"طلاق کو جشن کے طور پر منانا اور سوشل میڈیا پر ڈالنا غلط ہے، چاہے وجہ کچھ بھی ہو۔"
"اسلام میں طلاق حلال ضرور ہے، مگر ناپسندیدہ بھی ہے۔"
"خوشی منانے کی بجائے، خاموشی اور وقار کے ساتھ نئے سفر کا آغاز زیادہ بہتر ہوتا ہے۔"
"زہریلے رشتے سے نجات ملنا خوش آئند ہے، مگر اسے سوشل میڈیا پر شو آف کرنا ٹھیک نہیں۔"
جب طلاق خوشی بن جائے: سوشل میڈیا پر نئی بحث نے سوچنے پر مجبور کر دیا
کبھی طلاق صرف صبر، تنہائی اور دوبارہ سنبھلنے کی کہانی ہوا کرتی تھی، لیکن اب یہی طلاق انسٹاگرام کے ریلس اور کیک کا موضوع بنتی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں ایک ویڈیو نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی جہاں ایک بیٹی اپنی ماں کے 30 سالہ ازدواجی سفر کے اختتام پر کیک کاٹتے، شاپنگ کرتے اور "مبارک ہو طلاق!" لکھا کیک بانٹتے دکھائی دی۔
فیہ نامی نوجوان لڑکی نے اپنی والدہ کی آزادی کو ایک نئی شروعات قرار دیا، اور بتایا کہ ان کی ماں ایک دہائی سے اس رشتے میں صرف برداشت کر رہی تھیں۔ روز بروز بڑھتا ہوا ذہنی و جسمانی تشدد، بچوں کے سامنے گن پوائنٹ پر دی جانے والی دھمکیاں، اور ماں کے آنسوؤں نے انہیں بتا دیا کہ "سب ٹھیک ہو جائے گا" محض ایک جملہ تھا، حقیقت نہیں۔
یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو جیسے ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ کسی نے اسے بہادری قرار دیا، تو کسی نے اسے اسلامی اقدار کے خلاف قدم کہا۔ بعض نے یاد دلایا کہ "طلاق اگرچہ حلال ہے، مگر اللہ کو سب سے ناپسندیدہ بھی یہی عمل ہے۔" جبکہ کچھ نے زور دیا کہ "ایسے رشتے سے نکلنا جہاں عزت، سکون اور سلامتی نہ ہو، وہ خوشی کی بات ضرور ہے، لیکن اس کا اظہار کسی اور طرح بھی کیا جا سکتا تھا۔"
تنقید بڑھنے پر فیہ نے وضاحت دی کہ ان کے والد ایک دہائی پہلے ہی انہیں چھوڑ چکے تھے اور ان کی والدہ اس وقت سے علیحدہ زندگی گزار رہی تھیں، اس لیے وہ عدت کی پابند نہیں تھیں۔ ان کے مطابق جشن کا مقصد محض عورتوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ "جہاں ظلم سہنا مجبوری لگے، وہیں سے خود کو آزاد کرنا بہادری ہے۔"