یو ایس جی ایس کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ زلزلے محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ لوگ اس بارے میں کسی قسم کا انتباہ چاہتے ہیں۔
یو ایس جی ایس کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ زلزلے محسوس کیے جاتے ہیں۔برینٹ دمترک دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ زلزلوں کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔
اکتوبر کے وسط میں انھوں نے اپنے سوشل میڈیا فالوورز کو بتایا تھا کہ بہت جلد ہی امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ساحلی شہر یوریکا میں زلزلہ آئے گا۔
تقریباً دو ماہ بعد شمالی کیلیفورنیا میں 7.3 شدت کا زلزلہ آیا جس کے بعد سونامی وارننگ بھی جاری کی گئی۔ اس واقعے کے بعد دمترک کو آن لائن فالو کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور لوگ اگلے بڑے زلزلے کی پیش گوئی کے لیے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
نئے سال کے موقع پر انھوں نے کہا تھا جو لوگ میرے کام کو محض اتفاق کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں، انھیں بس یہ کہنا چاہوں گا کہ زلزلوں کی پیش گوئی کے لیے مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم یہاں ایک مسئلہ ہے: زلزلوں کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق زلزلوں کی پیش گوئی ممکن نہیں۔
زلزلوں کی یہی غیر یقینی صورتحال انھیں اتنا پریشان کن بناتی ہے۔
شمالی امریکہ کے مغربی ساحل پر رہنے والے لاکھوں لوگوں کو خدشہ ہے کہ کسی بھی دن ایک 'بڑا' زلزلہ آ سکتا ہے جو لاکھوں زندگیاں متاثر کر سکتا ہے۔
یاد رہے جمعے کے روز میانمار میں آنے والے 7.7 شدتہ کے زلزلے میں اب تک 1600 سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 3400 سے زائد زخمی ہیں۔
لاس اینجلس میں آنے والا نارتھریج زلزلہ جس میں 57 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے حالیہ وقتوں میں امریکہ میں آنے والا سب سے تباہ کن زلزلہ تھا۔لوسی جونز ایک سیسمالوجسٹ (ماہر زلزلہ) ہیں جو تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک امریکی جیولوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) کے ساتھ منسلک رہیں۔ وہ 'دی بگ ونز' نامی کتاب کی مصنف ہیں۔ انھوں نے اپنی زیادہ تر تحقیق زلزلے کے امکانات کا پتہ لگانے اور ان تباہ کن واقعات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر صلاحیت پیدا کرنے پر مرکوز رکھی ہے۔
ڈاکٹر جونز کہتی ہیں کہ جب سے وہ زلزلوں کا مطالعہ کر رہی ہیں تب سے انھوں نے ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اس بات کا جواب چاہتے ہیں کہ اگلا 'بڑا' واقعہ کب ہوگا اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اس کی پیش گوئی کا راز جان لیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آنے والے خطرے کے بارے میں جاننے کی خواہش رکھنا انسانی فطرت کا حصہ ہے 'تاہم انسان پیش گوئی کی طاقت نہیں رکھتا۔'
یو ایس جی ایس کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ زلزلے محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ لوگ اس بارے میں کسی قسم کا انتباہ چاہتے ہیں۔
یوریکا جہاں گذشتہ دسمبر میں زلزلہ آیا تھا سان فرانسسکو سے 270 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے ایک سال کے دوران یہاں 700 سے زائد زلزلے محسوس کیے گئے ہیں۔
یو ایس جی ایس کے مطابق وہ خطہ جس کے بارے میں دمترک نے پیش گوئی کی تھی کہ اس کا شمار امریکہ کے ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں زلزلہ آنے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ تین ٹیکٹونک پلیٹس کے سنگم پر واقع ہے جسے مینڈوسینو ٹرپل جنکشن کہا جاتا ہے۔
ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت اور ایک دوسرے سے ٹکرانے کی وجہ سے زیرِ زمین تناؤ پیدا ہوتا ہے اور جب یہ تناؤ خارج ہوتا ہے تو یہ زلزلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
ڈاکٹر جونس کہتی ہیں کہ اس خطے میں زلزلہ آئے گا، یہ پیش گوئی کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ تاہم ان کے مطابق سات شدت کا زلزلہ ایک غیر معمولی بات ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق 1900 سے لے کر اب تک ایسے صرف 11 زلزلے آئے ہیں جن کی شدت سات یا اس سے زیادہ تھی۔
ڈاکٹر جونز نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ دمترک کا اندازہ درست ثابت ہوا ہے تاہم کسی بھی زلزلے کی درستگی کے ساتھ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
ان کا کہنا ہے کہ زلزلے مختلف ارضیاتی عوامل کے ایک پیچیدہ اور متحرک مجموعے کے سبب آتے ہیں۔
ڈاکٹر جونز بتاتی ہیں کہ زلزلے کی شدت کتنی ہوگی اس کا دارومدار زلزلے کے وقت پیش آنے والی صورتحال پر ہوتا ہے۔
کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑنے کو بطور تشبیہ استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر جونز بتاتی ہیں کہ کاغذ اس وقت تک پھٹتا رہے گا جب تک کوئی بیرونی قوت اسے روک نہ دے یا اس کی رفتار کم نہ کر دے۔
سائنسدان یہ تو جانتے ہیں کہ زلزلے فالٹ لائنز کی اچانک حرکت کی وجہ سے آتے ہیں۔ لیکن یو ایس جی ایس کے مطابق اس طرح کے واقعے کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں امکان ہے کہ اس کی پیش کوئی کی جا سکے۔
1906 میں آنے والے زلزلے میں سان فرانسسکو شہر مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ارضیاتی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ زلزلوں کی سب سے بڑی اقسام میں سے کچھ باقاعدگی کے ساتھ رونما ہوتے ہیں۔
کاسکیڈیا سبڈکشن زون ہر 300 سے 500 سال بعد پھسلتا ہے اور اس کے نتیجے میں بحر الکاہل کے شمال مغربی ساحل کو 100 فٹ (30.5 میٹر) اونچے میگا سونامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جنوبی کیلیفورنیا میں سان اینڈریاس فالٹ بھی بڑے زلزلوں کا ذریعہ ہے جو ہر 200 سے 300 سال بعد بڑے زلزلے کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی خطے میں کسی بھی وقت کوئی بڑا زلزلہ آسکتا ہے۔
ڈاکٹر جونز کہتی ہیں کہ اپنے کیرئیر کے دوران انھیں کئی ہزار لوگوں نے بڑے زلزلے کی ایسی پیش گوئیوں سے آگاہ کیا ہے۔ 1990 کی دہائی مِں لوگ ان کے دفتر ایسی پیش گوئیاں فیکس بھی کیا کرتے تھے۔
وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، 'جب آپ کو ہر ہفتے ایک پیش گوئی مل رہی ہو تو ان میں سے ایک نہ ایک تو سچ ثابت ہو سکتی ہے نا؟'
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ایسے افراد کی اگلی 10 پیش گوئیاں درست ثابت نہیں ہوتیں۔
اور بظاہر ایسا ہی کچھ دمترک کے ساتھ ہوا جن کا کوئی سائنسی پس منظر نہیں ہے۔
انھوں نے طویل عرصے سے پیش گوئی کی ہوئی ہے کہ ایک ناقابل یقین حد تک بڑا زلزلہ جنوب مغربی الاسکا، جاپان یا نیوزی لینڈ کے ساحل سے دور جزیروں پر آئے گا جس کی شدت اتنی زیادہ ہوگی کہ اس سے عالمی تجارت بھی متاثر ہو گی۔
جمعے کے روز میانمار میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں اب تک 1600 سے زائد افراد ہلاک جبکہ بڑے یمانے پر تباہی ہوئی ہے۔یو ایس جی ایس کا کہنا ہے کہ زلزلے کی پیش گوئی کے کارآمد ہونے کے لیے اس میں تین اہم جزو ہونے چاہیے: زلزلہ کب اور کس وقت آئے گا، کہاں آئے گا اور اس کی شدت کتنی ہوگی؟
تاہم دمترک کی جانب سے دیا جانے والا وقت بدلتا رہتا ہے۔
ایک موقع پر ان کا کہنا تھا کہ زلزلہ ڈولڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے عین قبل یا بعد میں آئے گا۔
پھر انھوں نے کہا کہ یہ زلزلہ یقیناً 2030 میں آئے گا۔
حالانکہ اتنی شدت کا زلزلہ اب تک آیا نہیں ہے، تاہم انھیں اب بھی یقین ہے کہ یہ زلزلہ ضرور آئے گا۔
دمترک نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں یہ محض کوئی اتفاق نہیں 'یہ کوئی بے ترتیب یا قسمت پر مبنی چیز نہیں۔'
ڈاکٹر جونز کہتی ہیں کہ زلزلوں کو لے کر اس طرح کی سوچ عام ہے۔
ان کے مطابق کبھی کبھار بے ترتیب تقسیم بھی ایسے نظر آسکتی ہے جیسے ان میں کوئی ترتیب ہو 'ہم ستاروں میں بھی تو برج دیکھتے ہیں۔'
'بہت سے لوگ زلزلوں سے بہت خوفزدہ ہیں اور اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ یہ معلوم کرنا ہے کہ زلزلے کب آئیں گے۔'
زلزلے سے بچنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
ماہرین کہتے ہیں کہ زلزلے کی پیش گوئی نہ کر پانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس کے لیے تیاری بھی نہیں کر سکتے۔
ہر سال اکتوبر کے تیسری جمعرات کو لاکھوں امریکی دنیا کی سب سے بڑی زلزلے کی مشق میں حصہ لیتے ہیں۔
اس مشق کی شروعات جنوبی کیلیفورنیا کے زلزلہ مرکز کے ایک گروپ نے کی تھی۔ ڈاکٹر جونز بھی اس گروپ کا حصہ ہیں۔
مشق کے دوران، لوگ ڈراپ، کور، اور ہولڈ آن کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس دوران لوگ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں، میز جیسی کسی مضبوط چیز کے نیچے پناہ لیتے ہیں اور ایک منٹ تک اسے تھام کر وہاں رکے رہتے ہیں۔
یہ مشق اب اتنی مقبول ہو گئی ہے کہ یہ اب دوسری ریاستوں اور ممالک تک پھیل چکی ہے۔
جو لوگ باہر موجود ہوتے ہیں، انھیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ عمارتوں، درختوں اور بجلی کی لائنوں سے دور کسی کھلی جگہ پر چلے جائیں۔ ساحل کے نزدیک رہنے والوں کو زلزلے کے رکنے کے بعد سونامی سے بچنے کے لیے اونچی جگہوں پر جانے کی مشق کروائی جاتی ہے۔
واشنگٹن سٹیٹ ایمرجنسی مینجمنٹ ڈویژن کے زلزلہ اور آتش فشاں پروگرام کے مینیجر برائن ٹربش کہتے ہیں 'جب زمین نہیں ہل رہی ہے اور بہت زیادہ دباؤ والی صورتحال نہیں ہے تو یہ واقعی مشق کرنے کا بہترین وقت ہے۔'
مشقوں کے علاوہ مغربی ساحلی ریاستوں کے رہائشی یو ایس جی ایس کے زیرِ انتظام فون الرٹ سسٹم کا استعمال کرتے ہیں جسے شیک الرٹ کہا جاتا ہے۔
یہ نظام زلزلے کے نتیجے میں خارج ہونے والی پریشر کی لہروں کا پتہ لگا کر کام کرتا ہے۔ اگرچہ اس کی مدد سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ مستقبل بعید میں کب زلزلہ آئے گا، لیکن یہ زلزلے سے چند سیکنڈ قبل وارننگ دیتا ہے جو جان بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ زلزلے کی 'پیش گوئی' کے قریب ترین چیز ہے جو اب تک ایجاد ہوئی ہے۔