’کرپشن کا خاتمہ‘ ، پی ایس ایل 10 میں انٹیگریٹی آفیسرز کیوں نہیں ہیں؟

image

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دسویں ایڈیشن میں کرپشن اور سپاٹ فکسنگ کے تدارک کے تمام اقدامات پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اپنے اینٹی کرپشن یونٹ کے سپرد ہیں جبکہ سکیورٹی کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو عالمی کرکٹ بورڈز کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔

ماضی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا اینٹی کرپشن یونٹ پی ایس ایل کے معاملات میں شریک ہوا کرتا تھا تاہم اب یہ ذمہ داری مکمل طور پر پی سی بی کے ذمے ہے۔

پی ایس ایل کے رواں سیزن میں بھی ٹیموں کے ساتھ روایتی انٹیگریٹی آفیسرز(انسداد کرپشن افسر) تعینات نہیں کیے گئے۔ ماضی میں یہ افسر جو عموماً سابق سکیورٹی اداروں سے وابستہ ہوتے ہیں کھلاڑیوں کے گرد مشتبہ افراد کی نشاندہی اور ان کے تحفظ کی ذمہ داری کا کام انجام دیتے تھے۔

کرکٹ تجزیہ کار پی ایس ایل اور پاکستان کرکٹ کو کرپشن اور سپاٹ فکسنگ سے پاک رکھنے کے لیے مزید سخت اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

پی سی بی کا مؤقف

پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیا مینیجر رضا راشد کچلو نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پی سی بی کا اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ براہِ راست خود یہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے اہلکار نہ صرف میچز کے دوران بلکہ ہوٹلز میں بھی موجود رہتے ہیں اور خاموشی سے اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔‘

’ہر ٹیم کو اینٹی کرپشن کے حوالے سے باقاعدہ تربیتی لیکچرز دیے گئے ہیں اور کھلاڑیوں کو ایسے افراد کی شناخت سکھائی گئی ہے جن سے تعلق رکھنے میں اُن کے لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’پی ایس ایل چوں کہ ایک قومی ایونٹ ہے اس لیے بین الاقوامی اینٹی کرپشن یونٹس کی شمولیت کی ضرورت باقی نہیں رہی، بورڈ کا اپنا عملہ سال بھر متعلقہ اداروں سے رابطے میں اور تازہ ترین معلومات سے باخبر رہتا ہے۔ کسی بھی مشکوک سرگرمی کی سرِدست کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔‘

انٹیگریٹی آفیسرز عموماً سابق سکیورٹی اداروں سے وابستہ ہوتے ہیں (فائل فوٹو: پی ایس ایل)

دوسری جانب پی سی بی نے سکیورٹی کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں جو نہ صرف آئی سی سی بلکہ کئی دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز کو بھی سکیورٹی مشاورت فراہم کرتی ہے۔ اس شراکت داری کے باعث غیر ملکی کھلاڑی پی ایس ایل میں خود کو محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

’گزشتہ سال بھی انٹیگریٹی آفیسرز تعینات نہیں کیے گئے تھے‘

رضا راشد نے واضح کیا کہ ’گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کسی بھی ٹیم کے ساتھ ’انٹیگریٹی آفیسرز‘ تعینات نہیں کیے گئے، ماضی میں پی سی بی ایک مخصوص ٹورنامنٹ کے لیے بیرونی افراد کو بطور انٹیگریٹی آفیسر ہائر کرتا تھا مگر اب یہ ذمہ داری مکمل طور پر پی سی بی کے اپنے اینٹی کرپشن اور سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کو سونپی گئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پی سی بی کے افسر تمام ٹیموں کے ساتھ نہ صرف ہوٹلز میں مقیم ہیں بلکہ ان کی نقل و حرکت، سٹیڈیم آمدورفت، اور دیگر تمام سرگرمیوں کی بھی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ افسر نہ صرف کرپشن سے متعلقہ سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ ٹیموں کی سکیورٹی اور دیگر ضروری معاملات کی بھی نگرانی کر رہے ہیں۔‘

’بین الاقوامی کمپنی کی خدمات‘

پی سی بی کے میڈیا مینیجر کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح ایک بین الاقوامی کمپنی ای ایس ایس (ESS) بھی پی سی بی کے ساتھ سکیورٹی کے امور دیکھ رہی ہے، یہ کمپنی آئی سی سی اور دیگر کرکٹ بورڈز کو بھی سکیورٹی سے متعلق مشاورت اور معلومات فراہم کرتی ہے، اس کے نمائندے بھی پی ایس ایل کے دوران پی سی بی ٹیم کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔‘

’آئی سی سی کا کردار‘

رضا راشد نے مقامی ٹورنامنٹ میں آئی سی سی کے کردار کے حوالے سے بتایا کہ ’حقیقت میں آئی سی سی اپنے کسی بھی ٹورنامنٹ کے علاوہ ڈومیسٹک لیگز میں براہ راست شامل نہیں ہوتی۔‘

رضا راشد کے مطابق آئی سی سی اپنے کسی بھی ٹورنامنٹ کے علاوہ ڈومیسٹک لیگز میں براہ راست شامل نہیں ہوتی (فائل فوٹو: پی ایس ایل)

’یہ ذمہ داری میزبان کرکٹ بورڈز کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے سکیورٹی اور اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹس کے ذریعے ان معاملات کی نگرانی کریں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پی سی بی کے اپنے اہلکار چوں کہ سال بھر آئی سی سی کے ساتھ مختلف معاملات میں کام کرتے ہیں، اس لیے وہ نہ صرف باخبر ہوتے ہیں بلکہ موجودہ ضوابط، خطرات، اور کرپشن کے نئے طریقہ کار سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو برسوں سے پی سی بی نے ان اہلکاروں کو ہی ٹیموں کے ساتھ تعینات کیا ہے تاکہ زیادہ مؤثر نگرانی ہو سکے۔ یہ ایک منظم اور بہتر نظام ہے جس سے کھلاڑیوں کو بروقت رہنمائی اور مشکوک سرگرمیوں سے آگاہی فراہم کی جا سکتی ہے۔‘

’زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل ضروری ہے‘

کرکٹ امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر نعمان نیاز کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو سب سے پہلے کرپشن اور سپاٹ فکسنگ کے خلاف اپنی زیرو ٹالرنس پالیسی کے حوالے سے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔‘

ان کے مطابق، صرف بیانات یا اعلانات کافی نہیں بلکہ فرنچائزز کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر نعمان کے مطابق پی سی بی کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ تمام فرنچائزز اپنے اندرونی ڈھانچے میں اینٹی کرپشن افسروں کو مستقل بنیادوں پر تعینات کریں۔ اس کے علاوہ، کرپشن یا سپاٹ فکسنگ کی کسی بھی کوشش کو رپورٹ کرنے کا ایک مؤثر اور شفاف نظام بھی قائم کیا جانا چاہیے تاکہ کھلاڑی اور دیگر افراد بغیر کسی دباؤ کے حقائق سے آگاہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کرکٹ صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں، بلکہ اس کے ساتھ کھیل کے معیار اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ فرنچائزز اور پی سی بی دونوں کو واضح ہدف اور وژن کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر نعمان نے پی سی بی اور فرنچائزز کے کرپشن کے خلاف کردار پر سوال اٹھایا (فائل فوٹو: پی ایس ایل)

ڈاکٹر نعمان نے پی سی بی اور فرنچائزز کے کرپشن کے خلاف کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’ایک طرف ادارے کرپشن کے خلاف بیانات دیتے ہیں، دوسری طرف یہی ادارے بیٹنگ کمپنیوں کے اشتہارات سے منافع بھی کماتے ہیں۔ جب تک ایسے دوہرے معیار ختم نہیں ہوں گے، اصلاح کی کوئی امید نہیں۔‘

انہوں نے ماضی کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ ماضی میں بھی پاکستان کرکٹ کا حصہ رہی ہے، خاص طور پر نوے کی دہائی میں کئی سنگین کیسز سامنے آئے، افسوس ناک پہلو مگر یہ ہے کہ ان معاملات کی مکمل چھان بین یا حقائق عوام کے سامنے لانے کی کوششیں اکثر سیاسی یا بیوروکریٹک دباؤ کی نذر ہو جاتی رہی ہیں۔‘

ڈاکٹر نعمان نے بتایا کہ ’ماضی میں پی سی بی نے جسٹس اعجاز یوسف کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی تھی، جس نے انتہائی اہم نوعیت کی تفتیش کی، لیکن اس تحقیقاتی کام کو سیاسی دباؤ کے باعث کام کرنے سے روک دیا گیا اور رپورٹ منظرعام پر نہیں آ سکی۔‘

ان کے مطابق جب تک کرکٹ سے منسلک ادارے مکمل شفافیت، اصول پسندی اور پیشہ ورانہ رویہ اختیار نہیں کرتے، اس وقت تک پاکستان کرکٹ میں کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ ممکن نہیں۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.