میانمار میں جمعے کو آنے والے شدید زلزلے کے سبب اب تک 1600 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور متعدد عمارتیں بھی منہدم ہو چکی ہیں۔ تھائی لینڈ کا دارالحکومت بنکاک زلزلے کے مرکز سے تقریباً 621 میل دور تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہاں ایک زیر تعمیر عمارت منہدم ہو گئی۔
میانمار کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں یہ ٹیکٹونک پلیٹس سب سے زیادہ 'متحرک' ہوتی ہیںمیانمار میں جمعے کو آنے والے شدید زلزلے کے سبب اب تک 1600 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور متعدد عمارتیں بھی منہدم ہو چکی ہیں۔
جنوب مشرقی ایشا میں واقع ملک کو ہمیشہ سے ہی زلزلوں سے سب سے زیادہ خطرہ رہا ہے۔ تھائی لینڈ اور چین بھی جمعے کو آنے والے زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں، تاہم میانمار کے مقابلے میں یہ دو ممالک عام طور پر زلزلوں کے حوالے سے محفوظ تصور کیے جاتے ہیں۔
تھائی لینڈ کا دارالحکومت بنکاک زلزلے کے مرکز سے تقریباً 621 میل دور تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہاں ایک زیر تعمیر عمارت منہدم ہو گئی۔
اس تحریر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ زلزلہ کیوں آیا اور اس کے اثرات دور دور تک کیوں نظر آئے۔
زلزلہ کیوں آیا؟
زمین کی اوپری سطح مختلف پرتوں پر مشتمل ہوتی ہے جنھیں ٹیکٹونک پلیٹس کہا جاتا ہے۔ یہ پلیٹس تواتر سے حرکت کرتی رہتی ہیں، ان میں سے کچھ ایک ساتھ بھی حرکت کرتی ہے اور کچھ اوپر تلے۔
ان پلیٹس کی حرکت کے سبب ہی زلزلے آتے ہیں اور آتش فشاں پھٹتے ہیں۔
میانمار کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں یہ ٹیکٹونک پلیٹس سب سے زیادہ 'متحرک' ہوتی ہیں اور یہ ملک چار پلیٹس کے اوپر موجود ہے جنھیں یورو ایشن پلیٹ، انڈین پلیٹ، سنڈا پلیٹ اور برما مائیکروپلیٹ کہا جاتا ہے۔
ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ انڈین اور یورو ایشین پلیٹس کے تصادم کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا، جبکہ سنہ 2004 میں سونامی برما مائیکروپلیٹ کے نیچے انڈین پلیٹ کی حرکت کے سبب آیا تھا۔
امپیریل کالج لندن سے منسلک ڈاکٹر ریبیکا بیل کہتی ہیں کہ پلیٹس کی حرکت اور فالٹس (بڑے پتھروں کے درمیان دراڑوں) کے سبب ہی یہ ٹیکٹونک پلیٹس 'پھسلتی' ہیں۔
میانمار میں جمعے کو آنے والے شدید زلزلے کے سبب اب تک 1600 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہےمیانمار کے شمالی اور جنوبی علاقوں کے بیچ میں 1200 کلومیٹر سے بھی زیادہ کی ایک دراڑ موجود ہے جسے 'ساگائنگ فالٹ' کہا جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر منظرِ عام پر آنے والے ڈیٹا کے مطابق جمعے کو سات اعشاریہ سات کی شدت سے آنے والے زلزلے کی وجہ بھی دو بلاکس کا ایک دوسرے کی طرف 'اچانک پھسلنا' تھا۔
جب ٹیکٹونک پلیٹس ایک دوسرے کے پاس سے گزرتی ہیں تو اکثر کہیں پھنس جاتی ہیں اور جب وہ اچانک خود کو آزاد کرتی ہیں تو زمین میں تبدیلی آتی ہے اور زلزلے آتے ہیں۔
یہ زلزلہ دور دور تک کیوں محسوس کیا گیا؟
زلزلے سطح زمین کے تقریباً 700 کلومیٹر اندر تک جنم لے سکتے ہیں۔ حالیہ زلزلے کی گہرائی سطح زمین کے اندر صرف 10 کلومیٹر تھی جس کے سبب زمین کے اوپر بڑی ہلچل ہوئی۔
یہ ایک شدید زلزلہ تھا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر سات اعشاریہ سات تھی۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس زلزلے کی وجہ سے زمین کے اندر ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے بھی زیادہ توانائی پیدا ہوئی۔
ڈاکٹر ریبیکا کہتی ہیں کہ اس زلزلے کی شدت کی وجہ دراصل زمین کے اندر بڑے فالٹ کی موجودگی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ 'سیدھی نوعیت کے فالٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زلزلے بڑے علاقوں میں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ فالٹ جنتے بڑے رقبے پر محیط ہو گا زلزلہ بھی اُتنا ہی شدید آئے گا۔'
'گذشتہ صدی میں اس خطے میں ریکٹر سکیل پر سات یا اس سے زیادہ شدت کے چھ زلزلے آ چکے ہیں۔'
زمین کے اندر سیدھے فالٹ (دراڑ) کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اس کی شدت بھی زیادہ لمبے رقبے تک محسوس ہو گی جو کہ تھائی لینڈ کی طرف 1200 کلومیٹر تک موجود ہے۔
زلزلے زمین کے اوپر کس طرح محسوس ہوتے ہیں اس کا دارومدار علاقے کی مٹی پر ہوتا ہے۔
بنکاک کی مٹی نرم ہے اور اسی سبب زمین کے اندر ہونے والی حرکت پہلے تو ہلکی ہوتی ہے اور پھر وقت کے ساتھ اچانک بڑھتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بنکاک کے جغرافیائی محل وقوع کے سبب وہاں زلزلے نے زمین کو شدید طریقے سے ہلایا ہوگا۔
بنکاک میں زلزلے کے باعث صرف ایک عمارت کیوں زمین بوس ہوئی؟
زلزلے کے بعد بنکاک سے جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا تھا کہ زمین کی حرکت کے سبب سوئمنگ پولز میں سے پانی باہر چھلک رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہاں صرف ایک ہی عمارت منہدم ہوئی جو کہ آڈیٹر جنرل کا زیرِ تعمیر دفتر تھا۔
امپیریل کالج لندن سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر کرسچن ملاگا کہتے ہیں کہ سنہ 2009 سے پہلے بنکاک میں عمارتیں تعمیر کرتے وقت زلزلوں کے خلاف حفاظتی اقدامات کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں پرانی عمارتوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
خیال رہے زلزلوں کو برداشت کرنے والی عمارتوں پر عام عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے، لیکن میانمار کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں زلزلے کم ہی آتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیمبرج سے منسلک ڈاکٹر ایمیلی سو کہتی ہیں کہ بنکاک میں پُرانی عمارتوں کو مضبوظ کیا گیا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں کیلیفورنیا، مغربی کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں کیا گیا تھا۔
زلزلے زمین کے اوپر کس طرح محسوس ہوتے ہیں اس کا دارومدار علاقے کی مٹی پر ہوتا ہےسٹرکچرل انجینیئرز ایسوسی ایشن آف تھائی لینڈ کے صدر پروفیسر امورن پمارنمنس اس معاملے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک کے 43 صوبوں میں زلزلے کو برداشت کرنے والی عمارتیں بنانے کے قواعد موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی وہاں ایسی عمارتوں کی تعداد صرف 10 فیصد ہے جو کہ زلزلے کے جھٹکے برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔
تاہم بنکاک میں جو عمارت زمین بوس ہوئی وہ نسبتاً نئی تھی، زیرِ تعمیر تھی اور وہاں غالباً زلزلوں کے حوالے سے معیار کو مدِنظر رکھا گیا ہوگا۔
پروفیسر امورن کہتے ہیں کہ اس عمارت کے گرنے کے پیچھے ایک وجہ بنکاک کی نرم مٹی بھی ہو سکتی ہے جو کہ زمین کے اوپر ہونے والی حرکت کو تین سے چار گُنا بڑھا دیتی ہے۔
'اس کے علاوہ یہ اندازے بھی لگائے جا رہے ہیں کہ شاید عمارت بنانے کے لیے اچھا کنکریٹ یا دیگر سامان استعمال نہ کیا گیا ہو یا پھر اس کا سٹرکچر بناتے وقت کچھ چیزوں کو نظر انداز کیا گیا ہو۔ اس کی تفصیلات تحقیق کے بعد ہی سامنے آ سکیں گی۔'
دوسری جانب ڈاکٹر کرسچن ملاگا کہتے ہیں کہ زمین بوس ہونے والی عمارت بظاہر 'فلیٹ سلیب' کے طرز پر بنائی گئی تھی جو کہ زلزلوں کے خطرے سے نبرد آزما علاقوں کے لیے درست نہیں ہے۔
'فلیٹ سلیب' عمارتیں بنانے کا وہ طریقہ ہے جس میں تمام منزلیں کالمز پر کھڑی ہوتی ہیں اور وہاں بیم کا استعمال نہیں کیا جاتا۔
ڈاکٹر کرسچن ملاگا کہتے ہیں کہ 'ذرا سوچیں کہ ایک میز صرف چار لکڑی کی ٹانگوں پر کھڑی ہو اور اس کے وجود کو سہارا دینے کے لیے اور کوئی بھی چیز موجود نہ ہو۔'
وہ کہتے ہیں کہ عمارتیں بنانے کے اس طریقے پر کم پیسے خرچ ہوتے ہیں لیکن زلزلوں کے دوران ان عمارتوں کے منہدم ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
کیا میانماز میں موجود عمارتیں زلزلے برادشت کر سکتی ہیں؟
میانمار کا شہر مندالے زلزلے کے مرکز سے سب سے زیادہ قریب تھا اور وہاں بنکاک کے مقابلے میں اس کی شدت بھی زیادہ محسوس کی گئی ہو گی۔
رائل ہولوے یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر آئن واٹکنسن سمجھتے ہیں کہ میانمار میں زیادہ زلزلے آتے ہیں لیکن کے باوجود بھی وہاں زلزلوں کو برداشت کرنے والی عمارتوں کی تعمیر ہونے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔
میانمار کا شہر مندالے زلزلے کے مرکز سے سب سے زیادہ قریب تھا'غربت، سیاسی کشمکش، سنہ 2004 میں آنے والے سونامی اور دیگر حادثات نے ملک کی توجہ زلزلوں کے خطرات سے ہٹا دی ہے۔'
وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میانمار میں عمارتوں کی تعمیر کے وقت قواعد کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا اور تعمیرات بھی ان علاقوں میں ہوتی ہیں جہاں زلزلے کے سب سے زیادہ خطرات موجود ہیں۔
مندالے شہر کا بڑا حصہ اور وہاں قائم عمارتیں دریائے ایئیاروادی کے اطراف میں موجود ہیں اور اس کے سبب انھیں خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ایسے علاقوں میں زمین کے اندر زیادہ پانی ہوتا ہے اور زلزلے کے سبب سطح زمین اپنی قوت کھو دیتی ہے، جس کے بعد لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور عمارتین منہدم ہونے لگتی ہیں۔
ڈاکٹر ایمیلی سو خبردار کرتی ہیں کہ آفٹرشاکس کے سبب بھی ان عمارتوں کو نقصان ہونے کے 'مزید امکانات' موجود ہیں۔ ان آفٹرشاکس کے سبب قریبی پتھریلی دراڑوں میں توانائی کا تبادلہ ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'زیادہ تر آفٹر شاکس کی شدت زلزلوں سے کم ہوتی ہے اور ان کی تعداد بھی وقت کے ساتھ کم ہو جاتی ہے۔'