امریکہ پاکستان اور انڈیا کا کتنا بڑا تجارتی پارٹنر ہے، وہ کون سے بڑے شعبے ہیں جن میں پاکستان امریکہ میں اپنی مصنوعات برآمد کرتا ہے اور پاکستان اس موقعے سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکہ نے ثالث کا کردار تو ادا کیا ہی لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ رکوانے کے لیے تجارت کا سہارا لیا۔
امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تصادم میں انھوں نے دونوں ملکوں کو تجارتی فوائد کی پیشکش کر کے جنگ رکوائی۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’یہ معاملہ جوہری جنگ کی جانب جا رہا تھا۔ میں نے ان سے کہا ہم تجارت کریں گے۔ میں تجارت کو استعمال کر کے جنگوں کو روک رہا ہوں۔‘
اس موقع پر ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان سے بھی تجارت کی بات کی۔ وہ لوگ بھی تجارت چاہتے ہیں۔ وہ بہت اچھی مصنوعات بناتے ہیں۔ وہ بہت شاندار لوگ ہیں۔‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے لوگوں سے کہا کہ چلو اب جلدی سے (پاکستان کے ساتھ) تجارت کرو کیونکہ میں اپنی بات کا پکا آدمی ہوں۔‘
انڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’وہ تجارت چاہتے ہیں ان کے ہاں بہت زیادہ محصولات ہیں۔ وہ اپنی محصولات 100 فیصد تک کم کرنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’دنیا میں 150 ملک ہیں جو امریکہ سے تجارتی معاہدے چاہتے ہیں لیکن میں نے حدود مقرر کی ہیں۔‘
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ امریکہ میں درآمد ہونے والی اشیا پر نئے ٹیرف (ٹیکس) کے نفاذ کا اعلان کیا اور ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کو بھی شامل کرتے ہوئے اس کی امریکہ برآمد کی گئی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا کہا۔
پاکستان کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کی امریکہ برآمد کی جانے والی مصنوعات پر بھی نئے ٹیرف کا اعلان کیا گیا، جس میں انڈیا پر 26 فیصد اور بنگلہ دیش پر 37 ٹیرف عائد ہو گا۔
واضح رہے کہ یہ دونوں ملک عالمی سطح پر دو بڑی برآمدی مارکیٹوں امریکہ اور یورپی یونین میں پاکستان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اسی طرح امریکی صدر کی جانب سے ویتنام اور چین پر بھی بالترتیب 46 فیصد اور 34 فیصد نیا ٹیرف نافذ ہو گا تاہم پھر امریکہ نے اضافی ٹیرف کے اطلاق کو 90 روز کے لیے روک دیا۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ حالیہ بیان پاکستان کے سوشل میڈیا پر خاصا زیر بحث ہے اور لوگ اسے پاکستان کی معیشت کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کا کتنا بڑا تجارتی پارٹنر ہے؟ وہ کون سے بڑے شعبے ہیں جن میں پاکستان امریکہ میں اپنی مصنوعات برآمد کرتا ہے اور پاکستان اس موقعے سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
امریکہ پاکستان کا کتنا بڑا تجارتی پارٹنر؟

صحافی تنویر ملک کے مطابق پاکستان کی بیرونی تجارت کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر پاکستان تجارتی خسارے کا شکار ہے۔
بیرونی تجارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں (جولائی تا مارچ) میں تجارتی خسارہ تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر رہا جس کی وجہ برآمدات کا کم اور درآمدات کا زیادہ حجم تھا۔
تاہم پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت کا جائزہ لیا جائے تو تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے یعنی پاکستان کی امریکہ کو برآمدات زیادہ اور وہاں سے درآمدات کم ہیں۔
موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں (جولائی سے مارچ) میں پاکستان نے امریکہ کو چار ارب 34 کروڑ ڈالر کی اشیا برآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان نے ان نو مہینوں کے دوران امریکہ سے ایک ارب 19 کروڑ ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں۔
سنہ 2025 کے پہلے تین مہینوں (جنوری سے مارچ) میں پاکستان نے امریکہ کو ایک ارب 44 کروڑ ڈالر کی اشیا برآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان نے ان تین ماہ کے دوران امریکہ سے 46 کروڑ ڈالر کی درآمدات کیں۔
اسی عرصے کے دوران پاکستان سے چین برآمد ہونے والی مصنوعات کا حجم 57 کروڑ ڈالر رہا اور اسی عرصے کے درمیان پاکستان نے چین سے چار ارب 46 کروڑ ڈالر رہیں۔
پاکستان اور امریکہ میں کن اشیا کی تجارت ہوتی ہے؟
سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے جہاں دنیا کے کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستان کی سب سے برآمدات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت میں پاکستان سے امریکہ کو بھیجی جانے والی اشیا میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا ہے جو کل تجارت کا نوے فیصد بنتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان سے امریکہ چمڑے کی مصنوعات، فرنیچر، پلاسٹک، سلفر، نمک، سیمنٹ، کھیلوں کا سامان، قالین، فٹ ویئر، پراسیسڈ فوڈ اور دوسری اشیا برآمد کی جاتی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان سے امریکہ جانے والی اشیا کے مقابلے میں امریکہ سے پاکستان درآمد کی جانے والی اشیا کا حجم کم ہے۔
امریکہ سے پاکستان آنے والی اشیا میں زرعی مصنوعات، کیمیکلز، مشینری، پرانے کپڑے اور ٹرانسپورٹ کا سامان شامل ہیں۔
انڈیا اور امریکہ کے تجارتی تعلقات
انڈیا کی امریکہ کے ساتھ تجارت میں انڈیا سے امریکہ کو بھیجی جانے والی اشیا میں کیمیکلز، الیکٹرانک مصنوعات اور مشینری شامل ہیں جبکہ امریکہ انڈیا کو تیل اور گیس، کیمیکلز اور ٹرانسپورٹ کا سامان بھجواتا ہے۔
امریکہ حالیہ کچھ برسوں میں انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر رہا اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 190 ارب ڈالر تھا۔
ٹرمپ اور انڈین وزیراعظم مودی نے اس سے دو گنا زیادہ تجارت یعنی 500 ارب ڈالر تک کا ہدف مقرر کیا ہے تاہم انڈیا کی جانب سے امریکہ کو زراعت جیسے شعبوں میں کسی قسم کی کوئی رعایتیں دینے کا امکان نہیں کیونکہ یہ انڈیا کے لیے ایک حساس معاملہ ہے۔

’ٹرمپ تجارت اور سرمایہ کاری چاہتے ہیں‘
امریکہ میں اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں پاکستان انیشیٹیو کے ڈائریکٹر عزیر یونس نے انڈیا اور پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کے حالیہ بیان پر کہا کہ امریکی صدر کا مسلسل ایک ہی چیز پر زور رہا ہے کہ دنیا بھر کے ساتھ تجارتی معاہدے ہوں اور یہی چیز ہمیں ان کے مشرق وسطی کے دورے میں بھی نظر آئی۔
’دنیا بھر کے لیے انڈیا اور پاکستان جیسے ممالک بہت سی چیزیں بناتے ہیں اور اگر فیئر ٹریڈ معاہدہ ہو تو امریکی مصنوعات کو بھی ان مارکیٹس میں رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔‘
عزیر یونس وضاحت کرتے ہیں کہ ’ٹرمپ یہ ہی چاہتے ہیں کہ برابری اور منصفانہ سطح پر تجارت ہونی چاہیے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان سے بھی یہ اشارے آ رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنا چاہتا ہے، انڈیا کے بھی اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں اور ٹرمپ بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ تجارت ہونی چاہیے، سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔‘
’ہمیں ایڈ کی بجائے ٹریڈ پر توجہ دینی ہو گی‘
سابق سیکریٹری جنرل سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اقبال تابش نے پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کے بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا پاکستان سے تجارت کی خواہش کا اظہار کرنا بہت بڑا بیان ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان ایسی بہت سی مصنوعات بناتا ہے، جو امریکہ کو برآمد کی جاتی ہیں۔
’خاص کر کے ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سیکٹر میں پاکستان کو امریکہ کی مارکیٹ میں انڈیا، بنگلہ دیش اور ویتنام پر برتری حاصل ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان اگر اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو مقامی فرمز اور کمپنیوں کی مینوفیکچرنگ صلاحیت کو بڑھانا ہو گا۔ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ اپنی مصنوعات کے معیار کو بین الاقوامی سطح پر لایا جائے۔‘
اقبال تابش ’ضروری ہے کہ پاکستان امریکہ کے معیار کی چیزیں بنائے۔ پاکستان کو اپنی مصنوعات کی کوالٹی بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں بننے والے تولیے، کچن ویئر بہت بڑی مقدار میں امریکہ اور یورپی ممالک میں برآمد کیے جاتے ہیں۔ چھوٹے پرزے حتیٰ کے ایئر کرافٹس کے چھوٹے حصے بھی ہم برآمد کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی انڈسٹری کو امریکہ سے مشینری چاہیے، ہمیں ان چیزوں کا خام سامان بھی چاہیے جو ہم مقامی طور پر تیار نہیں کرتے۔
’اگر ہمیں خام مال مل جائے تو یہ چیزیں تیار کر کے بھی ہم بیرون ملک بھیج سکتے ہیں۔‘
اقبال تابش نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی کمپنیوں اور حکومت کو ایسا ماحول بنانا ہو گا، جہاں سے برآمد بڑھ سکے اور برآمد کو بڑھانے کے لیے فرمز کی صلاحیت اور سرپلس میں اضافہ کرنا بہت ضروری ہے۔
اقبال تابش نے کہا کہ پاکستان میں اس حوالے سے صلاحیت موجود ہے لہذا ہمیں اب ایڈ (امداد) کی بجائے ٹریڈ پر توجہ دینی چاہیے۔