پاکستان نے انڈیا پر دریائے چناب کے پانی کے بہاؤ میں کمی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان کی جانب سے یہ دعوٰی منگل کو سامنے آیا ہے۔دریائے چناب ان تین دریاؤں میں سے ایک ہے جن کے پانی پر سنہ 1960 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔انڈیا نے گزشتہ ماہ 22 اپریل کو کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 22 افراد کی ہلاکت کے واقعے کے بعد دیگر سخت اقدامات کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔اس کے بعد پاکستان نے خبردار کیا تھا کہ اس کے حصے کے دریاؤں کے بہاؤ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو ’اقدامِ جنگ‘ سمجھا جائے گا۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر آب پاشی کاظم پیرزادہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نے دریائے چناب کے بہاؤ میں تبدیلیاں مشاہدہ کی ہیں جو بالکل بھی قدرتی نہیں ہیں۔‘انڈیا کی سرحد سے متصل پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور ملک کا زرعی مرکز بھی ہے۔کاظم پیرزادہ نے کہا کہ پانی کے بہاؤ کو کمی کے زیادہ اثرات ان علاقوں پر پڑیں گے جہاں پانی کے متبادل انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘’ایک دن دریائے چناب کا بہاؤ معمول کے مطابق تھا جبکہ اگلے دن یہ بہت زیادہ کم ہو گیا تھا۔‘
سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو مشترک پانیوں پر ڈیم بنانے یا آب پاشی کے لیے استعمال کی اجازت ہے (فائل فوٹو: اے این آئی)
پاکستان کے سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی کی سربراہی میں قائم تھنک ٹینک جناح انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس سے قبل 26 اپریل کو مبینہ طور پر انڈیا نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے گزرنے والے دریاؤں میں پانی کی بھاری مقدار چھوڑ دی تھی۔
کاظم پیرزادہ کے مطابق ’ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ ہم پانی کو مناسب طور پر استعمال نہ کر سکیں۔‘دوسری جانب انڈیا کے ایک سینیئر عہدے دار نے اخبار ’دی انڈین ایکسریس‘ کو بتایا کہ ’پاکستانی پنجاب کی جانب بہنے والے دریا پر بنے بھگلیار ڈیم کے سپل ویز کو پانی کا بہاؤ کم کرنے کے لیے ’ایک مختصر دورانیے کی سزا کے اقدام کے طور پر‘ ذرا نیچے کیا گیا۔سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو مشترک پانیوں پر ڈیم بنانے یا آب پاشی کے لیے استعمال کی اجازت ہے تاہم ان دریاؤں کا رخ موڑنے یا ان کے بہاؤ کم کرنا ممنوع ہے۔
پانی چھوڑنے کے اوقات میں معمولی کمی بھی فصلیں بونے اور کاشت کاری کے اوقات میں خلل کا باعث بن سکتی ہے (فائل فوٹو: اے این آئی)
انڈیا کے حکام نے ابھی تک اس معاملے پر تبصرہ نہیں کیا لیکن انڈیا کے سینٹرل واٹر کمیشن کے سابق سربراہ کُشوندر ووہرہ نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جب سندھ طاس معاہدہ معطل ہے تو ہم بلا کسی رکاوٹ کے کسی بھی منصوبے کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کے بہاؤ کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا تاہم انڈیا پانی کے بہاؤ میں کمی بیشی کے اوقات کا فیصلہ کر سکتا ہے۔تھنک ٹینک جناح انسٹی ٹیوٹ نے خبردار کیا ہے کہ ’پانی چھوڑنے کے اوقات میں معمولی کمی بھی فصلیں بونے اور کاشت کاری کے اوقات میں خلل کا باعث بن سکتی ہے۔‘