پاکستانی حکومت حالیہ برسوں میں متعدد مرتبہ خبردار کر چکی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد جو اسلحہ پڑوسی ملک میں رہ گیا تھا وہ خطے میں موجود مسلح گروہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال صوبہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کا واقعہ ہے۔
جعفر ایکسپریس پر حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھےپاکستانی حکومت حالیہ برسوں میں متعدد مرتبہ خبردار کر چکی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد جو اسلحہ پڑوسی ملک میں رہ گیا تھا وہ خطے میں موجود مسلح گروہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال صوبہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کا واقعہ ہے۔
امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا سنہ 2021 میں ہوا تھا اور سنہ 2022 امریکی محکمہ دفاع نے اپنی ایک رپورٹ میں اقرار کیا تھا کہ امریکہ تقریباً سات ارب ڈالر کا عسکری ساز و سامان افغانستان میں چھوڑ آیا ہے۔
امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر میڈیا ادارے سی بی ایس نیوز کے مطابق محکمہ دفاع کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ امریکی فوج افغانستان میں تقریباً 40 ہزار گاڑیاں اور تین لاکھ سے زیادہ اسلحہ افغانستان میں چھوڑ آئی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے امریکی اسلحہ واپس لیں گے۔
اب ایک بار پھر افغانستان میں موجود امریکی اسلحہ خبروں میں ہے اور اس کی وجہ گذشتہ مہینے مہینے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حملہ تھا جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق پاکستانی حکام نے انھیں تین امریکی رائفلز کے سیریئل نمبر دیے ہیں جو کہ مبینہ طور پر جعفر ایکسپریس پر حملے کرنے والے افراد کے استعمال میں تھیں۔
پاکستان کے وزیرِ ممالکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے وقت جو اسلحہ اتحادی افواج چھوڑ کر گئی وہ ’صرف افغان حکومت کے پاس ہی نہیں بلکہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاس بھی موجود ہے۔'
امریکی اخبار کے مطابق ان کے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق ان میں سے رائفلز ان امریکی ہتھیاروں میں شامل تھیں جو کہ امریکہ نے ماضی میں افغانستان کی سکیورٹی فورسز کو دی تھیں۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والوں کے پاس ایک ایم فور اے ون رائفل بھی تھی جو کہ امریکہ اسلحہ ساز کمپنی کولٹ نے بنائی تھی۔
پاکستانی حکام متعدد مرتبہ ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ٹی ٹی پی سمیت خطے میں موجود متعدد عسکریت پسند گروہ امریکی اسلحہ استعمال کر رہے ہیںپاکستانی حکام اس سے قبل متعدد مرتبہ ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت خطے میں موجود متعدد عسکریت پسند گروہ امریکی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔
رواں برس ایک بیان میں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے پڑوسی ملک میں امریکی اسلحے کی موجودگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ افغانستان کے حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ یہ اسلحہ کسی بھی صورت میں دہشتگرد گروہوں کے ہاتھ نہ لگے۔‘
’خطے کے ممالک کے لیے یہ ایک اہم خدشہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر مزید توجہ دی جائے۔‘
'دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کی ملی بھگت'
14 مارچ کو پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جعفر ایکسپریس حملے اور ریسکیو آپریشن پر اپنی پریس بریفننگ میں بتایا تھا کہ اس واقعے کے کڑیاں پڑوسی افغانستان سے جڑتی ہیں۔ انھوں نے اپنی پریزنٹیشن میں دہشتگردوں سے برآمد ہونے والے امریکی ساختہ ہتھیاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں یہ ہتھیار ’افغانستان سے مل رہے ہیں۔‘
پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسند گروہوں پر گہری نظر رکھنے والے امریکہ میں مقیم تجزیہ کار اسفندیار میر کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کے پاس امریکی ساختہ اسلحہ تین طریقوں سے پہنچ سکتا ہے اور تینوں افغانستان پر طالبان کے قبضے سے منسلک ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں ’پہلا یہ کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دوران افراتفری کے سبب افغان سکیورٹی اہلکار اپنے ہتھیار اور اسلحہ ڈپو جلدبازی میں پیچھے چھوڑ گئے ہوں یا پھر انھوں نے جان بوجھ کر عسکریت پسندوں کو ان ہتھیاروں تک رسائی دے دی ہو۔‘
’دوسرا یہ کہ طالبان قیادت اور ان کے کمانڈروں نے خود یہ ہتھیار عسکریت پسند گروہوں کے حوالے کر دیے ہوں کیونکہ ان کے سرحد پار ٹی ٹی پی سے تعلقات ہیں، نظریہ اور سیاسی مقاصد ایک ہیں۔‘
’تیسرا یہ کہ امریکی ہتھیار طالبان کی کمزوری کے سبب یا پھر کچھ طالبان دھڑوں نے پیسہ کمانے کی خواہش کے سبب بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیے گئے ہوں۔‘
اسفندیار میر کہتے ہیں کہ امریکی اسلحے سے لیس عسکریت پسند پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس اسلحے کے سبب 'ان کے حملوں کے معیار اور شدت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔'
مگر افغانستان اور پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ خطے میں موجود عسکریت پسند گروہوں خصوصاً بلوچ مسلح تنظیموں کا امریکی اسلحے کا استعمال کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔
امریکی تھنک ٹینک نیولائنز انسٹٹیوٹ سے منسلک سینیئر ڈائریکٹر کامران بخاری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ کوئی حیران کُن بات نہیں کہ پاکستان کے بلوچ عسکریت پسندوں کی امریکی اسلحے تک رسائی ہے کیونکہ افغانستان میں اس عسکری ساز و سامان کی بہتات ہے جو کہ امریکی فوج پیچھے چھوڑ گئی ہے۔‘
'ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ملک (افغانستان) ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف عسکری تنظیموں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کام کر رہے ہیں۔'
کامران بخاری مزید کہتے ہیں کہ امکان یہی ہے کہ بلوچ باغیوں کے پاس یہ اسلحہ ’دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی ملی بھگت‘ سے آیا ہو۔
اس اسلحے کی پاکستان میں موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کے وزیر طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک کے ادارے سرحدوں کو محفوظ بنانے اور اسلحے کی روک تھام کے لیے کام کر رہی ہے لیکن 'دوسری جانب (افغانستان) یہ ذمہ داری نہیں پوری کر پا رہا۔'
'افغانستان کے ساتھ سرحد پر 14 ہزار چیک پوسٹ قائم کیے گئے ہیں، 92 فیصد سرحد پر باڑ بھی لگائی گئی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ اتحادی افواج جو اسلحہ چھوڑ گئی ہیں وہ صرف افغان حکومت کے پاس نہیں ہے بلکہ بلوچ لبریشن آرمی اور ٹی ٹی پی کے پاس بھی یہ اسلحہ موجود ہے۔'
'کئی واقعات میں اس جدید اسلحے کا استعمال سامنے آیا ہے، چاہے وہ سنائپر رائفلز ہوں، نائٹ وژن گلاسز یا پھر بُلٹ پروف جیکٹس۔'
'اس خطرے پر قابو پانا چیلنج ہے'
انسٹٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد سے منسلک ریسرچ فیلو اسد اللہ خان کہتے ہیں کہ 'افغانستان حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ یہ یقینی بناتی کہ یہ ہتھیار نان سٹیٹ ایکٹرز یا دہشتگرد تنظیموں کے ہاتھ میں نہ آئیں۔'
پاکستانی حکومت متعدد مرتبہ یہ الزام عائد کرتی آئی ہے کہ پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔
اسد اللہ خان کہتے ہیں کہ 'یہ ہتھیار بالآخر ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گئے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے خلاف ساتھ لڑائی کرنے کے سبب ٹی ٹی پی کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ ہے۔'
امریکی اسلحے کی پاکستانی گروہوں کے پاس موجودگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ 'پاکستان اور افغانستان کے بیچ پورس بارڈر ہے اور کسی بھی قسم کی سمگلنگ کا کوئی مخصوص روٹ نہیں۔'
'تاہم دونوں اطراف بارڈر کنٹرول کا میکنزم کمزور ہے اور اسی سبب اس طرح کے سامان (امریکی اسلحے) کی منتقلی حیران کُن نہیں ہے۔'
پاکستانی حکومت متعدد مرتبہ یہ الزام عائد کرتی آئی ہے کہ پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیںجب اس حوالے سے پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'دونوں اطراف مشترکہ گاؤں ہیں اور ہر جگہ سکیورٹی فورسز کی موجودگی ہونا ممکن نہیں ہے۔'
'امریکہ کے پاس اتنے وسائل ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ میکسیکو کا بارڈر پوری طرح گارڈ نہیں کر سکتے۔'
دوسری جانب اسد اللہ خان کہتے ہیں کہ 'اس خطرے پر قابو پانا ایک چیلنج ہوگا، ایک سٹریٹیجی بنانی چاہیے جس کے تحت افغان حکومت پر سفارتی دباؤ بڑھایا جائے تاکہ وہ دہشتگردوں کو اپنی سرزمین اس خطے یا اس سے باہر کے مملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔'