کشمیر میں ’جنگل وار فیئر‘: انڈین فورسز کو دشوار گزار علاقوں میں آپریشن کے دوران مشکلات کا سامنا

تازہ جھڑپیں جموں کے اُدھم پور اور کشتواڑ اضلاع کے دور دراز اور جنگلاتی علاقوں میں منگل کی شب اُسوقت شروع ہوئیں جب جاری آپریشن کے دوران فوج اور پولیس کو اُدھم پور کے جوفر اور کشتواڑ کے نائید گام علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع ملی۔ ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ’دشوار گزار پہاڑیوں اور دریا کی وجہ سے آپریشن میں وقت لگ سکتا ہے۔‘
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2021 سے اب تک پونچھ، راجوری، کٹھوعہ، ریاسی، ڈوڈہ، کشتواڑ اور اُدھم پور میں مختلف مسلح حملوں کے دوران 51 فورسز اہلکار مارے گئے ہیں۔
Getty Images
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2021 سے اب تک پونچھ، راجوری، کٹھوعہ، ریاسی، ڈوڈہ، کشتواڑ اور اُدھم پور میں مختلف مسلح حملوں کے دوران 51 فورسز اہلکار مارے گئے ہیں

منگل کی شب جموں میں ادھمپور اور کشتواڑ اضلاع کے جنگلاتی علاقوں کا محاصرہ اُسی وسیع فوجی آپریشن کا حصہ ہے جو 24 مارچ کو عسکریت پسندوں کی فائرنگ میں چار فورسز اہلکاروں کی ہلاکت کے فوراً بعد شروع ہوا تھا۔ جھڑپ میں فوج نے دو عسکریت پسندوں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

تازہ جھڑپوں سے صرف ایک دن پہلے انڈین وزیرداخلہ امیت شاہ، فوجی سربراہ اوپیندر دِویدی اور انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) اور متعدد دیگر خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں نے جموں اور سرینگر میں جائزہ اجلاسوں کے دوران سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔

تازہ جھڑپیں جموں کے ہی اُدھم پور اور کشتواڑ اضلاع کے دور دراز اور جنگلاتی علاقوں میں منگل کی شب اُسوقت شروع ہوئیں جب جاری آپریشن کے دوران فوج اور پولیس کو اُدھم پور کے جوفر اور کشتواڑ کے نائید گام علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع ملی۔

ادھمپور کے ایس ایس پی امود ناگپُورے کے مطابق ’دہشت گردوں نے تلاشی پارٹی پر فائرنگ کی جس کا جواب دیا گیا۔ آپریشن جاری ہے۔ تاہم دشوار گزار پہاڑیوں اور دریا کی وجہ سے آپریشن میں وقت لگ سکتا ہے۔‘

کشتواڑ کے نائید گام علاقے میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے تاہم وسیع علاقے کو محاصرے میں لیا گیا ہے۔ وہاں کے ایک مقامی شہری وِنود کمار نے بتایا کہ ’جھڑپ تو نائید گام سے بہت دُور جنگل میں ہو رہی ہے تاہم بستی میں بھی مکانوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔‘

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2021 سے اب تک پونچھ، راجوری، کٹھوعہ، ریاسی، ڈوڈہ، کشتواڑ اور اُدھم پور میں مختلف مسلح حملوں کے دوران51 فورسز اہلکار مارے گئے ہیں۔

دریں اثنا جموں میں پولیس ذرائع نے بتایا کہ آپریشن کی جگہ کے فضائی معائنے کے لیے فوج نے ایک ڈرون جائے وقوعہ کی طرف اُڑایا تھا جو تکنیکی خرابی کی وجہ سے جموں ایئرپورٹ کے ایک ٹاور سے ٹکرا کر کریش ہوگیا۔

اس واقعے میں انڈین ائیرفورس کا ایک اہلکار شدید زخمی ہوگیا ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ ڈرون اسرائیلی ساخت کا ’ہیرون ایم کے 2‘ ہے جو انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کی خاطر اسرائیل سے خریدا گیا ہے۔

آپریشن کشمیر
Getty Images
ادھمپور کے ایس ایس پی امود ناگپُورے کے مطابق ’دہشت گردوں نے تلاشی پارٹی پر فائرنگ کی جس کا جواب دیا گیا۔ آپریشن جاری ہے، تاہم دشوار گزار پہاڑیوں اور دریا کی وجہ سے آپریشن میں وقت لگ سکتا ہے‘

مسلح تشدّد کی لہر جموں کیسے پہنچی؟

5 اگست 2019 کے بعد اچانک پونچھ۔راجوری اور جموں کے دوسرے علاقوں میں مسلح حملوں میں تیزی آگئی، لیکن وادئ کشمیر میں علیحدگی پسندوں کے بیشتر گروپوں پر پابندی، سینکڑوں لوگوں کی گرفتاری اور سوشل میڈیا پر حکومت مخالف اظہارِ رائے پر سخت قدغن کی وجہ سے حالات مجموعی طور پر پرسکون رہے۔

معروف اُردو روزنامہ ’کشمیر عظمیٰ‘ کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں ’سنہ 2019 کے بعد کشمیر میں سکیورٹی سسٹم کو بے مثال حد تک سخت کردیا گیا۔ یہاں انٹیلی جینس نیٹ ورک کا دائرہ بھی وسیع کیا گیا ہے۔ یہاں کبھی کبھار کوئی عسکریت پسند کچھ کر بھی لیتا تھا تو جلد ہی کسی مکان میں محصور ہوکر مارا جاتا تھا۔‘

ریاض ملک کے مطابق یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسند جموں کے پہاڑی اور جنگلاتی علاقوں کی طرف منتقل ہوگئے، جہاں فوجی کاروائیاں بہت مشکل ہیں۔ ’وہاں پہاڑ، گھنے جنگل، ندی نالے اور لاتعداد غاریں ہیں۔ بیشتر علاقوں میں موبائل نیٹ ورک بھی نہیں ہے۔ جب تک فوجی کمک جائے وقوعہ تک پہنچتی ہے تب تک عسکریت پسند کئی کلومیٹر دُور نکل چکے ہوتے ہیں۔‘

کشتواڑ کے رہنے والے ایک صحافی سورب راٹھور کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں اکثر حملوں کے بعد عسکریت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ’ان خطوں میں اکثر موسم خراب رہتا ہے، اور سڑکوں کی حالت اس قدر خراب ہے کہ آدھے گھنٹے کا سفر تین گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔‘

فوجی آپریشن میں شامل ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’دہشت گردوں کو اونچائی، پہاڑی درّوں اور گھنے جنگلات کا فائدہ مل رہا ہے۔

’حالانکہ راجوری اور پونچھ کا خطہ ڈوڑہ، کشتواڑ، کٹھوعہ، اُدھم پور اور ریاسی کے درمیان سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ آج جہاں آپریشن ہورہا ہے وہ پہاڑی درّوں سے ہوتا ہوا کشمیر کے کوکر ناگ سے بھی ملتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری واضح حکمت عملی ہے۔ وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن ہم اس خطے کو دہشت گردوں سے پاک کرکے ہی رہیں گے۔‘

تازہ جھڑپوں سے صرف ایک دن پہلے انڈین وزیرداخلہ امیت شاہ، فوجی سربراہ اوپیندر دِویدی اور انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) اور متعدد دیگر خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں نے جموں اور سرینگر میں جائزہ اجلاسوں کے دوران سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔
Getty Images
تازہ جھڑپوں سے صرف ایک دن پہلے انڈین وزیرداخلہ امیت شاہ، فوجی سربراہ اوپیندر دِویدی اور انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) اور متعدد دیگر خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں نے جموں اور سرینگر میں جائزہ اجلاسوں کے دوران سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا تھا

جنگل وار فیئر سے انڈیا کیسے نمٹے گا؟

اقوام متحدہ کے محکمہ انسداد دہشت گردی سے وابستہ رہ چکے صحافی لَو پُوری کشمیر میں عسکریت پسندی سے متعلق دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ مسٹر پُوری کا کہنا ہے کہ مسلح عسکریت پسندی کا کشمیر سے جموں کی طرف شفٹ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

اُن کے مطابق سنہ ’1947 میں پاکستانی قبائلی علاقوں کے مسلح حملہ آور ہوں یا سنہ 1965 میں پاکستانی میجر جنرل اختر حُسین ملک کا آپریشن جبرالٹر، جموں کے علاقے خاص طور پر پونچھ۔راجوری (پیرپنچال ویلی) ہمیشہ پاکستان کے لیے سٹریٹجِک اہمیت رکھتے ہیں۔‘

لَو پُوری کہتے ہیں کہ سنہ 1990 سے 2007 تک کشمیر میں ہونے مجموعی تشدد کا 35 فیصد راجوری، پونچھ اور ڈوڈہ کشتواڑ بیلٹ میں رونما ہوا تھا۔ واضح رہے سنہ2001 میں امریکہ کے جڑواں ٹاورز پر حملے کے بعد کشمیر میں عسکریت پسندی کا زور کم پڑگیا تھا، لیکن 14 مئی 2002 کے روز جموں ہائی پر کالو چک کے مقام پر ایک فوجی چھاونی کے فیملی کوارٹرسپر مسلح عسکریت پسندوں کے حملے میں فوجیوں، خواتین اور بچوں سمیت 30 افراد مارے گئے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس اپریل اور مئی کے دوران پاکستانی علاقے شکر گڑھ سے مسلح دراندازوں کی بڑی تعداد انڈیا کی طرف سانبہ اور کٹھوعہ کے میدانی علاقوں میں داخل ہونےمیں کامیاب ہوگئی تھی۔

لَو پُوری کہتے ہیں کہ ’مسلح عسکریت پسندوں کو جموں کے جنگلاتی علاقوں میں صرف پہاڑوں اور گھنے جنگلوں کی وجہ سے کامیابی نہیں ملتی۔‘

’راجوری، پونچھ اور ڈوڈہ خطے کے بعض علاقوں میں آنے والے پاکستانی درانداز مقامی لوگوں کے ساتھ نسلی، ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ اکثر کے تو یہاں رشتہ دار بھی ہوتے ہیں، وہ ایک ہی زبان بولتے ہیں، رہن سہن بھی ایک جیسا ہے۔ میں سمجھتا ہوں پونچھ اور راجوری پاکستانی زیرانتظام کشمیر کا ایک ایکسٹنشن ہے۔ اس لیے یہاں ملی ٹنٹوں کا سروائیو کرنا آسان ہے، کیونکہ انھیں مقامی آبادی سے الگ کرنا مشکل ہے۔‘

خیال رہے کہ پاکستانی حکام نے ماضی میں دراندازی کے الزامات کی تردید کی ہے۔

کشمیر کے اکثر موٴرخین کہتے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد گجر آبادی کو ’سیکولرائز‘ کرنا تھا تاکہ وہ مستقبل میں کسی امکانی خطرے کے وقت انڈین افواج کے مخالف نہیں بلکہ معاون ہوں۔ اس پالیسی کے مثبت نتائج بھی نکلے کیونکہ راجوری اور پونچھ میں مسلح شورش کے دوران گجر آبادی میں سے اکثرنے فوج کا ساتھ دیا اور کئی سال تک وہاں پُرسکون حالات رہے۔
Getty Images
کشمیر کے اکثر موٴرخین کہتے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد گجر آبادی کو ’سیکولرائز‘ کرنا تھا تاکہ وہ مستقبل میں کسی امکانی خطرے کے وقت انڈین افواج کے مخالف نہیں بلکہ معاون ہوں

مسٹر پُوری وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر عسکریت پسندی کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ وہ کہتے ہیں ’حکومت تو قائم ہوگئی ہے، لیکن سکیورٹی معاملات سے حکومت کو الگ کیا گیا ہے۔ سِول حکومت نئی دلی اور کشمیر کے درمیان ایک بفر کا کام کرتی رہی ہے۔ آپ ریموٹ کنٹرول سے سب ٹھیک نہیں کرسکتے۔ سکیورٹی پالیسی ایسے افسر ترتیب دے رہے ہیں جو کشمیر کے جغرافیہ سے بھی واقف نہیں ہیں۔‘

قابل ذکر ہے کہ سنہ 1947 اور سنہ 1965 میں راجوری پونچھ میں برپا ہوئی عسکریت پسندی کو دیکھتے ہوئے سنہ 1976 میں اُسوقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اسی خطے میں ایک گجر کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اُس کے بعد گجر آبادی کو ''شیڈول ٹرائب'' کا درجہ دے کر نوکریوں میں ریزرویشن دے دی گئی۔

کشمیر کے اکثر موٴرخین کہتے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد گجر آبادی کو ’سیکولرائز‘ کرنا تھا تاکہ وہ مستقبل میں کسی امکانی خطرے کے وقت انڈین افواج کے مخالف نہیں بلکہ معاون ہوں۔ اس پالیسی کے مثبت نتائج بھی نکلے کیونکہ راجوری اور پونچھ میں مسلح شورش کے دوران گجر آبادی میں سے اکثر نے فوج کا ساتھ دیا اور کئی سال تک وہاں پُرسکون حالات رہے۔

لیکن لَو پُوری کہتے ہیں کہ گجروں کو بی جے پی حکومت کے تازہ اعلان سے ناراض کیا ہے، اس اعلان میں گُجروں کو حاصل ریزرویشن کا دائرہ اونچی ذات اور نسبتاً بہتر معاشی حالات رکھنےوالے پہاڑی نسلی گروپ تک بڑھایا گیا۔

اس کے علاوہ گذشتہ برس راجوری میں ایک فوجی آپریشن کے دوران تین گجر نوجوانوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا لیکن حراست کے دوران ان کی موت ہوگئی۔ لَوپُوری کہتے ہیں ’جنگل وار فیئر فوجیوں کی تعداد بڑھانے سے نہیں جیتا جاسکتا، اس کے لیے لوگوں کو ناراض کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔‘

کشتواڑ اور اُدھم پور کے جنگلات میں آپریشن جاری ہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی افواج کے درمیان پونچھ میں چکاں دا باغ کراسنگ پوائنٹ پر جمعرات کو برگیڈئیر سطح کی ایک فلیگ میٹنگ کا انعقاد ہوا۔

انڈین فوج کے مطابق ’یہ معمول کا اجلاس تھا جس میں سرحدی انتظام سے متعلق گفتگو ہوئی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.