’فوراً فون آجاتا ہے کہ خبر ہٹا دیں‘: پاکستان آزادی صحافت کی عالمی فہرست میں ایک سال میں چھ درجے نیچے کیوں آ گیا؟

’موجودہ سیاست یا حکومت پر ہم بات کر سکتے ہیں۔ سیاستدانوں پر بات کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ آپ سیاستدانوں کی لڑائیاں کروا لیں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھلوا لیں فرق نہیں پڑے گا۔ اس طرح کی صحافت کی اجازت ہے۔‘
آزادی صحافت احتجاج
Getty Images

پاکستان میں سینیئر اور معتبر سمجھے جانے والے ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ اس ملک میں صحافت کے شعبے کو دو بڑی مشکلات کا سامنا ہے: سینسر شپ اور ڈس انفارمیشن۔

مگر ان کے بقول ’صورت حال یہ ہے کہ ایسی بے بنیاد خبریں ’اُدھر‘ سے آتی ہیں اور تمام چینلز ’اُن‘ کے کہنے پر چلاتے بھی ہیں۔ اگر کوئی ’اُن‘ کی دی گئی ڈس انفارمیشن پر سوال کرے تو جواباً اس کی حب الوطنی مشکوک بنا دی جاتی ہے۔‘

لیکن جب میں نے کہا کہ ’میں یہ ساری باتیں آپ کے نام کے ساتھ ہی لکھوں گی‘ تو انھوں نے صاف انکار کر دیا اور جواب دیا کہ ’ہرگز نہیں۔ آپ میرا نام نہیں لکھیں گی۔ بلکہ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں آ رہا کہ آپ نے کیا پوچھا ہے اور آپ کون ہیں؟‘

میں نے تحریر میں کہیں ان کا نام تو نہیں لکھا مگر یہ الفاظ پریس فریڈم ڈے یعنی آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں میڈیا کی موجودہ صورتحال کو بیان کرتے ہیں۔

معلومات تک رسائی کے حق سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کی تین مئی کو پریس فریڈم ڈے کے حوالے سے شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافت اور آزادی اظہاردونوں ہی سخت مشکلات اور پابندیوں کی زد میں ہیں جبکہ اس سال گراف گذشتہ سال کے مقابلے میں مزید نیچے گِر گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر آزادی صحافت میں 158 نمبر پر ہے جبکہ 2024 میں پاکستان انڈیکس پر 152 نمبر پر تھا۔

پہلے سے ہی سرخ دائرے یعنی خطرے کی حد میں موجود پاکستان کی آزادی صحافت میں اس سال ایسا مزید کیا ہوا کہ وہ مزید چھ نمبر نیچے چلا گیا۔

اسی معمے کو سمجھنے کے لیے ہم نے پاکستان کے چند صحافیوں سے بات کی اور ایک جمہوری نظام کے رائج ہونے کے باوجود ان کی مشکلات دریافت کرنا چاہیں۔

بی بی سی نے آزادی صحافت میں درپیش مشکلات پر بات کرنے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم تا دم تحریر ان کی جانب سے جواب نہ مل سکا۔ اگر ان کی جانب سے جواب موصول ہوا تو ہم ان کی رائے تحریر میں فوری شامل کر دیں گے۔

آزادی صحافت احتجاج
Getty Images

’انجان لوگ آئے اور میری سِم ناکارہ بنا دی‘

رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کی اس رپورٹ کی تفصیلات میں جانے سے پہلے کچھ مزید صحافیوں کے تجربات سے آگاہ کرتے چلیں جن کا نام ان کی اجازت سے ہم شامل کر رہے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ کار اعزاز سید کو اپنے کیریئر کے دوران معتدد بار جان سے مارنے کی دھمکیوں، نفرت آمیز آن لائن مہم اور حتی کہ گھر پر حملے کا سامنا رہا ہے۔

وہ ماضی کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایک اہم عہدے پر تعینات فوجی افسر کے حوالے سے میں نے پروگرام میں خبر دی تو پہلے میرا واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک ہوا۔ پھر کچھ ’انجان‘ لوگ مجھ سے ملنے زبردستی آئے۔ انھوں نے فون لے کر سم کو ناکارہ بنایا تاکہ واٹس ایپ بحال نہ ہو۔‘

وہ ایک اور مثال دیتے ہیں کہ جب سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں تو انھوں نے اپنے پروگرام میں ان کا دفاع کیا اور کہا ’عدلیہ کو دھمکی دینے کی اجازت کسی کو نہیں ہونا چاہیے۔‘

اعزاز بتاتے ہیں کہ اس پر انھیں بھی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مذہبی جماعت نے ’میرے خلاف اپنی تقریروں میں کارکنوں کو اکسایا، مجھے جان سے مارنے کی دھمکیں دی گئیں، انتہائی متحرک آن لائن نفرت آمیز کمپین چلائی گئی۔‘

’مجھے اتنے دھمکی اور نفرت آمیز پیغامات ملے کہ میرا واٹس ایپ سسپینڈ ہو گیا۔ پھر میں نے ٹویٹ میں اس خطرے سے آگاہ کیا اور لکھا کہ اگر میری جان کو کوئی بھی خطرہ ہوا تو اس کے ذمہ دار اس انتہا پسند مذہبی جماعت کے دونوں رہنما ہوں گے۔‘

اعزاز کے مطابق ’اس واقعے کا انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاست دانوں سمیت ملکی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں نے نوٹس لیا لیکن ریاست پاکستان نے اس پر کچھ نہ کہا نہ ایکشن لیا بلکہ ایسا لگا کہ حکومت اس واقعے پر سوتی رہی۔‘

ان کی رائے ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومت ہونے کے باوجود پارلیمان اتنی فعال نہیں جبکہ ’صحافی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کے بھی دباؤ میں رہتے ہیں۔‘

آزادی صحافت
AFP
فائل فوٹو

’آزادئِ صحافت بڑی کنٹرولڈ ہے‘

فرزانہ علی خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں آج نیوز سے بطور بیورو چیف وابستہ ہیں اور امن و امان کے حوالے سے ایک حساس صوبے سے رپورٹنگ کا ان کا وسیع تجربہ ہے۔

فرزانہ علی نے صحافت میں پابندیوں کے سوال پر کہا کہ بہت محدود موضوعات ہیں جن پر پاکستان میں صحافت ہو رہی ہے۔

ان کے مطابق ’موجودہ سیاست یا حکومت پر ہم بات کر سکتے ہیں۔ سیاستدانوں پر بات کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ آپ سیاستدانوں کی لڑائیاں کروا لیں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں، فرق نہیں پڑے گا۔ اس طرح کی صحافت کی اجازت ہے۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان میں جن صوبوں کا کنٹرول خاص طاقتوں کے ہاتھ میں ہے وہاں کوئی ڈھنگ کی خبر یا اصل معلومات سامنے نہیں آ رہیں جیسا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دیکھ لیں کہ کیسی صحافت ہو رہی ہے۔

’اصل خبر یا معلومات کی رسائی کی بات کریں تو وہاں اصل مسائل پر معلومات تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوتی اور وہاں صحافی اپنی جان کو خطرات کے باعث اصل بات کر نہیں پاتے۔ گڈ طالبان بیڈ طالبان کی تفریق میں آپ کے لیے مسئلے ہوتے ہیں۔ آپ خبر کو آن ایئر نہیں کر سکتے کیونکہ فوری فون آ جاتا ہے کہ اس خبر کو ہٹا دیں۔‘

ان کی رائے ہے کہ ’آزادی صحافت بڑی کنٹرولڈ ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ہم بہت کھل کر بات کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں۔ ہم نے جعفر ایکسپریس کے سانحہ پر کتنا کھل کر بات کی۔ چینلز کے بھی پر جلتے ہیں۔

’لوگوں کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ بات کریں گے تو جان سے جائیں گے۔ تو عموماً یہ ہوتا ہے کہ سیلف سینسرشپ کے تحت جتنی بات سے ہماری زندگی بچ سکتی ہے اتنی رپورٹ کی جا رہی ہے۔‘

فرزانہ علی کے مطابق جس ملک میں ایک سیاسی جماعت کے لیڈر یعنی عمران خان کا نام نہیں لے سکتے تو اس سے اندازہ لگا لیں کہ ’ہم کیسی صحافت کر رہے ہیں۔‘

فرزانہ نے مزید کہا کہ ’نو مئی کے واقعے میں دیکھیں خان صاحب تو جیل میں ہیں باجوہ صاحب آسانی سے چلے گئے۔ فیض صاحب کا معاملہ بھی تھا۔ ہمیں کیا پتا کہ جو کہا جا رہا ہے کہ ان پر مقدمے چل رہے ہیں تو ان سے کون پوچھے کہ اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔ تو بہت سارے گرے ایریا ہیں، بلیک اینڈ وائٹ کچھ نہیں۔‘

تحریک لبیک کا احتجاج اور غیر مصدقہ ویڈیوز کی بھرمار
Getty Images
2019 میں تحریک لبیک کے احتجاجمیںسوشل میڈیا پر غیر مصدقہ ویڈیوز کی بھرمار رہی

بلوچستان میں صحافی ’چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں‘

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ سنگین ہے اور اس تناظر میں وہاں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہاں نہ صرف صحافت کرنا مشکل ہے بلکہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران صوبے میں سب سے زیادہ صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

بلوچستان میں صحافیوں کی تنظیم بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد کا کہنا تھا کہ ’جب سے پیکا کا قانون آیا ہے تو اس وقت سے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں صحافت کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ریاستی ادارے اور حکومت اپنے خلاف کوئی بات برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

’یہاں دوسرے عوامل بھی ہیں۔ صحافیوں کو عسکریت پسند تنظیموں اور مذہبی شدت پسند تنظیموں کے دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں کہیے کہ صحافیوں کو چاروں طرف سے مشکلات نے گھیرا ہے جس کی وجہ سے اب صحافی صحافت کو چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں سردار اختر مینگل کا یہاں جو دھرنا تھا، نہ صرف اس کی خبروں پر پابندی تھی بلکہ اس کی حمایت میں اگر کوئی بیان دیتا تو یہ کہا جاتا تھا کہ اس کو بھی نہیں چلائیں۔ ’بھلا اس صورتحال میں کون صحافت کر سکتا ہے؟‘

خلیل احمد نے بتایا کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں تو ڈپٹی کمشنر نے ایک عجیب حکمنامہ جاری کیا ہے کہ ان کے این و سی کے بغیر پریس کلب میں کوئی بھی سیمنار اور کانفرنسز کا انعقاد نہیں کرے۔ ’جب عملی مارشل لا تھا تو اس وقت بھی کوئی ایسا قانون نہیں تھا۔ ڈپٹی کمشنر کے اس حکم کو فی الحال ہائیکورٹ نے معطل کیا ہے لیکن اب تو اس طرح کے احکامات آتے ہیں۔‘

دوسری جانب کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے جوائنٹ سیکریٹری محمد سہیل رب خان کہتے ہیں کہ ’اس وقت صحافی اور صحافت دونوں ہی مختلف سیاسی تنظیموں اور اداروں کی طرف سے دباؤ میں ہیں اور ملک میں اظہار رائے کی آزادی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو رہی ہے۔‘

’جیسے حال ہی میں ابھی حکومتی سطح پر پیکا ایکٹ میں ترامیم کی گئی ہیں اس سے بھی آزادی اظہار رائے پر بہت فرق پڑا ہے۔‘

محمد سہیل رب خان کی مطابق اب اکثر سُننے میں آتا ہے کہ کسی صحافی کا اغوا کرلیا یا حراست میں لے لیا یا انھیں دھمکی آمیز فون کال موصول ہوئی۔

’ان تمام چیزوں کو دیکھا جائے تو یقیناً صحافی اور صحافت دونوں ہی پاکستان میں ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، ہر سطح پر کوشش کی جا رہی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کو کم کیا جائے۔‘

2024 میں پاکستان میں سات صحافی اور میڈیا ورکرز ہلاک ہوئے: رپورٹ

دنیا بھر میں ہر سال تین مئی کو پریس فریڈم ڈے منایا جاتا ہے۔

’رپورٹرز دو آؤٹ بارڈرز‘ کی شائع اس رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا کے 80 ممالک میں آزادی صحافت کی رینکنگ اورصحافیوں پر تشدد، حراست اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہلاکتوں کے اعداد و شمار شائع کیے گئے ہیں۔

اس رپورٹ کے تحت پاکستان میں 2024 میں سات صحافی اور میڈیا ورکرز دوران صحافت ہلاک ہوئے جبکہ 2025 کے پاکستان کے حوالے سے اس میں اعداد و شمار تاحال شائع نہیں کیے گئے۔

دوسری جانب دنیا بھر سے 2025 کسے اب تک دنیا بھر میں مختلف واقعات میں 15 صحافی ہلاک ہوئے جبکہ 555 صحافی اور میڈیا ورکرز کو زیر حراست بھی لیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 54 صحافیوں کو 2025 میں اب تک یرغمالی بنایا گیا جبکہ 99 لاپتہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق:

  • ’پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ہر سال متعدد صحافی یا میڈیا ورکر قتل ہوتے ہیں‘
  • ’صحافت کے تحفظ کی آڑ میں پاکستانی قانون حکومت اور فوج پر کسی بھی قسم کی تنقید کو سینسر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پیکا قانون کو آن لائن جرائم کے کریک ڈاؤن کی بجائے آن لائن اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے‘
  • رپورٹ میں غیر ریاستی عناصر کی کارروائیاں، بنیاد پرست گروپس اور علیحدگی پسند باغیوں کو آزادی صحافت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا
  • رپورٹ کے مطابق چونکہ فوج نے سویلین اداروں پر اپنی گرفت مسلسل مضبوط کی ہے، سیاست میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسییوں کی مداخلت سے صحافیوں کے لیے پابندیاں بڑ گئی ہیں

رپورٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق پاکستان میں اس وقت 100 ٹی وی چینلز اور 200 سے زیادہ ریڈیو سٹیشن ہیں جبکہ آن لائن میڈیا بھی خبروں کی ترسیل کے لیے سرگرم عمل ہے۔ جبکہ میڈیا ریگولیٹرز پر حکومت کا براہ راست کنٹرول ہے۔

یاد رہے کہ رواں سال قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں اور اس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور صدر کی منظوری سے قانون بننے والے پیکا ترمیمی بل 2025 پر نہ صرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

تاہم اس قانون پر حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے نہ کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن لگانا۔

دوسری جانب صحافیوں کی بات کی جائے تو پہلے کراچی میں فرحان ملک اور پھر اسلام آباد میں وحید مراد کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔

صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’پاکستان میں صحافت بالکل ہو رہی ہے تاہم ان صحافیوں کی تعداد محدود ہے جو تمام پریشرز کے باوجود ہر طرح کی خبر دے رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ہر دور صحافیوں کے لیے مشکل رہا۔ ایسا نہیں کہ کوئی ایک دور آسان ہو بلکہ ہر دور میں مشکلات رہی ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.