افغانستان کے دارالحکومت کابل کی دیواریں جن پر کبھی انصاف اور معاشرتی آزادیوں سے متعلق نعرے درج ہوا کرتے تھے پر اب آمرانہ پیغامات کے ذریعے خواتین کے لیے حدود کا تعین کیا جا رہا ہے۔
زینب جو کبھی گھر سے حجاب کے بغیر نہیں نکلتیں ان کے لیے دیواروں پر درج یہ عبارتیں مذہبی رہنمائی سے زیادہ 'دباؤ اور ذلت' کا باعث ہیںافغانستان کے دارالحکومت کابل کی دیواریں جن پر کبھی انصاف اور معاشرتی آزادیوں سے متعلق نعرے درج ہوا کرتے تھے لیکن اب آمرانہ پیغامات کے ذریعے خواتین کے لیے حدود کا تعیّن کیا جا رہا ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لاکھوں افغان خواتین کی زندگیوں کی کہانی دوبارہ لکھی گئی ہے جو ’زور زبردستیوں اور لباس کی پابندیوں‘ سے متعلق ہے۔
اگست 2021 میں گذشتہ دورِ حکومت کے خاتمے کے بعد خواتین کے حقوق کی وزارت کو تحلیل کر کے اس کی جگہ وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر قائم کر دی گئی تھی۔ اس وزارت نے پورے کابل شہر کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
گذشتہ چار برسوں میں وزارت کی جانب سے جاری کیے گئے احکامات اور دیواروں پر درج عبارتیں طالبان حکومت کے مذہبی احکامات کی ترویج کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں اور اس کے باعث پورے کابل شہر ہی تبدیل ہو گیا ہے۔
کابل کی دیواروں پر آج قدامت پسند مذہبی احکامات درج ہیں جن میں سے اکثر کا موضوع خواتین، ان کے لباس، رویّے اور یہاں تک کہ خوشبو کا استعمال بھی ہے۔
کابل کی دیواریں جن پر کبھی انصاف اور معاشرتی آزادیوں سے متعلق نعرے درج ہوا کرتے تھے پر اب آمرانہ پیغامات کے ذریعے خواتین کے لیے حدود کا تعین کیا جا رہا ہےخواتین کا نقطۂ نظر
17 سالہ زینب جو کبھی گھر سے حجاب کے بغیر نہیں نکلتیں ان کے لیے دیواروں پر درج یہ عبارتیں مذہبی رہنمائی سے زیادہ ’دباؤ اور تذلیل‘ کا باعث ہیں۔
زینب نے جب ایک لمبا ڈھیلا ڈھالا کوٹ، سر پر سکارف، ایک کالا ماسک اور کالے چشمے پہن رکھے تھے اور وہ کابل کی پررونق گلیوں میں پیدل چل رہی تھیں جب میں نے ان سے دیواروں پر درج عبارتوں کے بارے میں پوچھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکیں، اور پھر انھوں نے پر عزم لہجے میں کہا کہ ’یہ عبارتیں ہر جگہ ہیں، شہر کے ہر کونے میں۔‘
انھوں نے ایک عبارت کے بارے میں تبصرہ کیا جس میں حجاب نہ پہننا ’اللہ اور پیغمبر اسلام کی نافرمانی‘ قرار دیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ سچ ہے کہ حجاب نہ پہننا خدا کی نافرمانی ہے لیکن افغانستان میں رہنے والی ہر لڑکی یہ سمجھتی ہے اور گھر سے باہر حجاب اور چادر کے بغیر نہیں نکلتی۔ زبردستی حجاب کروانا ٹھیک نہیں، اسلام میں زبردستی نہیں ہے۔‘
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو ان عبارتوں کے ذریعے اسلام اور اسلامی اقدار کی جانب سے مائل کرنے کے لیے لکھتے ہیں۔طالبان حکومت کا کیا ردِ عمل ہے؟
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو ان عبارتوں کے ذریعے اسلام اور اسلامی اقدار کی جانب سے مائل کرنے کے لیے لکھتے ہیں۔
طالبان حکومت کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان سیف الاسلام خیبر نے کہا کہ ’دیواروں پر اخلاقی پیغامات درج کرنا لوگوں کو اسلام کی جانب بلانے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ پیغامات انھیں اچھے اخلاق، تقویٰ اور حجاب کی پابندی کی جانب راغب کرنے کے لیے اہم ہیں۔‘
تاہم انسانی حقوق کے گروہ اسے معاشرتی جبر کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس کی ترجمان روینا شامداسانی کا ماننا ہے کہ خواتین کے خلاف سخت قوانین انھیں 'بنا چہرے، بنا آواز سائے' بنا رہے ہیں اور ان کی جانب سے اس صورتحال کو 'ناقابلِ قبول' قرار دیا گیا ہے۔
اگست 2024 میں، طالبان کی وزارتِ تشہیر نے 35 آرٹیکلز پر مشتمل ایک قانون منظور کیا جو خواتین پر سخت پابندیاں عائد کرتا ہے۔
ان پابندیوں کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے اور اقوام متحدہ نے انھیں 'افغان معاشرے سے خواتین کو ختم کرنے کی کوشش' قرار دیااس قانون کے تحت نقاب لازمی قرار دیا گیا، خواتین کے عوامی مقامات پر بولنے کی پابندی، لباس سے متعلق پابندیاں، غیر محرم سے دور رہنے، غیر مسلموں کے ساتھ میل جول پر پابندی، مردوں کے ساتھ آنکھ ملانے پر پابندی اور محرم کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کی شرط شامل تھی۔
ان پابندیوں کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے اور اقوام متحدہ نے انھیں ’افغان معاشرے سے خواتین کو ختم کرنے کی کوشش‘ قرار دیا۔
افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جن لوگوں کو طالبان کی گذشتہ حکومت یاد ہے، انھیں ان نئے قوانین میں اس دور کی حکومت سے مماثلت نظر آئے گی۔‘
افغانستان کے لوگ غربت اور بھوک سے نبرد آزما ہیں جبکہ خواتین بالخصوص بیروزگاری، صحت کی سہولیات تک محدود رسائی اور سماجی پابندیوں کا شکار ہیںحکومتی ترجیحات: حجاب یا معاش؟
افغانستان کے لوگ غربت اور بھوک سے نبردآزما ہیں جبکہ خواتین بالخصوص بیروزگاری، صحت کی سہولیات تک محدود رسائی اور سماجی پابندیوں کا شکار ہیں۔
شکرانہ رحیمی، ایک نوجوان خاتون جو کبھی طالب علم تھیں، بیرون ملک جانے کے لیے ویزا حاصل کرنے کے لیے ہرات سے کابل آئی تھیں۔ اعلیٰ تعلیم جاری رکھنا ان کے علاوہ افغانستان میں لاکھوں دیگر لڑکیوں کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ میں نے ان سے اماراتی وزارت کے قریب ایک پُرہجوم سڑک پر بات کی ہے۔
میں نے ایک ایسی عبارت کے بارے میں ان کا موقف دریافت کیا جس میں بڑے حروفِ تہجی میں لکھا گیا تھا کہ ’کوئی بھی خاتون جو خوشبو لگاتی ہے اور پھر مردوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ یہ خوشبو سونگھ سکیں زانی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب افغان عوام کو غربت اور بھوک جیسے مسائل درپیش ہیں حجاب اور ’معمولی‘ مسائل پر توجہ جیسے خواتین کے جسم کی خوشبو طالبان حکومت کی ترجیحات کے بارے میں سنگین سوالات کو جنم دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’خواتین کے حجاب پر توجہ دینے کے بجائے، انھیں ان خواتین کے بارے میں سوچنا چاہیے جن کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ ‘
’انھیں بیواؤں اور بے سہارا خواتین کے لیے ایک اچھی زندگی، گھر اور نوکری فراہم کرنی چاہیے، خواتین کے ایک بال کے بارے میں حساس ہونے کی بجائے، انھیں ان خواتین تک پہنچنا چاہیے جو صبح تک سڑکوں پر رات گزارتی ہیں، یہ اسلام میں زیادہ اہم ہے۔‘

طالبان کی جانب سے لکھی گئی ان عبارتوں کے بارے میں خیالات تو مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان سے خواتین پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اور اس بھاری بوجھ کے باوجود خواتین اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔