ایل او سی کے دونوں اطراف رہنے والوں کا مشترکہ دکھ: ’اب چاہے جنگ ہو یا سیز فائر ہمارے بچے واپس نہیں آئیں گے‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان سات مئی سے 11 مئی کے دورانسرحد کے دونوں جانب کے درجنوں گھرانوں کے عام شہریوں کے غم اور دکھکی تقریبا ایک سی کہانیاں ہیں۔ بی بی سی نے سرحد کے دونوں اطراف سے ایسے ہی کچھ خاندانوں سے بات کی جنھوں نے کشیدگی کے دوران اپنے خاندان کے افراد کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے۔

’میری بھابھی نبیلہ اندر کمرے میں کرسی پر بیٹھی تھیں جب راکٹ ہمارے صحن میں گرا اور دھماکہ ہوا، دروازہ ٹوٹا اور اس کا ٹکڑا بھابھی کے دل کے پاس لگا اور بھابھی موقع پر دم توڑ گئیں۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان سات مئی سے 11 مئی کے دوران سرحد کے دونوں جانب کے درجنوں گھرانوں کے عام شہریوں کے غم اور دکھ کی تقریباً ایک سی کہانیاں ہیں۔

سرحد کے دونوں اطراف بسنے والوں میں سے بہت سوں نے گنتی کے ان چند دنوں میں ہی شدید گولہ باری، میزائل اور ڈرون حملوں کے دوراناپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو مرتے دیکھا۔

بی بی سی نے سرحد کے دونوں اطراف سے ایسے ہی کچھ خاندانوں سے بات کی جنھوں نے کشیدگی کے دوران اپنے خاندان کے افراد کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے۔

اپریل کے اواخر میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر حملے کے بعد چھ اور سات مئی کی علی الصبح انڈیا نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت متعدد شہروں پر میزائل حملے کیے۔

یاد رہے کہ تقریباً چار روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد بالآخر سنیچر کے روز انڈیا اور پاکستان نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران آئی ایس پی آر کے مطابق چھ اور سات مئی کی درمیانی شب کیے جانے والے حملے میں سات خواتین اور 15 بچوں سمیت 40 افراد ہلاک اور 121 زخمی ہوئے تھے۔

ان زخمیوں میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں جبکہ ہلاک ہونے والے پاکستانی فوجی اہلکاروں کی تعداد 13 اور زخمی اہلکاروں کی تعداد 78 تھی۔

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے پونچھ ، راجوری اور اُوڑی میں تین بچوں اور دو خواتین سمیت 18 افراد ہلاک ہوئے۔ آپریشن سِندور کے دوران انڈیا کے ڈی جی ایم او کے مطابق پانچ فوجی بھی مارے گئے۔ اس طرح کل ملا کر انڈیا کی 23 ہلاکتیں ہوئی ہیں جن کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ہے۔

’بھابھی موقع پر ہی فوت ہو گئیں‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ کے رہائشی سردار جاوید رزاق نے نو اور دس مئی کی درمیانی شب انڈین شیلنگ میں اپنی شریک حیات کو کھویا جو شیل یا راکٹ کا ٹکڑا لگنے سے موقع پر فوت ہو گئیں جبکہ ان کی چار سالہ بیٹی زخمی ہوئی۔

ان کے بھائی سردار طاہر رزاق بتاتے ہیں کہ تب سے جاوید رزاق گم ضم اور غائب دماغی کی کیفیت میں ہیں جبکہ ان کی چھوٹی بیٹی کسی صورت نہیں بہلتی۔

سردار طاہر بتاتے ہیں کہ ’ان کی چار سال کی چھوٹی بچی ماں کو یاد کر کے روتی ہے، چیختی ہے، چلاتی ہے، وہ جب سے سو نہیں پا رہی۔ اس کو کبھی ایک طرف لے جاتے ہیں کبھی دوسری طرف لے جا کر بہلاتے ہیں۔‘

اس رات کا احوال بتاتے ہوئے سردار طاہر کہتے ہیں کہ ’جس دن یہ حادثہ ہوا تو جمعے کی رات اور ہفتے کی صبح تھی۔ 10 مئی کو انڈیا کی طرف سے سیکٹر کھوئی رٹہ پر شدید گولہ باری ہو رہی تھی۔ ہمارا گاؤں لائن آف کنٹرول سے تقریبا سات کلو میٹر پیچھے ہے۔ شیلنگ شروع ہوئی تو ہم بیسمینٹ میں جا کر چھپ گئے تاکہ اپنی جانیں بچا سکیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’رات گئے شیلنگ رک گئی۔ تقریباً فجر کی نماز کے بعد انڈیا کی طرف سے دوبارہ زوردار شیلنگ شروع ہوئی۔ کوئی چارپائی تو کوئی میزوں کے نیچے چھپا۔ سوا چھ بجے صبح بھابھی کمرے میں تھیں جب ان کو گولے کا ٹکڑا لگا۔‘

سردار طاہر کے مطابق ’بھابھی موقع پر ہی فوت ہو گئیں، ہسپتال جانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ان کی چھوٹی بیٹی ساتھ ہی بیٹھی میری بہن کی گود میں تھی۔ اس بچی کی ٹانگ پر بھی زخم آیا جس پر ڈاکٹر نے ٹانکے لگائے ہیں۔‘

’آٹھ ماہ کے بچے کی آنکھیں اپنی ماں کو ڈھونڈتی ہیں‘

کھوئی رٹہ کے ہی رہائشی قمر شہزاد کی اہلیہ سدرہ سراج بھی انڈیا کی جانب سے کی جانے والی شدید گولہ باری کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئیں۔

قمر شہزاد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس دن کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔

انھوں نے کہا کہ ’10 مئی کو صبح تقریباً ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا۔ رات کی گولہ باری کے بعد صبح کے وقت تھوڑا سکون تھا۔ اس وقت میری بیوی جاگنے کے بعد صحن کو صاف کرنے نکلیں، جیسے ہی انھوں نے جھاڑو اٹھایا تو انھیں گولہ آ کر لگا اور ان کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی۔‘

شہزاد کے مطابق اس وقت وہ گھر کے پچھلی سائیڈ پر واقع غسل خانے میں تھے۔ آواز سن کر وہ بھاگے آئے تو دیکھا کہ ان کی بیوی زمین پر بے جان پڑی ہیں۔

شہزاد کے مطابق ان کا آٹھ ماہ کا بچہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کی ماں پاس کیوں نہیں آ رہی۔

’میری ماں اور بہنیں بچے کو سنبھال رہی ہیں مگر بچہ بہت بے چین رہتا ہے وہ اتنا چھوٹا ہے کہ زبان سے نہیں کہہ سکتا مگر اس کی آنکھیں ماں کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے ہمیں لگتا تھا کہ ہمارا گھر سرحد سے دور ہونے کے باعث محفوظ ہے اور مگر اب دل میں خوفبیٹھ گیا ہے۔‘

’خوشیاں چوکھٹ پر تھیں کہ غم نے درو دیوار ہلا دیے‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع باغ کے گاؤں کوٹیٹری نجم کے رہائشی 22 سالہ نوجوان اسامہ بھی ان افراد میں شامل ہیں جو انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران گولہ باری کے باعث ہلاک ہوئے۔

صحافی نصیر چوہدری نے اسامہ کے اہل خانہ سے بات کی جو غم سے نڈھال ہیں۔

اسامہ کی شادی 27 اپریل کو ہوئی تھی تاہم 10 روز بعد ہی یعنی آٹھ مئی 2025 کو جب اُسامہ اور ان کی اہلیہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔

اسامہ کے والد عشرت بتاتے ہیں کہ ’اُسامہ نے کمرے سے نکل کر پوچھا بابا یہ کیا ہوا؟ اسی دوران دوسرا گولہ گھر کے اوپر لگا۔ زمین ہلی، کھڑکیاں ٹوٹ گئیں، دیواروں پر دراڑیں پڑ گئیں اور اُسامہ اپنی دونوں بہنوں کے ساتھ شدید زخمی ہو گیا۔‘

زخمی اسامہ کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جان کی بازی ہار چکے تھے۔

اُسامہ کے والد سردار عشرت کہتے ہیں ’ابھی خوشیاں دروازے کی چوکھٹ پر تھیں کہ غم نے درو دیوار ہلا دیے ہیں۔ میں سنتا تھا اولاد کا دکھ بہت مشکل مگر آج جب اس دکھ سے گزار تو میرے پاس الفاظ نہیں کہ بیان کر سکوں۔‘

اسامہ کی والدہ شکیلہ عشرت جوان بیٹے کی موت کے صدمے کو اب تک قبول نہیں کر پائیں۔

شکیلہ عشرت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے اپنے بیٹے کے سر سے ابھی سہرا اُتارا بھی نہیں تھا کہ کفن اوڑھا دیا گیا۔ ہمارے گھر پر سے ابھی شادی کی سجاوٹ ختم ہی نہیں ہوئی موت نے ڈیرے ڈال لیے۔ گاؤں والے کہتے ہیں یہ جنگ دو ملکوں کی ہے مگر جنگ ہمارا کیاکچھ لے جائے گی، ہم نہیں جانتے تھے۔‘

آبائی گھر کے صحن میں شیلنگ سے مرنے والے جڑواں بچوں کی قبریں
BBC

آبائی گھر کے صحن میں شیلنگ سے مرنے والے جڑواں بچوں کی قبریں

دکھ اور خوف کا ملا جلا یہ عالم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے متاثرہ علاقوں میں ہی نہیں بلکہ سرحد پار انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بھی کئی گھرانوں میں جنگی صورتحال کے دوران صدمے اور ناامیدی کی صورتحال نے مستقل ڈیرے جما لیے ہیں۔

انڈیا کے پاکستان پر حملوں اور جواباً پاکستان کی جانب سے جوابی حملوں نے کنٹرول لائن کے آس پاس رہنے والے لوگ سب سے زیادہ غیر محفوظ تھے کیونکہ ان کے گھروں کے آس پاس گولے گر رہے تھے اور اسی دوران کنٹرول لائن کے دونوں جانب رہنے والے درجنوں افراد نے اس حالیہ کشیدگی میں اپنے پیارے کھوئے۔

کراس بارڈر فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پونچھ میں 10 سال کے جڑواں بچوں کی ہلاکت اور ان بچوں کے والد کے زخمی ہونے پر پورا علاقہ سوگوار ہے۔

رمیز خان کے آبائی گھر کے صحن میں ان کے دونوں جڑواں بچوں کی اب قبریں ہیں جبکہ گھر کو تالہ لگا ہوا ہے۔

بچوں کے شدید زخمی والد رمیز خان کئی روز تک اپنے بچوں کی ہلاکت کے بارے میں لاعلم رہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے بچوں کے چچا سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ ان کے بھائی رمیز نے اس سانحہ سے 10 سے 15 منٹ پہلے فون کیا اور بتایا کہ دونوں بچے بہت سہمے ہوئے ہیں۔

'میں نے بچوں سے بات کی تو بچے نے کہا کہ تاؤ جی آپ فون پر یہاں ہونے والی شیلینگ کی آواز سنیے۔ میں نے اسے تسلی دی کہ آپ ماموں کے ساتھ سن کوٹ چلیں آئیں۔ بعد میں رمیز سے بات ہوئی تو وہ بچوں کو لے کر گاڑی میں سامان رکھ رہا تھا تو اسی وقت گولہ وہاں آ کر گرا جس سے موقع پر بچے فوت ہوئے اور رمیز شدید زخمی ہو گئے۔'

حالیہ کشیدگی میں پاکستان اور انڈیا دونوں جانب جانی و مالی نقصانات ہوا
Getty Images
حالیہ کشیدگی میں پاکستان اور انڈیا دونوں جانب جانی و مالی نقصانات ہوا

’جنگ ہو یا سیز فائر، ہمارے بچے واپس نہیں آ سکتے‘

تو کیا ایسے حالات کشیدگی کے دوران معمول کا حصہ ہیں یا اس علاقے میں ایسا پہلی بار ہوا؟ بی بی سی کے پوچھنے پر رمیز کے بھائی نے بتایا کہ ’ہم نے آج تک ایسا نہیں دیکھا جو اس بار ہوا۔ یہ جنگ تو لگتا ہے ہمارے گھر کے لیے ہے کیونکہ ہمارے بچے اس میں گئے۔

’رات بادل بھی گرجتے ہیں تو ہم ڈر جاتے ہیں۔ ڈر کا ماحول ہے، سکون ہے ہی نہیں۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقریباً چار روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد بالآخر سنیچر کے روز انڈیا اور پاکستان نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

تاہم انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس واقع قصبے پونچھ کے رہائشی رمیز کے خاندان کے لیے سیز فائر کے اعلان تک تاخیر ہو چکی تھی۔

بی بی سی ہندی کی نامہ نگار دیویا آریا نے رمیز کی اہلیہ عروسہ کی بہن ماریہ سے بھی اس واقعے پر بات کی۔

ماریا خان سات مئی کو سرحد پار گولہ باری میں اپنے بھانجے زین علی اور ان کی جڑواں بہن عروہ کو کھونے کے صدمے میں ہیں۔

انھوں نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر روز کی طرح چھ مئی کو زین اور ان کی بہن عروہ سکول سے واپس آئے، ہوم ورک کیا، تھوڑا کھیلے، کھانا کھایا اور سو گئے۔ابھی صبح کا اجالا نہیں پھیلا تھا جب ہم نے نے اپنے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر فائرنگ اور دھماکوں کی آواز سنی۔‘

ماریا کہتی ہیں کہ وہ سب گھبرا گئے اور گھر میں چھپ گئے، اور کسی قریبی رشتہ دار کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔

’میری بہن عروسہ اپنی بیٹی عروہ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھی اور بہنوئی نے زین کو پکڑا ہوا تھا۔ ابھی گھر سے نکلے ہی تھے کہ ایک گولہ قریب آ کر پھٹا۔ اس کے چھروں نے دس سالہ عروہ کو زخمی کیا اور وہ وہیں جان کی بازی ہار گئیں جبکہ زین دھماکے کی شدت سے دور جا گرا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کی بہن مسلسل اس کو آوازیں دیتی رہیں۔ جب وہ آخرکار نظر آیا تو ایک اجنبی شخص اسے سی پی آر(فرسٹ ایڈ سے سانس دینے کا عمل) دے رہا تھا، مگر زین بچ نہ سکا۔

شدید زخمی اور بے ہوش رمیز خان کو فوراً پونچھ کے مقامی ہسپتال لے جایا گیا تاہم حالت تشویشناک ہونے کے باعث انھیں مزید چار گھنٹے کی مسافت پر واقع جموں شہر کے ایک اور ہسپتال منتقل کیا گیا۔

’آپریشن سندور کے بعد اب ہمارے لیے کون سا مشن کیا جائے گا‘

پونچھ کے رہائشی امریک سنگھ بھی ان افراد میں شامل ہیں جو گولہ باری کی ذد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔

بی بی سی ہندی کو امریک سنگھ کے بھائی نے بتایا کہ جب پونچھ شہر پر شیلینگ شروع ہوئی تو امریکسنگھ نےبچوں کو حفاظت کی غرض سے جلدی جلدی اکھٹا کیا۔ انھوں نے پہلی منزل سے گراؤنڈ فلور پر بنے گہرے بیسمینٹ میں منتقل کرنا شروع کیا۔ اسی دوران امریک سنگھ کو سینے پر ایک شیل لگا جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔‘

امریک سنگھ گزر بسر کے لیے دکان چلایا کرتے تھے۔

امریک سنگھ کی بیٹی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انھیں نہیں بچا سکے۔ وہ ہمیں بچانا چاہ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ میرے بچے بچ جائیں۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ دو منٹ میں یہ ہو جائے گا۔

’پہلگام والوں کے انصاف کے لیے مشن سندور شروع کیا اب ہمارے لیے کون سا مشن کیا جائے گا۔ اس کا احساس اسی کو ہو سکتا ہے جس گھر سے کسی کی میت اٹھی ہے۔‘

بی بی سی ہندی کی رپورٹ کے مطابق سات مئی کو گولہ باری کے دورانپونچھ سٹی میںبنے گرودوارے کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا مگر اس میں اس وقت کوئی موجود نہیں تھا۔

’ایک قیامت تھی جو ہم پر گزر گئی‘

سیز فائر کے اعلان کے باوجود لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والی آبادی کے مکین ابھی بھی وسوسوں اور خوف کا شکار ہیں۔

کھوئی رٹہ کے شہزاد نے اس حوالے سے کہا کہ ’ابھی بھی لوگوں کے اندر اتنا خوف ہے کہ دروازہ بھی زور سے بند ہو تو انھیں ایسا ڈر لگتا ہے کہ جیسے بلاسٹ ہو گیا ہے۔ راتوں کی نیندیں حرام اور دن کا سکون برباد ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یوں سمجھیں کہ ایک قیامت تھی جو ہم پر گزر گئی۔ بھابھی بھی جان سے گئیں اور گھر بھی تباہ و برباد ہوا اور جو بچ گئے ہیں وہ ذہنی طور پر اتنے منتشر ہیں کہ نہ وہ کھاتے نہ چین سے سوتے۔ صورت حال بہت پریشان کن ہے۔‘

’حکومت کو چاہیے تھا کہ سرحد کے قریب رہنے والوں کو پہلے بتاتی‘

سات مئی کی گولہ باری کے بعد سیکڑوں افراد پونچھ اور دیگر سرحدی علاقوں سے نکل کر محفوظ جگہوں کی طرف چلے گئے تھے جو اب جنگ بندی کے بعد وہ آہستہ آہستہ واپس آ رہے ہیں۔

ماریا کہتی ہیں کہ ’حکومت کو چاہیے تھا کہ سرحد کے قریب رہنے والے لوگوں کو پہلے اطلاع دیتی، تاکہ وہ وہاں سے نکل کر محفوظ جگہ جا سکتے تو شاید ہمارے بچے آج زندہ ہوتے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ملک کی سلامتی کے لیے جنگ ضروری ہے تو ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں پہلگام حملے پر بھی افسوس ہے لیکن سرحد کے قریب رہنے والے لوگوں کی جانوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ کیا ہم انسان نہیں؟ اب چاہے جنگ ہو یا سیز فائر ہمارے بچے واپس نہیں آئیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.