خدا کی بستی میں ’غیرت‘ کے نام پر میاں، بیوی اور دو بچوں کا قتل جس کی ’اطلاع مبینہ قاتلوں نے خود دی‘

12 مئی کو رات کا وقت تھا جب کچھ مقامی افراد پولیس اہلکاروں کے ہمراہ سندھ کے ضلع جامشورو کے علاقے 'خدا کی بستی' میں ایک مکان کے نیلےدروازے پر لگے تالے کو اینٹ اور ہتھوڑی کی مدد سے توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔

انتباہ: اس رپورٹ میں موجود تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ اور صدمے کا باعث ہو سکتی ہیں

12 مئی کو رات کا وقت تھا جب کچھ مقامی افراد پولیس اہلکاروں کے ہمراہ سندھ کے ضلع جامشورو کے علاقے ’خدا کی بستی‘ میں ایک مکان کے نیلے رنگ کے دروازے پر لگے تالے کو اینٹ اور ہتھوڑی کی مدد سے توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔

تالے پر اینٹ اور ہتھوڑی کی چند ہی ضربیں لگانے کے بعد اسے توڑ کر وہ گھر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ دو منزلہ مکان میں داخل ہونے والے مقامی افراد اور پولیس کو گھر کے گراؤنڈ فلور پر ایک بچے کی لاش اور زمین پر پھیلا ہوا خون نظر آیا۔

جب یہ لوگ سیڑھیاں چڑھ کر گھر کی بالائی منزل پر پہنچے تو وہاں موجود ایک کمرے کے دروازے کے نیچے سے بہہ کر باہر نکل آنے والا خون انھیں نظر آیا جو اب سوکھ چکا تھا۔

اس کمرے کا دروازہ کھلنے پر علاقہ مکینوں اور پولیس اہلکاروں کو تین مزید لاشیں نظر آتی ہیں جو کہ ایک مرد، ایک عورت اور ایک چھوٹے بچے کی ہیں۔

یہ سارے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو کہ سندھ کے شہر کوٹری کے ایک مقامی سیاسی و فلاحی کارکن امجد مستوئی نے بنائی ہے۔ اس ویڈیو میں جو دیگر مناظر بی بی سی نے دیکھے ہیں وہ اتنے ہولناک ہیں کہ انھیں یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

مقامی پولیس کے مطابق اس گھر سے ملنے والی لاشوں کی شناخت 34 سالہ عمران، اُن کی 32 سالہ اہلیہ عالیہ بریرو اور اُن کے دو بیٹوں نو سالہ ذیشان اور چار سالہ محمد علی کے طور پر ہوئی۔

ضلع جامشورو کے سینیئر سپرنٹینڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ظفر صدیقی چھانگلہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اِن چاروں افراد کو نام نہاد ’غیرت کے نام پر‘ قتل کیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ لاشیں 12 مئی کی رات کو کوٹری کے علاقے خدا کی بستی سے برآمد ہوئی تھیں تاہم ان تمام افراد کو لاشیں ملنے سے کچھ دن قبل قتل کیا گیا تھا۔

پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر دہائیوں سے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس ملک بھر میں نام نہاد غیرت کے نام پر مجموعی طور پر 346 افراد قتل ہوئے تھے، جن میں سے بیشتر کا تعلق سندھ اور پنجاب سے تھا۔

پولیس کو تالا لگے گھر میں لاشوں کی موجودگی کی اطلاع کس نے دی؟

سندھ کے شہر کوٹری کے مقامی سیاسی و فلاحی کارکن امجد مستوئی سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو بھی انھی کی جانب سے بنائی گئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ان سے کوئٹہ کے رہائشی ایک شخص نے رابطہ کیا اور اس مکان کا پتہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہاں جا کر چیک کریں، وہاں کوئی واقعہ ہوا ہے۔

امجد مستوئی کا دعویٰ ہے کہ اُن کا گھر اُس مکان سے ایک، ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے مزید معلومات لے کر اس گھر کا پتہ حاصل کر لیا اور اس بات کی بھی تصدیق ہو گئی کہ عمران نامی ایک شخص اپنے خاندان کے ساتھ یہاں کرائے پر مقیم تھا۔‘

امجد کے مطابق جب انھوں نے مکان مالک سے عمران اور اُن کے خاندان کے حوالے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کے گھر پر گذشتہ دو، تین دنوں سے تالا لگا ہوا ہے۔ اہل علاقہ کے مطابق گھر پر تالا لگا دیکھ کر وہ سمجھے کہ شاید عمران اپنے خاندان سمیت کہیں گیا ہوا ہے۔

امجد بتاتے ہیں جب وہ اس مکان کے قریب پہنچے تو ’مکان کے اطراف بہت بُو تھی۔ اسی لیے ہم نے پولیس کو اطلاع دی اور جب پولیس آئی تو ہم تالا توڑ کر گھر میں داخل ہوئے۔ اندر ہم نے جو دیکھا وہ آپ میری بنائی ہوئی ویڈیو میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔‘

مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئٹہ کا رہائشی وہ شخص کون ہے جس نے امجد مستوئی کو فون کال کر کے اس واقعے کی اطلاع دی۔

’(مبینہ) قاتلوں نے خود فون کر کے قتل کی اطلاع دی‘

بی بی سی اردو نے امجد مستوئی سے واقعے کی اطلاع دینے والے کوئٹہ کے رہائشی شخص کی تفصیلات حاصل کیں اور ان سے فون پر بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دراصل مقتول عمران آری کے ماموں زاد بھائی ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے عمران اور عالیہ نے سنہ 2016 میں شادی کی تھی اور ’عمران کے سُسرال والے اس پسند کی شادی سے خوش نہیں تھے، اسی لیے یہ پورا خاندان بھاگ کر سندھ آ گیا تھا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’گذشتہ ماہ رمضان میں بھی ہم نے عمران اور اس کے سالوں کے درمیان خیر (صلح) کروا دی تھی۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ برس بھی عمران آری پر حملہ ہوا تھا اور کوٹری پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپیکٹر (اے ایس آئی) نثار احمد نے تصدیق کی ہے کہ اس کی ایف آئی آر بھی عمران کی جانب سے اپنے سالوں (برادر نسبتی) کے خلاف درج کروائی گئی تھی۔

عمران کے ماموں زاد بھائی کا دعویٰ ہے کہ 12 مئی کو انھیں عمران کی سسرال کے ایک شخص نے واٹس ایپ پر وائس نوٹ کیا اور کہا کہ ’ہم نے مسئلہ کر دیا ہے۔‘

اُن کے مطابق وہ یہ سُن کر پریشان ہو گئے اور اطلاع دینے والے شخص سے تصدیق چاہی تو اس نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے عمران، اُن کی اہلیہ اور دو بچوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔

مقتول عمران کے ماموں زاد بھائی کا کہنا تھا کہ ’چھوٹے بچوں کو بھی مار دیا گیا، یہ بہت ظلم ہوا ہے۔‘

ایف آئی آر میں کیا لکھا ہے اور پولیس کیا کہتی ہے؟

عمران اور ان کے اہلخانہ کے قتل کی ایف آئی آر کوٹری تھانے میں سرکار کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔

سندھی زبان میں درج کی گئی ایف آئی آر میں مقتولہ عالیہ کے تین بھائیوں کو نامزد کیا گیا ہے اور قتل کی وجہ ’پسند کی شادی پر بھائیوں کی ناراضی‘ لکھی گئی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق عمران اور عالیہ کی شادی سنہ 2016 میں ہوئی تھی اور اس سے ’لڑکی کے بھائی خوش نہیں تھے۔‘

ایف آئی آر میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ مقتول عمران اور عالیہ کو دونوں بیٹوں کے ہمراہ تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا ہے جبکہ قاتل ایک چھوٹی دو سالہ بیٹی کو اغوا کر کے لے گئے ہیں۔

مقتول عمران کے ماموں زاد بھائی کے مطابق چاروں افراد کی تدفین کوٹری ہی کے علاقے خدا کی بستی میں کر دی گئی ہے اور اس موقع پر عمران کے کچھ رشتہ دار بھی وہاں موجود تھے۔

یہ ایف آئی آر کوٹری تھانے کے اے ایس آئی نثار احمد کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جن کا کہنا تھا کہ عمران کا خاندان مقتولین کی لاشیں تدفین کے لیے لے گیا تھا لیکن ان کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کی جا رہی تھی جس کے بعد پولیس نے اپنی ہی مدعیت میں 14 مئی کو یہ مقدمہ درج کیا۔

ضلع جامشورو کے ایس ایس پی ظفر صدیقی چھانگہ کہتے ہیں ہیں کہ انھوں نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے اور جلد ہی حکومتی اجازت کے بعد سندھ پولیس کی ٹیم ملزمان کی گرفتاری کے لیے بلوچستان جائے گی جہاں بلوچستان کی پولیس سندھ پولیس کی مدد کو موجود ہو گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.