’تاریکی میں امید کی کرن‘: ٹرمپ کی شامی صدر الشرع سے وہ ملاقات، جس کا چند ماہ پہلے تک تصور بھی ممکن نہ تھا

ٹرمپ نے بعد میں اپنے پہلے چار روزہ سرکاری دورے پر اپنے اعلیٰ سطحی امریکی وفد کے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں کو الشرع کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک ’سخت جان آدمی ہیں جن کا ماضی بہت سخت ہے۔‘
ٹرمپ، الشرع
Reuters

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اب شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔ ان کا یہ بیان شام کے عبوری صدر احمد الشرع سے ملاقات کے فوری بعد سامنے آیا۔

یہ غیر معمولی ملاقات جس کا چند ماہ پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا مختصر لیکن اہم تھی۔

ماضی میں القاعدہ سے وابستہاحمد الشرع سے ریاض میں 37 منٹ طویل ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ ’میرے خیال میں ان میں صلاحیت ہے۔‘

امریکہ کی جانب سے شامی رہنما کے سر کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا انعام دسمبر میں ہی ختم کیا گیا۔

ریاض میں سعودی شاہی محل میں گفتگو کی ویڈیو فوٹیج میں ٹرمپ اور الشرع دونوں ایک مترجم کے ذریعے بات چیت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ان کے بغل میں بیٹھے تھے جبکہ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ٹیلی فون پر ان کا ساتھ دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ ان ہی دونوں رہنماؤں نے انھیں شام سے امریکی پابندیاں اٹھانے پر بھی قائل کیا تھا۔

منگل کی رات ریاض میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سرمایہ کاری کے ایک بڑے فورم میں ٹرمپ کے اچانک اعلان پر انھیں کھڑے ہو کر داد دی گئی۔ یہ بات ماضی میں ٹرمپ کی متعدد سوشل میڈیا پوسٹس کے بالکل برعکس تھی جن میں وہ اکثر کہتے رہے کہ امریکہ کو ’شام میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ کی شامی عبوری صدر احمد الشرع
Reuters
ریاض میں سعودی شاہی محل میں گفتگو کی فوٹیج میں ٹرمپ اور الشرع دونوں مترجم کے ذریعے بات چیت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ان کے بغل میں بیٹھے تھے

ٹرمپ نے بعد میں اپنے پہلے چار روزہ سرکاری دورے پر اپنے اعلیٰ سطحی امریکی وفد کے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں کو الشرع کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک ’سخت جان آدمی ہیں جن کا ماضی بہت سخت ہے۔‘

الشرع کا اسلامی گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) پہلے القاعدہ سے وابستہ تھا تاہم انھوں نے بعد میں 2016 میں اس تنظیم سے تعلق توڑ لیا۔ ایچ ٹی ایس کو اب بھی اقوام متحدہ، امریکہ اور برطانیہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

دسمبر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے الشرع مغربی سوٹ پہنے ہوئے ہیں اور خود کو تمام شامیوں کے صدر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شام کی عبوری حکومت میں سماجی امور کی وزیر ہند کباوت نے کہا کہ ’تاریکی میں اب امید کی کرن دکھائی دینے لگی ہے۔‘ انھوں نے بی بی سی کے نیوز آور پروگرام کو بتایا کہ وہ اپنے ’یوم آزادی‘ کے بعد سے پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

امریکہ کے شام سے پابندیاں ہٹانے کے فیصلے نے ایک ایسے ملک میں جشن کا سماں پیدا کیا، جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے کی خانہ جنگی اور شدید مصائب کے بعد 90فیصد شامی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

شام کو بین الاقوامی مالیاتی نظام سے الگ کرنے والی پابندیوں کے خاتمے سے امدادی ایجنسیاں زیادہ سے زیادہ وہاں جا سکیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

گذشتہ دسمبر میں جب میں نے اپنے کمرے کی اضافی الیکٹرانک چابی مانگی تو دمشق کے ایک ہوٹل ریسیپشنسٹ نے مجھ سے کہا کہ ’ہم مشرق وسطیٰ کے شمالی کوریا ہیں۔‘

انھوں نے آبدیدہ ہو کر بتایا کہ ’ہمارے پاس زیادہ کارڈ نہیں، ہمارے پاس ہر چیز کی کمی ہے۔‘

شام پر عائد پابندیاں ختم ہونے سے جلاوطنی میں رہنے والے لاکھوں شامیوں میں سے کچھ کو وطن واپسی کے بارے میں زیادہ سنجیدگی سے سوچنے پر قائل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے اور اس سے ایک نوزائیدہ حکومت کو تنخواہوں کی ادائیگی، تعمیر نو اور روزمرہ زندگی میں بڑھتی بے اطمینانی کو دور کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

لیکن ابھی شام پر عائد پابندیوں کے وسیع جال کو ختم کرنے میں وقت لگے گا۔

بلومبرگ اکنامکس سے وابستہ دینا اسفندیری کا کہنا ہے کہ ’صدارتی استثنیٰ کا استعمال کرتے ہوئے کچھ پابندیاں فوری طور پر ختم کی جا سکتی ہیں لیکن کثیر الجہتی پابندیوں کو ہٹانا آسان نہیں ہو گا اور اس کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے حقیقی عزم کی ضرورت ہوگی۔‘

مجھے یاد ہے کہ میں نے سنہ 2015کے ایران جوہری معاہدے اور اوباما انتظامیہ کی جانب سے وہاں پابندیوں میں نرمی کے عزم کے تناظر میں تہران کا دورہ کیا تھا۔

یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے اعلیٰ نمائندے کے ساتھ نیوز کانفرنس میں ایرانی صحافی شدید غم و غصے کے ساتھ پوچھتے رہے کہ ان کے لیے بینک اکاؤنٹ تک کھولنا بھی ناممکن کیوں ہے۔

احمد الشرع
Getty Images
دسمبر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے الشرع مغربی سوٹ پہنے ہوئے ہیں اور خود کو تمام شامیوں کے صدر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

شام کے نئے دوست جن میں سعودی عرب اور ترکی جیسی علاقائی طاقتیں بھی شامل ہیں، اب نئے شام کی تشکیل کی کوششیں کر رہے ہیں اور انھیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی اس میں دلچسپی برقرار رہے لیکن ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانا ہے تو وہ بدلے میں کچھ توقع رکھتے ہیں۔

ان کی فہرست میں پہلی چیز ’ابراہام معاہدے میں شامل ہونا‘ ہے۔ امریکی صدر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اس عمل کو، جس میں متحدہ عرب امارات سمیت کئی عرب ریاستیں شامل ہو چکی ہیں، اپنی پہلی مدت میں خارجہ پالیسی کی کامیابیوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔

الشرع جنھیں ان کے دوستوں نے حقیقت پسندانہ قرار دیا، پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں حالانکہ اسرائیل ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ یعنی فضائی اڈوں، فوجی تنصیبات اور ہتھیاروں کے ڈپوز پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہے اور اصرار کر رہا ہے کہ وہ ’غلط ہاتھوں میں جا سکتے ہیں۔‘

گذشتہ ماہ شام کے رہنما نے مبینہ طور پر امریکی کانگریس کے رکن کوری ملز کو بتایا تھا کہ شام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور ’صحیح شرائط‘ کے تحت ابراہام معاہدے میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے صدر ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ شام پر سے پابندیاں نہ اٹھائیں۔

اسرائیل، الشرع اور ان کی ایچ ٹی ایس فورسز کے ساتھ ساتھ دیگر گروہوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا شکار رہتا ہے جن میں غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔

غیر ملکی جنگجوؤں کو ہٹانا واشنگٹن کے مطالبات میں سے ایک ہے۔ یہ اس وقت شام کے رہنما کو درپیش بہت سے چیلنجز میں سے ایک ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس لمحے کو ’عظمت کا موقع‘ قرار دیا۔ لاکھوں شامی اس وسیع تر موقعے کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ آخر کار ان کی زندگیاں بہتر ہونے لگیں گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.