔‘
رام کے مطابق ایک ہائی جیکر ان کی قطار کی طرف لپکا اور چیخا کہ ’میرے پاس دو پستول اور ایک دستی بم ہے!‘ بوس نے دیکھا کہ ہائی جیکرز نے مسافروں اور عملے پر تشدد کیا۔
’ہائی جیکرز نے دو انڈین فوجی افسران کو الگ کر کے نہ صرف ان کی وردیاں پھاڑ دیں بلکہ ان پر تشدد بھی کیا اور ان پر بار بار الزام لگایا کہ وہ گولڈن ٹیمپل پر دھاوے میں شامل تھے۔‘
ایک ماہ پہلے یعنی جون 1984 میں وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے حکم پر آپریشن بلیو سٹار کے تحت گولڈن ٹیمپل میں چھپے سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی تھی جس میں ’خالصتان‘ کے حامی جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا اور ان کے کئی ساتھی مارے گئے جبکہ اکال تخت سمیت گولڈن ٹیمپل کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
ہائی جیکرز طیارے کو لاہور میں اتارنا چاہتے تھے۔
لاہور میں۔۔۔
ابتدا میں پاکستان نے طیارے کو لاہور ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور رن وے بلاک کر دیا۔ ایئربس کو درجن بھر بار ایئرپورٹ کے گرد چکر لگانا پڑے۔ آخرکار جب ایندھن خطرناک حد تک کم ہو گیا اور اغوا کاروں نے طیارے کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی تو لینڈنگ کی اجازت ملی۔
بالآخر طیارہ لاہور اُتر گیا۔
سنتھنم لکھتے ہیں کہ بندوقیں طیارے کی طرف تنی ہوئی تھیں اور کمانڈوز رن وے کے آس پاس جھاڑیوں میں مورچے سنبھالے بیٹھے تھے۔
’اس کے جواب میں ہائی جیکرز نے مزید ہتھیاراکٹھے کیے، یعنی آگ بجھانے والے دو آلے اور ایک لینڈنگ گیئر سیفٹی پن۔ نو ہائی جیکرز کے پاس مجموعی طور پر صرف ایک 22 بور پستول، ایک کھلونا پستول اور کرپانیں تھیں۔‘
’ہائی جیکرز نے طیارے کے لاہور میں شام 5:50 پر لینڈ ہونے کے فوراً بعد اپنے مطالبات پیش کیے اور غیر دانستہ طور پر دونوں حکومتوں کو اپنی شناخت کا پہلا سراغ دے دیا۔‘
نندی کے مطابق ان کے مطالبات یہ تھے: جون 1984 میں گولڈن ٹیمپل پر فوجی کارروائی میں ہونے والے نقصان کا 30 کروڑ انڈین روپے معاوضہ، فوج کی طرف سے ضبط کی گئی نقدی اور قیمتی اشیا کی واپسی اور تمام گرفتار سکھ افراد کی رہائی۔
ڈیڈلائن رات 2 بجے مقرر کی گئی۔
سنتھنم کے مطابق تین بجے یعنی ڈیڈلائن گزرنے کے ایک گھنٹے بعد، ہائی جیکرز کا رہنما، جس نے خود کو ’ہر فن مولا‘ کہا، دوبارہ کنٹرول ٹاور سے مخاطب ہوا اور طیارے کو ایندھن فراہم کرنے، سامان اتارنے، طیارے کے گرد روشنی لگانے اور سکھ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
پاکستانی حکام نے یہ مطالبات ماننے سے انکار کر دیا، جیسا کہ کنٹرول ٹاور اور ہائی جیکرز کے درمیان اس مکالمے سے ظاہر ہے:
لاہور ٹاور: آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟
ہائی جیکرز: ہم خود فیصلہ کریں گے کہ کہاں جانا ہے۔
ٹاور: باہر آ کر تازہ ہوا میں سانس کیوں نہیں لیتے؟ ہم آپ کو کھانا بھی دے سکتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے مسافروں کو باہر آنے دیں۔
ہائی جیکرز: ہمیں کھانے کی ضرورت نہیں۔ گولڈن ٹیمپل میں سکھ تین دن بغیر کھائے پیے رہے۔ کیا ہوگا اگر مسافر بغیر کھائے رہیں ؟ ہمارا ایندھن دینے کا مطالبہ کیا ہوا؟
ٹاور: ٹینکر اور سیڑھی (سامان اتارنے کے لیے) راستے میں ہیں۔ 15 منٹ میں پہنچ جائیں گے۔
(آدھے گھنٹے بعد)
ہائی جیکرز: ہمارے مطالبے کا کیا بنا؟
ٹاور: ٹینکر اور سیڑھی موجود ہیں۔ ٹینکر بھی جوڑ دیا گیا ہے لیکن جب تک کچھ مسافروں کو رہا نہیں کیا جاتا، آپ کی درخواست پوری نہیں کی جا سکتی۔
ہائی جیکرز: یہ ممکن نہیں۔
ٹاور: جب تک آپ کچھ مسافروں کو رہا نہیں کرتے، آپ کو ایندھن نہیں ملے گا۔ یوں سمجھیں کہ ہر 25 مسافروں کے بدلے ایک ٹن ایندھن دیا جائے گا۔ (کل 25 ٹن ایندھن درکار تھا)
(مشورے کے بعد)
ہائی جیکرز: منظور ہے۔
ٹاور: رہائی کی ترتیب یہ ہونی چاہیے: پہلے خواتین، بچے اور انڈین شہری۔ باقی بعد میں۔
ہائی جیکرز: منظور ہے۔
طیارے کے اندر اگرچہ معاون جنریٹر آن کر دیا گیا تھا لیکن گرمی اور تھکن کی وجہ سے دو مسافر بے ہوش ہو گئے، جنھیں طیارے سے باہر علاج کے لیے لے جانے کی اجازت دی گئی۔ ایک سکھ مسافر بھی ہارٹ اٹیک سے بے ہوش ہوا لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ بھی ہائی جیکرز میں شامل تھا۔
ہائی جیکرز نے ایک بار پھر ایندھن کا مطالبہ دہرایا لیکن کنٹرول ٹاور نے مزید چار مسافروں کی رہائی کے بغیر ایندھن فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
مزید مشورے کے بعد ہائی جیکرز کا رہنما پاکستانی اہلکاروں سے بات چیت کرنے گیا لیکن جب وہ 20 منٹ بعد بھی واپس نہ آیا تو باقی ہائی جیکرز میں گھبراہٹ پھیل گئی۔
ان میں سے دو نے ٹاور سے رابطہ کیا اور پوچھا، ہمارا لیڈر کہاں ہے؟
انھوں نے کہا کہ اگر آپ نے ہمیں نہیں بتایا تو ہم مسافروں کو مار کر ایک ایک کر کے ان کی لاشیں باہر پھینک دیں گے اور طیارے کو دھماکے سے اُڑا دیں گے۔
تاہم ہائی جیکرز کا رہنما طیارے میں واپس آ گیا، اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور پھر دوبارہ باہر چلا گیا۔
مسافروں سے اچھا سلوک بھی کیا
ابتدائی 10 منٹ کی کشیدگی کے بعد وہ کچھ پُرسکون ہو گئے تھے اور مسافروں سے بات چیت بھی کر رہے تھے، حتیٰ کہ کشمیر سے آئی چیریاں بھی بانٹ رہے تھے۔
نندی لکھتے ہیں کہ 25 سالہ مسافر شمع کوہلی کے مطابق ساری رات ہائی جیکرز کا زیادہ تر وقت نعرے بازی اور گربانی پڑھتے گزرا۔
’آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کی خبریں سننے کے دوران میں ہائی جیکرز نے مسافروں سے مکمل خاموش رہنے کا کہا۔‘
رام لکھتے ہیں کہ ’ابتدا میں وہ ہمیں ڈرانا چاہتے تھے لیکن بعد میں ان میں سے ایک یا دو نرم خو لگے۔‘
’ایک ہائی جیکر جنھیں مسافر ’جولی‘ کہتے تھے، نسبتاً شفیق مزاج تھے۔ انھوں نے شیر خوار بچوں کے لیے خوراک اور دودھ فراہم کرنے کا اہتمام کیا۔‘
’رات گئے، ہائی جیکروں نے ایئرہوسٹسز کی بجائے خود مسافروں کی دیکھ بھال شروع کر دی۔‘
’صبح ہوتے ہی ایئرہوسٹسز دوبارہ اپنے فرائض پر لوٹ آئیں۔ تب ہائی جیکروں نے طیارے کے تمام مسافروں کے ٹکٹ چیک کیے اور انھیں چار گروپوں میں تقسیم کر دیا: ہندوستانی، مسلمان، سکھ اور غیر ملکی۔ یہ تقسیم علامتی ہو سکتی تھی کیونکہ مسافر دل موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ ہائی جیکروں نے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا۔‘
’جہاز میں موجود بچے حالات کے ساتھ مطابقت رکھتے جا رہے تھے۔ رام نے ایک بچے کو ہائی جیکر سے کہتے سنا، ’انکل، ٹوائلٹ جانا ہے۔‘
ایک لڑکے نے اپنی ماں سے کہا کہ ’آج میں آلو بینگن کھاؤں گا۔‘
’مسافر بھاونا کیلم نے بعد میں پریس کو بتایا کہ ہائی جیکرز نے بچوں کو ’اولین ترجیح‘ دی، ان کے لیے پانی اور پھل محفوظ رکھے۔ دیگر مسافر بھی اس رویے کی تائید کرتے ہیں۔
’ریتو مُرگئی کے مطابق ہائی جیکرز مسلسل یہی کہتے رہے کہ ’گھبرائیں نہیں، آپ کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ہم حکومت کے خلاف ہیں، آپ کے نہیں۔‘
’امریکی طالب علم آندرے گولڈسٹین کو بھی یہی تاثر ملا کہ ہائی جیکرز نے مسافروں سے عمومی طور پر اچھا سلوک کیا۔‘
’بم‘ جو ٹائلٹ پیپر رول تھا
لیکن سنتھنم کے مطابق اچانک ’ہائی جیکرز نے مسافروں کو حکم دیا کہ ’موت کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘
’ایک ہائی جیکر نے ایک گول چیز نکالی جو تولیے میں لپٹی ہوئی تھی اور دعویٰ کیا کہ یہ بم ہے۔‘ (بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ٹائلٹ پیپر کا رول تھا)
نندی نے کیلم کے حوالے سے لکھا کہ اس لمحے چند ہائی جیکرز خود بھی جذباتی ہو گئے، آنکھوں میں آنسو لیے کہنے لگے کہ ’اب انھیں چھوڑدیتے ہیں۔۔۔‘
’مسافر موہن رام کا کہنا تھا، ہم سب نے سوچا کہ بس، اب یہ انجام ہے۔ پورے کیبن میں سوگوار خاموشی چھا گئی۔‘
پھر اچانک ایک ہلچل مچی اور رام کو اندازہ ہوا کہ ہائی جیکرز جہاز کو اڑانے کے بارے میں تقسیم کا شکار ہیں۔
ولیم کے سٹیونز نے نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ بعد میں مسافروں نے انھیں بتایا کہ ہائی جیکروں کے لیڈر نے طیارے کے باہر تقریباً دوپہر کے وقت ایک ہندوستانی اہلکار سے ملاقات کی، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں انڈیا کے سفیر کے ڈی شرما تھے۔
آنسوؤں بھرا الوداع
نندی لکھتے ہیں کہ بالآخر ہائی جیکرز نے اعلان کیا کہ ’وزیراعظم اندرا گاندھی نے ہمارے مطالبات مسترد کر دیے ہیں مگر ہم آپ سب کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کر رہے ہیں۔ ہم حکومت کے ظلم کے خلاف ہیں، بے گناہوں کے نہیں۔‘
’اگر کسی کو تکلیف پہنچی، ہم معذرت خواہ ہیں اور پھر وہ منظر جسے نوجوان صحافی اجے بوس کبھی نہ بھلا سکیں گے کہ اچانک، مسافر اور ہائی جیکر ایک دوسرے سے لپٹ کر بچوں کی طرح رو رہے تھے۔ جن لوگوں کو محصور کیا گیا، ڈرایا گیا، زدوکوب کیا گیا، وہی اب اپنے ٹکٹوں پر ہائی جیکروں کے آٹوگراف لینےکے لیے آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ ایک پندرہ سالہ ہائی جیکر فرش پر بیٹھا رونے لگا، جیسے اس کے اندر سارا بوجھ پھٹ پڑا ہو۔ ایک ہائی جیکر نے جہاز کے ہر فرد سے فرداً فرداً ہاتھ ملایا۔‘
امریکی خبر رساں ادارے یو پی آئی کے نامہ نگار نثارعثمانی نے لاہور سے لکھا کہ پاکستانی حکام کے مطابق ہائی جیکرز نے لاہور میں ’بلا شرط‘ ہتھیار ڈالے اور تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا، یوں 22 گھنٹے طویل اس ہائی جیکنگ ڈرامے کا اختتام ہوا، جس دوران کئی بار طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکیاں دی گئیں۔
’رہائی کے بعد تمام مسافروں کو پاکستان ایئرلائنز کے ڈی سی-10 طیارے کے ذریعے دلی واپس پہنچایا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے رپورٹر سٹیفن ولسن بھی اس طیارے میں سوار تھے۔
’ریڈیو پاکستان پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں ہائی جیکرز کے رہنما پرمندر سنگھ نے کہا کہ ’ہمارے پاس اسلحہ اور گولا بارود موجود تھا اور ہم طیارہ اڑا سکتے تھے لیکن ہم بے گناہوں کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہے تھے، اس لیے ایسا نہیں کیا۔‘
پاکستان کی تعریف
ولیم کے سٹیونز کے مطابق انڈیا کے حکام نے کہا کہ مسافروں کی رہائی انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعاون اور نیک نیتی کا اعلیٰ مقام ہے۔
انڈیا نے تمام ہائی جیکروں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن انڈیا اور پاکستان کے درمیان حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں۔
’نئی دہلی میں کچھ لوگوں نے پاکستانیوں کی تعریف کی، جنھوں نے پچھلے تین سال میں لاہور ایئرپورٹ پر سکھ بنیاد پرستوں کی طرف سے ہائی جیکنگ کی دو کوششوں کو ناکام بنایا۔ سنہ 1981 میں صفائی کرنے والوں کے لباس میں ملبوس کمانڈوز نے بھنڈرانوالا کے چھ حامیوں کو بغیر کسی زخم کے پکڑ لیا تھا۔‘
ہائی جیک ہونے والے طیارے میں سوار کچھ مسافروں نے کہا کہ تمام ہوائی اڈوں پر انڈین حکومت کی طرف سے ایک ماہپہلے جاری ہونے والے ’ریڈ الرٹ‘ کے باوجود سرینگر میں سکیورٹی میں سستی دکھائی دیتی ہے۔
آندرے گولڈسٹین نے کہا کہ ’انھوں نے میرے ہینڈ بیگ یا دوسرے مسافروں کی بہت قریب سے تلاشی نہیں لی۔‘
نندی لکھتے ہیں کہ ’دی ہندو‘ کے جی کے ریڈی اور ’دی ویک‘ کے جی کے گوپال کرشنن، جو اغوا شدہ طیارے میں سوار تھے، نے پاکستانی حکام کی حکمت عملی کو سراہا۔
انھوں نے لکھا کہ ’پاکستانی حکام نہایت سمجھداری سے صورتحال سے نمٹے اور ہائی جیکروں کو جذباتی اور سیاسی الجھن میں ڈال کر ان سے فائدہ اٹھایا۔ خود کو بے بس دیکھ کر، وہ بار بار اپنے مطالبات بدلنے لگے۔‘
اغواکار تربیت یافتہ تھے یا اناڑی
نندی کے مطابق تاہم ہائی جیکنگ کے خاتمے کے فوراً بعد انڈین پریس نے اس واقعے کو ایک تربیت یافتہ، مسلح اور سفاک گروہ کی کارروائی کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔
صرف ’دی سٹیٹس مین‘ وہ واحد اخبار تھا جس نے ایک مختلف زاویہ اپنایا۔
’اس نے اس تضاد کی طرف بھی اشارہ کیا کہ جن ہائی جیکرز کو تربیت یافتہ کمانڈوز قرار دیا جا رہا تھا، ان کے رویے اور حرکات سے کہیں زیادہ اناڑی پن جھلک رہا تھا۔‘
سنتھنم نے لکھا کہ انڈیا کے انٹیلیجنس حلقوں میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ ہائی جیکرز زیادہ تر اناڑی تھے۔ ان کا اچانک ہتھیار ڈالنا اور کسی واضح منزل کا تعین نہ ہونا اس کی دلیل تھی۔