جنوبی کوریا میں ایک بڑی جانچ سے پتا چلا ہے کہ پچھلی حکومتیں ان بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی تھیں جنھیں گود لینے کے لیے بیرون ملک بھیجا گيا تھا۔ 1950 کی دہائی سے اب تک کم از کم 170,000 بچوں کو بیرون ملک بھیجا گیا ہے۔ بی بی سی نیوز کورین نے متاثرہ لوگوں میں سے کچھ سے بات کی ہے۔
ایک تاریخی جانچ سے پتا چلا ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے کئی دہائیوں کے دوران انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیاں کیں’آپ کا نیا بھائی آگیا ہے نا؟ آپ کی والدہ کہتی ہیں کہ انھیں اب آپ کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے پاس اب نیا بچہ ہے۔ آؤ میرے ساتھ چلو۔‘
جنوبی کوریا میں چھ برس کی کیونگ ہا اپنے گھر کے سامنے کھیل رہی تھیں کہ اچانک وہاں ایک خاتون آئیں اور انھوں نے چھوٹی کو یہ الفاظ کہے۔ اس کے بعد کیونک ہا اس خاتون کا پیچھا کرتے کرتے ایک ٹرین میں چڑھ گئیں اور وہیں سو گئیں۔
جب ان کی آنکھ کھلی تو ٹرین اپنی آخری منزل تک پہنچ چکی تھی اور وہ خاتون کہیں غائب ہو چکی تھیں۔
کیونگ ہا اپنے گھر کا راستہ نہیں جانتی تھیں اور اس ساری صورتحال میں کنفیوژن کا شکار تھیں۔ ایسے میں وہ قریب ہی واقع ایک پولیس سٹیشن چلی گئیں تاکہ وہ اپنی والدہ کو ڈھونڈنے کے لیے مدد حاصل کر سکیں۔
لیکن کیونگ ہا کو کسی قسم کی مدد نہیں ملی بلکہ انھیں جیچئون شہر کے ایک یتیم خانے بھیج دیا گیا۔ اس کے تقریباً سات ماہ بعد انھیں امریکی ریاست ورجینیا میں رہائش پزیر ایک خاندان نے گود لے لیا۔
سنہ 1975 میں اس طرح کیونگ ہا جنوبی کوریا کے شہر چیونگ جو میں اپنے خاندان سے بچھڑ گئی تھیں۔
ان کی والدہ ہان تائی سون اب 73 برس کی ہو چکی ہیں اور وہ تمام زندگی اپنی بیٹی کے بچھڑ جانے کے سبب سکون سے سو نہیں سکیں۔ وہ روزانہ پولیس سٹیشن جاتیں، تقریباً تین گھنٹے پیدل چل کر لوگوں میں اطلاع گمشدگی کے اشتہار بانٹتی تھیں اور کئی مرتبہ انھوں نے ٹی وی اور ریڈیو پر بھی اپنی بیٹی کی واپسی کے لیے اپیلیں کیں۔
پھر اچانک سنہ 2019 میں 44 برس کے طویل عرصے کے بعد ہان اپنی امریکہ میں مقیم بیٹی سے ملاقات کر پائیں۔
یہ سب ڈی این اے ٹیسٹنگ کے سبب ممکن ہوا تھا جس میں 325 کامرا نامی ادارے نے ہان کی مدد کی تھی۔ یہ ادارہ گود لیے گئے بچوں کو ان کے حقیقی والدین سے ملواتا ہے۔
ہان تائی سون پورے 44 سال بعد اپنی بیٹی سے مل سکیںتاہم ہان کی اپنی بیٹی سے ملاقات زیادہ خوشگوار نہیں تھی۔
ہان نے بی بی سی کورین کو بتایا کہ ’آپ کیوں کسی کے بچے کو چُرا کر اسے امریکہ بھیجیں گے؟
’میری بیٹی نے سوچا کہ اسے تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسے نہیں معلوم کے اس کی ماں ساری زندگی اسے تلاش کرتی رہی ہے۔ اسے ڈھونڈنے میں لگنے والے 44 برسوں میں میری صحت برباد ہو گئی لیکن ان سالوں کے لیے کس نے مجھ سے معافی مانگی؟ کسی نے نہیں۔‘
اپنی بیٹی کی گمشدگی کی چار دہائیوں بعد ہان کو معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کو کسی اور کو گود دے دیا گیا تھا۔
جنوبی کوریا سے بیرونِ ملک بھیجے جانے والے بچے
یہ کہانی صرف ہان کی نہیں ہے بلکہ رواں ہفتے بدھ کو'ٹرتھ اینڈ ریکنسیلیشن کمیشن' کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوبی کوریا کے متعدد بچوں کو امریکہ، ڈنمارک اور سویڈن جیسے ممالک میں لوگوں کو گود لینے کے لیا دیا گیا تھا اور 1960 سے 1990 کی دہائی تک ان بچوں نے انسانی حقوق کی پامالی بھی برداشت کی ہے۔
اس رپورٹ کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان بچوں کی حقیقی شناخت اور خاندانی معلومات بھی مسخ کر دی گئی تھی اور انھیں بیرونِ ملک بھیجتے وقت کسی بھی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں لیے گئے تھے۔
اس کمیشن نے گود لیے جانے والے 367 بچوں کے ریکارڈ کی جانچ کی جنھیں 11 ممالک بھیجا گیا تھا۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ 56 بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
چائلڈ رائٹس کولیشن کی نمائندہ چو منہو کہتی ہیں کہ ’جنوبی کورین بچوں کو بیرون ملک غیرقانونی طور پر گود لینے کے لیے دینے کے سبب متعدد خاندانوں نے اپنے بچوں کو کھویا ہے۔‘
چو ایسے 100 سے زیادہ خاندانوں کو مدد فراہم کر چکی ہیں جن کے بچے اس معاملے سے متاثر ہوئے تھے۔
'اپنی بیٹی کی تلاش میں بھاگتے بھاگتے میں نے اپنے پیروں کے تمام دس ناخن کھو دیے، لیکن مجھے تکلیف کا احساس تک نہیں ہوا' - ہان تائی اپنی بیٹی کی تلاش میں کئی دہائیوں تک ملک کے اندر ادھر ادھر بھٹکتی رہیں’گمشدگی‘ سے ’یتیمی‘ تک
روٹ ہاؤس ایک ایسا ادارہ ہے جو جنوبی کوریا کے اندر گود لیے جانے والے بچوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس کی ڈائریکٹر کِم ڈو ہیون بچوں کو بیرون ملک بھیجنے کے معاملے کو ’جبری گمشدگی‘ قرار دیتی ہیں اور اس مسئلے کا ذمہ دار جنوبی کوریا کی حکومت کو تصور کرتی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی نیوز کورین کو بتایا کہ ’ان والدین کے بچے گُم نہیں ہوئے تھے بلکہ انھیں جبری طور پر گم کیا گیا تھا۔ یہاں والدین اور بچے دونوں ہی متاثرین میں شامل ہیں۔‘
کِم ڈو کہتی ہیں کہ 1970 اور 1980 کی دہائی میں جنوبی کوریا کی حکومت نے بچوں کو گود لینے کی بین الاقوامی مانگ کو پورا کرنے کے لیے یتیم خانے بنائے تھے۔
ان کا الزام ہے کہ بچے ایڈاپشن انڈسٹری میں کسی شئے کی طرح فرخت کیے گئے تھے اور دوسری طرف ان کے والدین بچوں کی گمشدگی پر زندگی بھر صدمے میں رہے۔
سؤل یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر لی کیونگ یون کہتے ہیں کہ ’سنہ 2012 میں سپیشل ایڈاپشن ایکٹ پر عملدرآمد سے قبل یتیم بچوں کی رجسٹریشن بیرون ملک گود لیے گئے بچوں کی تعداد سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی تھی۔‘
ہان تائی سون بیرون ملک گود لیے جانے والوں میں 'امید کی علامت' بن گئی ہیںوہ کہتے ہیں کہ ’اس سے یہ سوالات اُٹھتے ہیں کہ کیا گود دیے جانے کا عمل ان بچوں کو نئے گھر فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا یا پھر بچوں کو بیرون ملک گود لیے جانے کے لیے ہی یتیم بنایا گیا تھا۔‘
جنوبی کوریا میں یتیموں کو رجسٹر کیا جاتا ہے اور انھیں نئی شناخت دی جاتی ہے۔ اس عمل کے دوران انھیں جو خاندانی نام دیا جاتا ہے اس میں ان کے والدین کی معلومات شامل نہیں کی جاتیں۔
جنوبی کوریا کی سب سے بڑی ایڈاپشن ایجنسی ہالٹ چلڈرنز سروسز کی سابق اہلکار پروفیسر نوح ہائی ریون کہتی ہیں کہ ’ان بچوں کو جھوٹ کا سہارا لے کر یتیم قرار دیا گیا تھا تاکہ ایڈاپشن کے عمل کو آسان بنایا جا سکے کیونکہ جن بچوں کے والدین حیات ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کو مشکل سے ہی کسی کو گود دیتے ہیں۔‘
تاہم 1970 کی دہائی میں ہالٹ کے صدر رہنے والے بونگ چیونگ ہا ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
’1970 کی دہائی میں تقریباً 90 فیصد بچوں کو والدین نے تنہا چھوڑ دیا تھا اور جن بچوں کے والدین تھے انھیں بیرون ملک کسی کو گود نہیں دیا گیا تھا۔‘
ایک لاکھ 70 ہزار بچے باہر بھیجے گئے
جنوبی کوریا میں بین الاقوامی سطح پر گود لینے کے عملآغاز 1950 کی دہائی میں جنگ میں یتیم ہونے والے اور غیر ملکی فوجیوں اور کوریائی خواتین سے پیدا ہونے والے بچوں کو بچانے کے بہانے سے شروع ہوا تھا۔
جنوبی کوریا کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ گود لینے کے لیے بیرون ملک بھیجے جانے والے بچوں کا سلسلہ سنہ 1980 کی دہائی تک پہنچ گيا۔ صرف 1985 میں بین الاقوامی سطح پر جنوبی کوریا کے 8,800 سے زیادہ بچوں کو گود لیا گیا، جو کہ ہر 1,000 نوزائیدہ بچوں میں سے تقریباً 13 بچے ہوتے ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1950 کے بعد سے جنوبی کوریا نے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ بچے گود لینے کے لیے بیرون ملک بھیجے ہیں۔ سنہ 2022 تک وہاں سے کم از کم 170,000 بچوں کو بیرون ملک گود لیے جانے کے لیے بھیجا گیا۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی سنہ 2022 کی رپورٹ کے مطابق اپنے بچوں کو 'گود لینے کے لیے دینے والے والدین میں سے 60 فیصد سے زیادہ کو گود لینے کے معنی اور اثرات کے بارے میں غلط معلومات دی گئی تھیں۔'
ان والدین نے نہ تو گود لیے جانے پر رضامندی دی تھی اور نہ ہی اپنے بچوں کو ترک کیا تھا۔

’حکومت منصوبے کی کپتان تھی اور گود لینے والی ایجنسیوں نے کشتی چلائی‘
کوریائی جنگ کے نتیجے میں جنوبی کوریا دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک تھا اور بہت کم خاندانوں کے بچوں کو گود لینے میں کوئی دلچسپی تھی۔
اس کے بعد جنوبی کوریا کی حکومت نے نجی ایجنسیوں کے زیر انتظام ایک بین الاقوامی پروگرام شروع کیا، جسے گود لینے کے خصوصی قوانین کے ذریعے اہم اختیارات دیے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ’نگرانی اور انتظام میں خامیاں‘ تھیں جس کے نتیجے میں ان ایجنسیوں کی جانب سے مستقل کوتاہیاں برتی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر ملکی ایجنسیوں نے ہر ماہ بچوں کی ایک مقررہ تعداد کا مطالبہ کیا تھا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ جنوبی کوریائی ایجنسیوں نے ’کم سے کم طریقہ کار کی پابندی کیے بغیر بڑے پیمانے پر بین الملکی گود لینے کی سہولت‘ پر عمل در آمد کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے فیس کے متعلق کسی ضابطے کی عدم موجودگی سے کوریائی ایجنسیوں نے من مانی بڑی رقوم وصول کیں اور ’ڈونیشن‘ کا مطالبہ کیا جس کی وجہ سے گود لینے کا عمل ’منافع بخش صنعت‘ میں تبدیل ہو گیا۔
دیگر کوتاہیوں میں پیدا کرنے والی ماؤں کی مناسب رضامندی کے بغیر گود لینے کے لیے بچہ دینے اور گود لینے والے والدین کی ناکافی سکریننگ شامل ہیں۔
غلط شناخت
ایجنسیوں نے ایسی من گھڑت رپورٹیں بھی بنائیں جن سے بچوں کو ایسا لگا جیسے انھیں چھوڑ دیا گیا ہے اور گود لینے کے لیے رکھا گیا ہو۔ جان بوجھ کر بچوں کو غلط شناخت دی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ بہت سے گود لینے والوں کی کاغذی کارروائی میں غلط شناخت درج تھی اس لیے اب وہ اپنے حقیقی خاندانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور انھیں ناکافی قانونی تحفظ حاصل ہے۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ حکومت سرکاری طور پر معافی مانگے اور گود لینے کے بین الاقوامی معیارات کی تعمیل کرے۔
سنہ 1980 کی دہائی میں صدر چون ڈو ہوان کے دور حکومت میں کوریائی بچوں کو گود لینے کی بین الاقوامی تعداد اپنے عروج پر تھیبین الاقوامی سطح پر گود لینے کی محقق، ڈاکٹر شن پل سک جو سیوکیونگ یونیورسٹی میں وومن سٹڈیز کی محقق بھی ہیں، کہتی ہیں کہ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر گود لینے کے لیے ادارہ جاتی طریقہ کار تو تشکیل دیا لیکن اس عمل کی انجام دہی نجی گود لینے والی ایجنسیوں کے سپرد کر دی۔
ڈاکٹر شن کا کہنا ہے کہ اس سے دونوں کے درمیان ایک دوسرے پر ’الزام تراشی کا سلسلہ‘ پیدا ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ’حکومت کپتان تھی جبکہ گود لینے والی ایجنسیوں نے کشتی چلائی۔‘
ڈاکٹر شن کے مطابق حکومت نے گود لینے کی بین الاقوامی پالیسیوں میں مداخلت کرتے ہوئے ہر سال بیرون ملک گود لیے جانے والے بچوں کی تعداد پر کوٹہ مقرر کیا یا بعض ممالک میں گود لینے کو مکمل طور پر روک دیا۔
تاہم پالیسی میں اس عمل دخل نے گود لینے کے عمل کو سنبھالنے والی نجی ایجنسیوں کے غیر قانونی طریقوں کی مناسب نگرانی اور انتظام کا احاطہ نہیں کیا۔
گود لینے کے حوالے سے ماضی کے مسائل اور حکومت کی ذمہ داری کے بارے میں بی بی سی نیوز کورین کے سوال کے جواب میں وزارت صحت اور بہبود نے کہا: ’ہم اس تاریخی اور سماجی تناظر کو تسلیم کرتے ہیں جس میں بین الاقوامی سطح پر گود لینے کا کام ہوا اور ہم ریاست کی ذمہ داری کو مضبوط بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
جنوبی کوریا: دنیا میں بچے برآمد کرنے والا تیسرا سب سے بڑا مرکز
جنوبی کوریا اب بھی اقتصادی تعاون و ترقی تنظیم (او ای سی ڈی) کا واحد ملک ہے جو بین الاقوامی سطح پر گود لینے کے لیے بچوں کو بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ سنہ 2022 میں یہ دنیا بھر میں بچوں کی برآمد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہا۔
محقق پیٹر سیلمن کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یوکرین جنگ کے باعث کئی ممالک نے بین الاقوامی سطح پر گود لینے کا عمل معطل کر دیا، تاہم جنوبی کوریا بچوں کو بیرون ملک بھیجنے والے تین بڑے ممالک میں شامل رہا۔
سب سے زیادہ بچے کولمبیا اور انڈیا سے بھیجے جاتے ہیں۔
ہان نے اپنی بیٹی کو 'آئی ایم سوری' لکھنے سے انگریزی زبان سیکھنا شروع کیا تاکہ اپنی بیٹی سے بات کر سکیں اور اب تک دس نوٹ بک بھر چکی ہیںاپنی لاپتہ بیٹی کو 44 سال بعد ڈھونڈنے والی ہان نے گذشتہ سال حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے جس سے پہلی بار لاپتہ بچوں کو غیر قانونی طور گود لینے کے لیے بھیجنے کے معاملے پر عوام کی توجہ مبذول ہوئی ہے۔
اس کے متعلق صحت اور فلاح و بہبود کی وزارت نے جواب دیا: 'ہمیں ان لوگوں کے ساتھ گہری ہمدردی ہے جو طویل عرصے سے اپنے خاندانوں سے الگ ہیں اور ہم ان کی اس صورتحال سے بہت غمزدہ ہیں۔'
گود لیے جانے والے بچے آج بھی زندہ ہیں اور زیادہ تر درمیانی عمر میں داخل ہو چکے ہیں۔
ایسے ہی ایک شخص ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ہان بُن ینگ بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ 'جن والدین کو اپنے بچوں کو گود لینے کے لیے بیرون ملک بھیجنے پر مجبور کیا گیا تھا، ان میں سے بہت سے آج تک اپنے بچوں سے نہیں مل سکے۔'
'ان والدین کے لیے یہ شاید آخری موقع ہو اور اگرانھوں نے اب بھی قدم نہ اٹھایا تو شاید ہمیشہ کے لیے بہت دیر ہو جائے۔'